یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
کاروبار
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12429
ایک صاحب دکان لگائے بیٹھے ہیں اور طرح طرح کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں ان میں سامان وغیرہ کچھ نہیں ہے۔ کتنا اداس اور پریشان ہے یہ شخص۔ پوچھا۔ ’’تمہارا کیا حال ہے‘‘۔ کہا۔ ’’میں اس بات سے غمگین ہوں کہ مجھے پانچ سو سال بیٹھے ہوئے ہو گئے ہیں۔ میرے پاس ایک گاہک بھی نہیں آیا ہے‘‘۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ شخص دنیا میں سرمایہ دار تھا۔ منافع خوری اور چور بازاری اس کا پیشہ تھا۔
برابر کی دکان میں ایک اورآدمی بیٹھا ہوا ہے بوڑھا آدمی ہے۔ بال بالکل خشک الجھے ہوئے ، چہرے پر وحشت اور گھبراہٹ ہے۔ سامنے کاغذ اور حساب کے رجسٹر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک کشادہ اور قدرے صاف دکان ہے۔ یہ صاحب کاغذ قلم لئے رقموں کی میزان دے رہے ہیں اور جب رقموں کا جوڑ کرتے ہیں تو بلند آواز سے اعداد گنتے ہیں۔ کہتے ہیں ۔’’دو اور دو سات، سات اور دو دس، دس اور دس انیس‘‘۔ اس طرح پوری میزان کر کے دوبارہ ٹوٹل کرتے ہیں تا کہ اطمینان ہو جائے اب اس طرح میزان دیتے ہیں۔ ’’ دو اور تین پانچ، پانچ اور پانچ سات، سات اور نو بارہ‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرتبہ جب میزان کی جانچ کرتے ہیں تو میزان غلط ہوتی ہے اور جب دیکھتے ہیں کہ رقموں کا جوڑ صحیح نہیں ہے تو وحشت میں چیختے چلاتے ہیں۔ بال نوچتے ہیں اور خود کو کوستے ہیں۔ بڑبڑاتے اور سر کو دیوار سے ٹکراتے ہیں اور پھر دوبارہ میزان میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ بڑے میاں سے پوچھا۔’’جناب! آپ کیا کر رہے ہیں۔ کتنی مدت سے آپ اس پریشانی میں مبتلا ہیں‘‘۔
بڑے میاں نے غور سے دیکھا اور کہا۔ ’’میری حالت کیا ہے کچھ نہیں بتا سکتا، چاہتا ہوں کہ رقموں کی میزان صحیح ہو جائے مگر تین ہزار سال ہو گئے ہیں کم بخت یہ میزان صحیح ہونے میں نہیں آتی۔ اس لئے کہ میں زندگی میں لوگوں کے حسابات میں دانستہ ہیر پھیر کرتا تھا بدمعاملگی میرا شعار تھا۔
علماء سو سے تعلق رکھنے والے ان صاحب سے ملیئے۔ داڑھی اتنی بڑی جیسے جھڑبیر کی جھاڑی۔ چلتے ہیں تو داڑھی کو اکٹھا کر کے کمر کے گر دلپیٹ لیتے ہیں، اس طرح جیسے پٹکا لپیٹ لیا جاتا ہے۔ چلنے میں داڑھی کھل جاتی ہے اور اس میں الجھ کر زمین پر اوندھے منہ گر جاتے ہیں۔ اٹھنے میں داڑھی پھر کھل جاتی ہے اور الجھ کر منہ کے بل گرتے ہیں۔ سوال کرنے پر انہوں نے بتایا۔ ’’ دنیا میں لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے میں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور داڑھی رکھنا میرے نزدیک بڑی نیکی تھی اس نیکی کے ذریعے بہت آسانی سے سیدھے اور نیک لوگوں سے اپنی مطلب برآری کر لیا کرتا تھا۔‘‘
وہ دیکھیئے سامنے بستی سے باہر ایک صاحب زور، زور سے آواز لگا رہے ہیں۔ ’’اے لوگو! آؤ میں تمہیں اللہ کی بات سناتا ہوں۔ اے لوگو! آؤ اور سنو، اللہ تعالیٰ کیا کیا فرماتے ہیں‘‘۔ کوئی بھی آواز پر کان نہیں دھرتا البتہ فرشتوں کی ایک ٹولی ادھر آ نکلتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 276 تا 278
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔