یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔

ہجرت حبشہ

مکمل کتاب : بچوں کے محمد ﷺ (جلد اول)

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=31116

حضرت محمد ﷺ کی کوششوں سے مکہ میں دین اسلام تیزی سے پھیل رہا تھا۔مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر کفار مکہ کو تشویش ہو گئی۔حضرت محمدﷺ کے ساتھ ساتھ انہوں نے دوسرے مسمانوں پر بھی ظلم کرنا شروع کر دیا۔

جب مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تو حضرت محمد ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔حبشہ افریقہ میں واقعہ ہے۔آج کل حبشہ ایتھوپیا کے نام سےپہچانا جاتا ہے۔ اس زمانہ میں حبشہ کے بادشاہ کو نجاشی کہتے تھے۔نجاشی عیسائی دین کا پابند تھا۔بہت انصاف پسند اور رحم دل بادشاہ تھا۔نجاشی کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو تکلیف نہیں پہنچاتا تھا۔حبشہ میں ہر شخص کو مذہب کی مکمل آزادی تھی۔

مسلمان چھوٹے چھوٹے گروہوں میں مکہ سے نکل کر سمندر کے کنارے جمع ہو گئے اور کشتی پر سوار ہو کر حبشہ کی طرف روانہ ہو گئے۔یہ مسلمانوں کی پہلی ہجرت تھی جسے ہجرت حبشہ کہا جاتا ہے۔اس سفر میں پندرہ مسلمانوں نے ہجرت کی ۔

آہستہ آہستہ مسلمان ہجرت کر کے حبشہ پہنچتے رہے اور کچھ عرصہ میں مسلمانوں کی تعداد ۱۰۹ ہو گئی۔ مہاجرین امن و سکون کے ساتھ حبشہ میں رہنے لگے۔

دوسری طرف مکے کے کافروں کو جب  معلوم ہوا کہ مسلمان حبشہ چلے گئے ہیں تو انہوں نے اس کو اپنی شکست اور ناکامی محسوس کی۔  وہ اس بات سے پریشان تھے کہ حبشہ میں اسلام پھیل جائے گا۔چنانچہ وہ مسلمانوں کو مکہ واپس لانے کی ترکیبیں سوچنے لگے۔

کفار نے منصوبہ بنا کر عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیع کو حبشہ بھیجا۔کفار کے دونوں نمائندے بادشاہ کے لئے قیمتی تحائف لے کر شاہی دربار میں پہنچے اور بادشاہ سے فریاد کی:

“اے بادشاہ! اپنے وطن میں جن لوگوں کو تو نے پناہ دے رکھی ہے وہ ہمارے مجرم ہیں۔انہوں نے اپنے آباو اجداد کے دین کو چھوڑ کرایک نیا دین اختیار کر لیا ہے۔آپ انہیں ہمارے حولہ کر دیںں تاکہ ہم انہیں مکہ واپس لے جائیں۔”

نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلایا اور کہا:

“یہ دو افراد مکہ سے آئے ہیں اور کہتے ہیں تم لوگ مجرم ہو۔کیا تم لوگ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہو۔”

مسلمانوں کی طرف سے حضرت جعفرؓ نے جواب دیا:

“اے بادشاہ!

ہم لوگ جاہل تھے۔بتوں کو پوجتے تھے۔لوٹ مار، چوری، قتل و غارت گری اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا تھے۔بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ہماری قوم میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا۔اس مقدس ہستی نے ہمیں اسلام کی دعوت دی اور بتایا کہ پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں۔ایک اللہ کی عبادت کریں سچ بولیں۔امانت میں خیانت نہ کریں۔رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے اچھا سلوک کریں۔

اے بادشاہ!

ہم اس پیغمبر پر ایمان لے آئے۔ اس کی وجہ سے ہماری قوم ہماری دشمن بن گئی۔ان لوگوں نے ہمیں اتنی تکلیف پہنچائی ہے اور ہمیں اتنا ستایا ہے کہ ہم نے اپنا وطن چھوڑ دیا اور آپ کے ملک میں پناہ لے لی ہے۔یہ لوگ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم پھر پرانی گمراہی میں لوٹ جائیں۔”

حضرت جعفرؓ کی باتیں سن کر نجاشی نے کہا:

“تمہارے پیغمبر پر جو اللہ کا کلام نازل ہوا ہے اس میں سے کچھ سناو۔”

حضرت جعفرؓ نے سورۃ مریم کی آیات تلاوت کیں۔نجاشی یہ آیات سن کر رو پڑا۔

اس نے کہا:

“تمہارا پیغمبر ایک عظیم اور سچا انسان ہے یقیناً یہ کلام بھی اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے جس نے حضرت عیسیٰ ؑپر انجیل نازل فرمائی تھی۔تم لوگ جب تک چاہو میرے ملک میں آزادی سے رہ سکتے ہو۔کوئی تمہیں اس ملک سے نہیں نکالے گا۔”

نجاشی نے  عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیع کے لائے ہوئے تحفے واپس کر دیے اور یہ لوگ ناکام مکہ واپس لوٹ گئے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 28 تا 30

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)