ہر اسم تین تجلّیوں کا مجموعہ ہے

مکمل کتاب : لوح و قلم

مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2895

اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم دراصل ایک تجلّی ہے۔ یہ تجلّی اللہ تعالیٰ کی ایک خاص صفَت کی حامل ہے اور اس تجلّی کے ساتھ صفَتِ قدرت کی تجلّی اور صفَت رحمت کی تجلّی بھی شامل ہے۔ اس طرح ہر صفَت کی تجلّی کے ساتھ دو تجلّیاں اور ہیں۔ گویا ہر اسم مجموعہ ہے تین تجلّیوں کا:
ایک تجلّی صفَتِ اسم کی
دوسری تجلّی صفَتِ قدرت کی
تیسری تجلّی صفَتِ رحمت کی
چنانچہ کسی تجلّی کے نام کو اسم کہتے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر اسم مجموعی حیثیت میں دو صفات پر مشتمل ہے۔
ایک خود تجلّی، اور
ایک تجلّی کی صفَت۔
جب ہم اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم ذہن میں پڑھتے ہیں یا زبان سے ادا کرتے ہیں تو ایک تجلّی اپنی صفَت کے ساتھ حرکت میں آجاتی ہے۔ اس حرکت کو ہم علم کہتے ہیں جو فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس ہے۔ یہ حرکت تین اَجزاء پر مشتمل ہے۔
پہلا جُزو تجلّی ہے جو لطیفۂِ اخَفیٰ کے اندر نزول کرتا ہے۔
دوسرا جُزو اس تجلّی کے وصف کی تشکیل ہے جو لطیفۂِ قلبی میں نزول کرتا ہے۔ اور اس ہی جُزو کا نام نگاہ ہے اور اس ہی جُزو کی کئی حرکات کا نام جو یکے بعد دیگرے لطیفۂِ قلبی ہی میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ گفتار و سماعت، شامّہ اور مُشام ہیں۔ اب یہ شامّہ اور مُشام ایک مزید حرکت کے ذریعے رنگوں کے نقش و نگار بن کر لطیفۂِ نفسی کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ لطیفۂِ قلبی اور لطیفۂِ نفسی کی یہی درمیانی کشش عمل یا نتیجہ ہے۔
اِسی طرح روح تین حرکتیں کرتی ہے جو بیک وقت صادِر ہوتی ہیں۔ پہلی حرکت کسی چیز کا جاننا جس کا نزول لطیفۂِ اخَفیٰ میں ہوتا ہے۔ دوسری حرکت محسوس کرنا جس کا نزول لطیفۂِ سری میں ہوتا ہے۔ تیسری حرکت خواہش اور عمل جس کا نزول لطیفۂِ قلبی اور لطیفۂِ نفسی میں ہوتا ہے۔ ہر حرکت ثابِتہ سے شروع ہو کر جَویَّہ پر ختم ہو جاتی ہے۔ جیسے ہی ثابِتہ کے لطیفۂِ اخَفیٰ میں جاننا وقوع پذیر ہُوا، لطیفۂِ خَفی نے اس کو ریکارڈ کر لیا۔ پھر جیسے ہی عین کے لطیفۂِ سری میں محسوس کرنا وقوع پذیر ہوا، لطیفۂِ روحی نے اس کو ریکارڈکر لیا۔ پھر جَویَّہ کے لطیفۂِ قلبی میں اس کا عمل وقوع پذیر ہوا اور لطیفۂِ نفسی نے اس کو ریکارڈ کر لیا۔ ثابِتہ نے جانا، اَعیان نے محسوس کیا اور جَویَّہ نے عمل کیا۔ یہ تینوں حرکات بیک وقت شروع ہوئیں اور بیک وقت ختم ہو گئیں۔ اس طرح زندگی لمحہ بہ لمحہ حرکت میں آتی رہی۔
فرد کی زندگی سے متعلّق علم کی تمام تجلّیاں ثابِتہ میں، فکر کی تمام تجلّیاں اَعیان میں اور عمل کے تمام نُقوش جَویَّہ میں ریکارڈ ہیں۔ عام حالات میں ہماری نظر اس طرف کبھی نہیں جاتی کہ مَوجودات کے تمام اَجسام اور افراد میں ایک مَخفی رشتہ ہے۔ اس رشتہ کی تلاش سوائے اہل روحانیت کے اور کسی قسم کے اہل علم اور اہل فن نہیں کر سکتے حالانکہ اس ہی رشتہ پر کائنات کی زندگی کا انحصار ہے۔ یہی رشتہ تمام آسمانی اجرام اور اجرام کے بسنے والے ذی روح اور غیر ذی روح افراد میں ایک دوسرے کے تعارف کا باعث ہے۔
ہماری نگاہ جب کسی ستارے پر پڑتی ہے تو ہم اپنی نگاہ کے ذریعے ستارے کے بشریٰ کو محسوس کرتے ہیں۔ ستارے کا بشریٰ کبھی ہماری نگاہ کو اپنے نظارے سے نہیں روکتا۔ وہ کبھی نہیں کہتا کہ مجھے نہ دیکھو! اگر کوئی مَخفی رشتہ موجود نہ ہوتا تو ہر ستارہ اور ہر آسمانی نظارہ ہماری زندگی کو قبول کرنے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیدا کرتا۔ یہی مَخفی رشتہ کائنات کے پورے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کئے ہوئے ہے۔
یہاں اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ تمام کائنات ایک ہی ہستی کی ملکیت ہے۔ اگر کائنات کے مختلف اَجسام مختلف ہستیوں کی ملکیت ہوتے تو یقیناً ایک دوسرے کی رُوشناسی میں تصادم پیدا ہو جاتا۔ ایک ہستی کی ملکیت دوسری ہستی کی ملکیت سے متعارف ہونا ہرگز پسند نہ کرتی۔ قرآنِ پاک نے اس ہی مالک ہستی کا تعارف لفظ ‘‘اللہ’’ سے کرایا ہے۔ اسماءِ مقدسہ میں یہی لفظ اللہ اسمِ ذات ہے۔
اسمِ ذات مالکانہ حقوق رکھنے والی ہستی کا نام ہے اور اسم صفات قادرانہ حقوق رکھنے والی ہستی کا نام ہے۔ اوپر کی سطروں میں اللہ تعالیٰ کی دونوں صفات… رحمت اور قدرت کا تذکرہ ہوا ہے۔ ہر اسم قادرانہ صفَت رکھتا ہے اور اسمِ ذات مالکانہ یعنی خالقیّت کے حقوق کا حامل ہے۔ اس کو تصوّف کی زبان میں رحمت کہتے ہیں۔ چنانچہ ہر صفَت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قادرانہ اور رحیمانہ وصف لازم آتا ہے یہی دواَوصاف ہیں جو مَوجودات کے تمام افراد کے درمیان مَخفی رشتہ کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی سورج کی روشنی اہل زمین کی خدمت گزاری سے اس لئے نہیں انکار کر سکتی کہ اہل زمین اور سورج ایک ہی ہستی کی ملکیت ہیں۔ وہ ہستی مالکانہ حقوق میں حاکمانہ قدرتوں سے مُتّصِف بھی ہے اور اس کی رحمت اور قدرت کسی وقت بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتی کہ اس کی ملکیتیں ایک دوسرے کے وُقوف سے منکر ہو جائیں کیونکہ ایسا ہونے سے اس کی قدرت پر حرف آتا ہے۔ اس طرح ہر نقطۂِ تخلیق پر اللہ تعالیٰ کے دو اَوصاف رحمت اور قدرت کا مسلط ہونا لازم ہے چنانچہ یہی دونوں اَوصاف افرادِ کائنات کا باہمی رشتہ ہیں۔
اب یہ حقیقت مُنکشِف ہو جاتی ہے کہ نظامِ کائنات کے قیام، ترتیب اور تدوین پر اللہ تعالیٰ کے دو اسماء کی حکمرانی ہے۔ ایک اسم اللہ اور دوسرا اسم قدیر۔ تمام اسماءِ صفَت میں سے ہر اسم ان دونوں اسماء کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو افرادِ کائنات ایک دوسرے سے رُوشناس نہیں رہ سکتے تھے اور نہ ان سے ایک دوسرے کی خدمت گزاری ممکن تھی۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 57 تا 61

لوح و قلم کے مضامین :

0.01 - انتساب 0.02 - عرضِ احوال 1 - بسمِ اللہِ الرّحمٰن الرّحیم 2 - عالمِ رُؤیا سے انسان کا تعلق 3 - رُؤیا کی صلاحیّتوں کے مَدارِج 4 - لوحِ اوّل یا لوحِ محفوظ 5 - لوحِ دوئم 6 - عالمِ جُو 7 - کثرت کا اَجمال 8 - ‘‘جُو’’ کا واسطہ 9 - احساس کی درجہ بندی 10 - وَحدتُ الوُجود اور وَحدتُ الشُہود 11 - روحِ اعظم، روحِ انسانی، روحِ حیوانی اور لطائفِ ستّہ 12 - اسماءِ الٰہیہ 13 - اسماءِ الٰہیہ کی تعداد گیارہ ہزار ہے 14 - خواب اور بیداری 15 - لوحِ محفوظ اور مراقبہ 16 - تدلّٰی 17 - کُن فیَکون 18 - علمِ لدُنّی 19 - ہر اسم تین تجلّیوں کا مجموعہ ہے 20 - اسمِ ذات 21 - روح کی مرکزیّتیں اور تحریکات 22 - لطیفۂِ نفسی کی حرکت 23 - باصرہ اور شُہود نفسی 24 - عملِ اِسترخاء 25 - علم ‘‘لا’’ اور علم ‘‘اِلّا’’ 26 - ‘‘لا’’ کا مراقبہ 27 - قوّتِ اَلقاء 28 - سالک مجذوب، مجذوب سالک 29 - نسبت کا بیان 30 - ٹائم اسپیس کا قانون 31 - زمانیت اور مکانیت کا راز 32 - کائنات کی ساخت 33 - نیابت کیا ہے؟ 34 - لوحِ محفوظ کا قانون 35 - اَنا یا انسانی ذہن کی ساخت 36 - علمُ الیقین، عینُ الیقین، حقُ الیقین 37 - تخلیق کا قانون 38 - انبیاء کے مقامات 39 - تخلیق کا فارمولا 40 - ماضی اور مستقبل 41 - زمان و مکان کی حقیقت 42 - اِدراک کیا ہے؟
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)