علم ‘‘لا’’ اور علم ‘‘اِلّا’’

مکمل کتاب : لوح و قلم

مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2907

جب ہمیں ایک چیز کی معرفت حاصل ہو گئی، خواہ وہ لاعلمی ہی کی معرفت ہو، بَہرصورت معرفت ہے اور ہر معرفت لوحِ محفوظ کے قانون میں ایک حقیقت ہُوا کرتی ہے۔ پھر بغیر اس کے چارہ نہیں کہ ہم لاعلمی کی معرفت کا نام بھی علم ہی رکھیں۔ اہل تصوّف لا علمی کی معرفت کو علمِ ‘‘لا’’ اور علم کی معرفت کو علمِ ‘‘اِلّا’’ کہتے ہیں۔ یہ دونوں معرفتیں الف انوار کی دو تجلّیاں ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک تجلّی ‘‘لا’’ اور دوسری تجلّی ‘‘اِلّا’’۔
جب کوئی فرد اپنے ذہن میں ان دونوں حقیقتوں کو محفوظ کر لے تو اس کے لئے شُہود کے اَجزاء کو سمجھنا آسان ہے۔ چنانچہ ہر شُہود کے یہی دو اَجزاء ہیں جن میں سے پہلا جُزو یعنی علمِ‘‘لا’’ کو لاشعور کہتے ہیں۔ جب کوئی طالبِ روحانیت لاشعور یعنی علم ‘‘لا’’سے متعارف ہونا چاہتا ہے تو اسے خارجی دنیا کے تمام تُواہَمات، تصوّرات اور خیالات کو بھول جانا پڑتا ہے۔ اُس کو اپنی ذات یعنی اپنے ذہن کی داخلی گہرائیوں میں فکر کرنی چاہئے۔ یہ فکر ایک ایسی حرکت ہے جس کو ہم کسی فکر کی شکل اور صورت میں محدود نہیں کر سکتے۔ ہم اس فکر کو ‘‘فِکرِ لا’’ کہتے ہیں۔ یعنی ہمارے ذہن میں تھوڑی دیر کے لئے یا زیادہ دیر کے لئے ایسی حالت وارِد ہو جائے جس میں ہر زاویہ لاعلمی کا ہو۔ اس ‘‘فِکرِ لا’’ کو ہم عملِ اِسترخاء کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ عملِ اِسترخاء کے تواتُر سے ذہن کے اندرونی دائرے ہر فکر سے خالی ہو جاتے ہیں۔ گویا اس وقت ذہن ‘‘فِکرِ لا’’میں مُستَغرق ہو جاتا ہے اور اس اِستَغراق میں لاشعور کا شُہود حاصل ہو جاتا ہے۔
‘‘لا’’ کے انوار الٓمّٓ کے انوار کا جُزو ہیں۔ الٓمّٓ کے انوار کو سمجھنے کے لئے لا کے انوار کا تعیّن اور ان کی تحلیل ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ لا کے انوار اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جو وحدانیت کا تعارف کراتی ہیں۔ کئی مرتبہ لوگ یہ سوال کر بیٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے پہلے کیا تھا؟ ایک صوفی کے یہاں جب سُلوک کا ذہن پوری طرح تربیت پا جاتا ہے اور لا کے انوار کی صفَت سے واقف ہو جاتا ہے تو پھر اس کے ذہن سے اس سوال کا خانہ حذف ہو جاتا ہے کیونکہ صوفی اللہ تعالیٰ کی صفَت لا سے واقف ہونے کے بعد خیال کو بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی سے پہلے بھی کسی موجودگی کا امکان ہے۔ لا کے انوار سے واقف ہونے کے بعد سالک کا ذہن پوری طرح وحدانیت کے تصوّر کو سمجھ لیتا ہے۔ یہی وہ نقطۂِ اوّل ہے جس سے ایک صوفی یا سالک اللہ تعالیٰ کی معرفت میں پہلا قدم رکھتا ہے۔ اس قدم کے حدود اور دائرے میں پہلے پہل اسے اپنی ذات سے رُوشناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔ یعنی وہ تلاش کرنے کے باوجود خود کو کہیں نہیں پاتا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح احساس اور معرفت کا صحیح مفہوم اس کے احساس میں کروٹیں بدلنے لگتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کو فنائیت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کو بعض لوگ فناءِ الٰہیت بھی کہتے ہیں۔ جب تک کسی سالک کے ذہن میں ‘‘لا’’ کے انوار کی پوری وسعتیں پیدا نہ ہو جائیں وہ اس وقت تک ‘‘لا’’ کے مفہوم یا معرفت سے رُوشناس نہیں ہو سکتا۔ کوئی سالک إبتداء میں ‘‘لا’’ کے انوار کو اپنے اِدراک کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے۔ یہ احساس شعور کی حدوں سے بہت دُور اور بعید تر رہتا ہے۔ اس ہی لئے اس احساس کو شعور سے بالاتر یا لاشعور کہہ سکتے ہیں لیکن فکر کی پرواز اس کو چھو لیتی ہے۔ وہ حالات جو عام طور سے اللہ تعالیٰ کی محبّت کا اِستَغراق پیدا کرتی ہے، سالک کے ذہن میں اُس فکر کو تخلیق کرتی ہے اور تربیت دیتی ہے۔ تفہیم کے اسباق میں پہلا سبق جو جاگنے کا عمل ہے، اُس اِستَغراق کے حصول میں بڑی حد تک معاون ہوتا ہے جب اس سبق کے ذریعے صوفی کا ذہن اِستَغراق کے نقش و نگار کی إبتداء کر چکتا ہے اور اس کے اندر قدرے قوّتِ اَلقاء پیدا ہو جاتی ہے تو اس فکر کی بنیادیں پڑ جاتی ہیں۔ پھر استرخاء کے ذریعے اُس فکر میں حرکت، آب و تاب اور توانائی آنے لگتی ہے۔ جب یہ توانائی نشوونما پا چکتی ہے، اس وقت ‘‘لا’’ کے انوار وَرود میں نگاہِ باطن کے سامنے آنے لگتے ہیں اور پھر ان انوار کا وَرود اس فکر کو اور زیادہ لطیف بنا دیتا ہے، جس سے لاشُہود نفسی کی بناء قائم ہو جاتی ہے۔ اِس ہی لاشُہود کے ذہن میں خضر علیہ السّلام، اولیائے تکوین اور ملائکہ پر نظر پڑنے لگتی ہے اور اُن سے گفتگو کا اتفاق ہونے لگتا ہے۔ اِس ہی لاشُہود نفسی کی ایک صلاحیّت خضر علیہ السّلام، اولیائے تکوین اور ملائکہ کے اشارات و کنایات کا ترجمہ سالک کی زبان میں اس کی سماعت تک پہنچاتی ہے۔ رفتہ رفتہ سوال و جواب کی نوبت آ جاتی ہے اور ملائکہ کے ذریعے غیبی انتظامات کے کتنے ہی انکشافات ہونے لگتے ہیں۔
‘‘لا’’ کے مراقبے میں آنکھوں کے زیادہ سے زیادہ بند رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔ مناسب ہے کہ کوئی روئیں دار رومال یا کپڑا آنکھوں کے اوپر بطور بندش استعمال کیا جائے۔ بہتر ہو گا کہ کپڑا تولیہ کی طرح روئیں دار ہو یا اس قسم کا تولیہ ہی استعمال کیا جائے۔ جس کا رؤاں لمبا اور نرم ہو۔ لیکن رؤاں باریک نہ ہونا چاہئے۔ بندش میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ آنکھوں کے پپوٹے تولیہ یا کپڑے کے روئیں کی گرفت میں آ جائیں۔ یہ گرفت ڈھیلی نہیں ہونی چاہئے۔ اور نہ اتنی سخت کہ آنکھیں درد محسوس کرنے لگیں۔ منشاء یہ ہے کہ آنکھوں کے پپوٹے تھوڑا سا دباؤ محسوس کرتے رہیں۔ مناسب دباؤ سے آنکھوں کے ڈیلوں کی حرکت بڑی حد تک معطّل ہو جاتی ہے۔ اس تعطّل کی حالت میں جب نگاہ سے کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے تو آنکھ کی باطنی قوّتیں جن کو ہم روحانی آنکھ کی بینائی کہہ سکتے ہیں، حرکت میں آ جاتی ہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 77 تا 80

لوح و قلم کے مضامین :

0.01 - انتساب 0.02 - عرضِ احوال 1 - بسمِ اللہِ الرّحمٰن الرّحیم 2 - عالمِ رُؤیا سے انسان کا تعلق 3 - رُؤیا کی صلاحیّتوں کے مَدارِج 4 - لوحِ اوّل یا لوحِ محفوظ 5 - لوحِ دوئم 6 - عالمِ جُو 7 - کثرت کا اَجمال 8 - ‘‘جُو’’ کا واسطہ 9 - احساس کی درجہ بندی 10 - وَحدتُ الوُجود اور وَحدتُ الشُہود 11 - روحِ اعظم، روحِ انسانی، روحِ حیوانی اور لطائفِ ستّہ 12 - اسماءِ الٰہیہ 13 - اسماءِ الٰہیہ کی تعداد گیارہ ہزار ہے 14 - خواب اور بیداری 15 - لوحِ محفوظ اور مراقبہ 16 - تدلّٰی 17 - کُن فیَکون 18 - علمِ لدُنّی 19 - ہر اسم تین تجلّیوں کا مجموعہ ہے 20 - اسمِ ذات 21 - روح کی مرکزیّتیں اور تحریکات 22 - لطیفۂِ نفسی کی حرکت 23 - باصرہ اور شُہود نفسی 24 - عملِ اِسترخاء 25 - علم ‘‘لا’’ اور علم ‘‘اِلّا’’ 26 - ‘‘لا’’ کا مراقبہ 27 - قوّتِ اَلقاء 28 - سالک مجذوب، مجذوب سالک 29 - نسبت کا بیان 30 - ٹائم اسپیس کا قانون 31 - زمانیت اور مکانیت کا راز 32 - کائنات کی ساخت 33 - نیابت کیا ہے؟ 34 - لوحِ محفوظ کا قانون 35 - اَنا یا انسانی ذہن کی ساخت 36 - علمُ الیقین، عینُ الیقین، حقُ الیقین 37 - تخلیق کا قانون 38 - انبیاء کے مقامات 39 - تخلیق کا فارمولا 40 - ماضی اور مستقبل 41 - زمان و مکان کی حقیقت 42 - اِدراک کیا ہے؟
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)