ڈاکٹر نصیر احمد ناصر
مکمل کتاب : رُوحانی حج و عُمرہ
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14456
اسلامیہ یونیورسٹی (بہاولپور) کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ اسلامی موضوعات پر بے شمار شہرہ آفاق کتب لکھ چکے ہیں۔ ’’سیرت طیبہ‘‘ پر کتاب لکھنے پر سعودی عرب نے ڈاکٹر صاحب کو گراں قدر انعام سے نوازا اور شاہی مہمان بنا کر مقدس تاریخی مقامات کی سیر کروائی۔
حج کے دوران آپ کے ذہن میں سوال ابھرا حجاج کو عرفات میں دن چڑھ آنے اور دن ڈھلنے سے پہلے یہاں سے کوچ کر جانے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ:
’’ایک رات میں ذکر و فکر میں مستغرق، خواب و بیداری کے عالم میں تھا کہ ایک پر اسرار بزرگ ہستی نے مجھ سے فرمایا کہ تم یہ معلوم کرنا چاہتے ہو کہ انسانوں کو کیوں صرف دن کی حاضری لازم ہے اور شام سے پہلے کیوں انہیں عرفات خالی کرنا پڑتا ہے؟ یہ راز اسرار حج میں سے ہے۔ یہ راز ’دوست‘ ہے جسے عشق ہی سمجھ سکتا ہے۔ عشق و ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ اہل عشق ہی اللہ تعالیٰ کے دوست اور مومن ہوتے ہیں۔
حقیقت ہے کہ عشق ہی صدق، ایمان اور عبادت ہے نیز وہی شاہد، مشہود اور شہود ہے۔ بہرحال تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دن کو اپنی خاکی مخلوق اور رات کو اپنی ناری مخلوق جنوں کے لئے مخصوص کیا ہے لہٰذا انسان وہاں رات بسر کرنے کے اور جن وہاں دن گزارنے کے مجاز نہیں۔ انس و جن اور ملائکہ کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات ہیں جو اس وادی لبیک میں حاضری دیتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر نصیر احمد صاحب لکھتے ہیں:
’’عرفات کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہم نے سب سے پہلے مسجد نمرہ کی زیارت کی۔ جہاں خطبہ حج دیا جاتا ہے اور اس دن ظہر اور عصر کی قصر نمازیں ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ یہ نوری اور ناری مخلوق کی زیارت گاہ بھی ہے۔ یہ کشادہ مسجد ہے جس کی فضاء اہل جذب و شوق کے پسینے کی خوشبوئے جاں فزا سے مہکتی رہتی ہے۔ اس کے خاموش اور تنہا ماحول میں ہم نے فرداً فرداً نفل پڑھے لیکن خدا جانے کیوں مجھے ایسا محسوس ہوتا رہا کہ ہمارے سوا اور بھی غیر مرئی ہستیاں وہاں ذکر و فکر اور قیام و سجود میں مشغول ہیں۔ یہ احساس روح پرور بھی تھا اور بصیرت افروز بھی۔ مسجد نمرہ سے ہم جبل رحمت گئے۔ یہ چھوٹی سی پہاڑی ہے اوپر چڑھنے کے لئے زینے بنے ہوئے تھے۔ ہم ان کے ذریعے آسانی سے اوپر چڑھے جہاں چبوترا بنا ہوا ہے۔ حج کے دن جبل رحمت پر پہنچنا از بس دشوار بلکہ عموماً محال ہوتا ہے کیونکہ لاکھوں حجاج کو اس چوٹی پر پہنچنے اور نفل پڑھنے کی طلب اور جستجو ہوتی ہے لہٰذا ان کے عشر عشیر ہی کو اپنی آرزو پوری کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں وہاں نفل پڑھنے کی سعادت ملی۔ یہ تصور اور احساس کی پیغمبر اعظم و آخرﷺ وہاں تشریف فرما ہوئے تھے بیک وقت سرور انگیز بھی تھا اور رقت آمیز بھی۔ روح قدم بوسی کے لئے تڑپی دل میں اس مقام پر سجدہ ریز ہونے کی آرزو مچلنے لگی۔ جسے آپﷺ کے پائے مبارک چومنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی میں نے اس مقام کے لئے دعا مانگی اور ایک جگہ سر بسجود ہو گیا۔ ایک خاص قسم کی خوشبو آئی ار مشام جاں کو معطر کر گئی۔ آپﷺ کے نقش قدم پر سربسجود ہونے سے جو کیف و سرور حاصل ہوا اس کا بیان محال ہے۔ روح کو آرزو تھی کہ اپنے مسیحا ہادی’دوست‘ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدم مبارک میں پڑا رہوں اور زمانے کی گردش رک جائے اور ساعت حضوری جاویداں بن جائے لیکن ایسی آرزو کہاں پوری ہوتی ہے۔ نفل و دعا سے فارغ ہوئے تو ہمارے دل کی عجیب حالت تھی۔ ہم گرد و پیش کے صحرائی، کوہستانی مناظر دیکھنے لگے۔ ان کے نظارے میں آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سوز اور روح کا جذب و شوق تھا۔
’دوست‘ نے دیکھنا اور سوچنا مجھے قطرہ ودیعت کیا ہے۔ سوچ کے سفر کے ساتھ احساسات اور جذبات کی کیفیت بھی بدلتی رہتی ہے۔ میری اس سوچ نے مجھے کسی اور ہی عالم میں پہنچا دیا کہ اس وادی مقدس میں کروڑوں صدیقین، شہدا اور صالحین نے اپنے اللہ کے حضور حاضری دی ہو گی اور جبل رحمت میں خاص طور پر اس کی بارگاہ میں سربسجود ہوئے ہوں گے نیز ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ’دوست‘ نے ہمیں بھی اس میدان مقدس میں اپنے حضور حاضری دینے اور اپنی بارگاہ میں جبیں عجز و نیاز جھکانے کی سعادت بخشی ہے۔ اس عالم جذب و مستی میں کیا دیکھتا ہوں کہ جبل رحمت پر بالخصوص نور رحمت کی بارش ہو رہی ہے۔ میں نے برف باری کی تعبیر اس لئے اختیار کی کہ نور رحمت کے گرنے کا نظارہ بارش کی طرح نہیں برف باری کی طرح ہوتا ہے۔ یہ بڑا ہی حسین و نظر افروز، دل آویز اور بصیرت افروز اور سرورانگیز اور کیف آفرین منظر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا اہل شوق و نظر ہی کو عین الیقین بلکہ حق الیقین ہوتا ہے کہ یہ پہاڑی سچ مچ جبل رحمت ہے۔ کیوں کہ یہاں رحمت برستی ہے اور دلوں کو زندہ کرتی رہتی ہے۔ اگلے دن ہم نے دوبارہ عمرہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ عمرہ کرنے کیلئے احرام باندھنے کے مقام میقات گئے۔ احرام باندھا، نوافل پڑھے اور حرم پہنچ گئے۔ اس دفعہ عمرے نے صہبائے دو آتشہ کا نشہ و کیف اور جذب و سرور بخشا۔ طواف شروع کرتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ اللہ اپنے گھر میں جلوہ بداماں ہے۔ دل کے لئے یہ حشر بداماں نظارہ تھا۔ اور وہ کس طرح حریف نظارہ ہوا ’دوست‘ ہی یہ راز جانتا ہے مجھ پر جذب و مستی اور جنون و شوق کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اہل جذب و شوق کے ساتھ میں بھی طواف میں مشغول ہو گیا تھا۔ میں بھی رکن یمانی کو لمس کرتا اور حجر اسود کو چومتا اور دعائیں مانگتا رہا لیکن نظریں اپنے اللہ پر مرتکز رہیں اور اس کے جمال سے جمالیاتی ٹھنڈک حاصل کرتی رہیں۔ یہ جمالیاتی ٹھنڈک تاثیر حسن ہوتی ہے۔
جمالیاتی لذت و سرور اور کیف و مستی کی روح پرور اور مسحور کن خنکی میں مجھے کچھ ہوش نہ تھا۔ جذب و مستی کو عالم میں والہانہ طواف کر رہا تھا۔ دفعتاً کسی نے میرا بازو پکڑا۔ میں نے دیکھا تو وہ میری بیگم تھی۔ کہا۔ ’’کب تک طواف کرتے رہیں گے؟ سات چکر تو کب کے پورے ہو چکے۔ چلیں اب سعی کریں۔‘‘ بیگم کی آواز سے میں چونک پڑا۔ اس نے مجھے قرب حضور کی سعادت ہی سے نہیں، جمالیاتی ٹھنڈک سے بھی محروم کر دیا۔ میرے دل پر جو گزری، میرا اللہ ہی جانتا ہے۔ نور کی برف باری اب بھی ہو رہی تھی، فرشتوں کے آنے جانے کا تانتا ابھی بھی بندھا ہوا تھا۔ جن و انس برابر طواف کر رہے تھے۔ ان میں اہل نظر اور صاحب حسن سرور بھی تھے۔ وہاں سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا لیکن اب ’دوست‘ جلوہ بداماں نہ تھا۔ میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ وہ جمالیاتی لمحات ہی میں شوق و نظر کو اپنی دید کی سعادت سے بہرہ مند کرتا ہے۔
* ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ میں تھا۔ میرے پاس ایک یمن کے رہنے والے بزرگ آئے اور فرمایا کہ میں تمہارے لئے ایک ہدیہ لایا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک دوسرے صاحب جو ان کے ساتھ تھے کہا کہ اپنا قصہ ان کو سناؤ۔ انہوں نے اپنا یہ قصہ سنایا کہ جب میں حج کے ارادے سے صفا سے چلا تو ایک بڑا مجمع مجھے رخصت کرنے کے واسطے آیا۔ اور رخصت کرتے وقت ایک شخص نے ان میں سے مجھ سے کہہ دیا کہ جب تم مدینہ طیبہ میں حاضر ہو تو حضور اقدسﷺ اور حضرات شیخین کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دینا۔ میں مدینہ طیبہ میں حاضر ہوا اور اس آدمی کا سلام عرض کرنا بھول گیا۔ جب مدینہ منورہ سے رخصت ہو کر پہلی منزل ذوالحلیفہ پر پہنچا اور احرام باندھنے لگا تو مجھے اس شخص کا سلام یاد آ گیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میرے اونٹ کا بھی خیال رکھنا مجھے مدینہ طیبہ واپس جانا پڑ گیا۔ ایک چیز بھول آیا ہوں۔ ساتھیوں نے کہا کہ اب قافلہ کی روانگی کا وقت ہے تم پھر مکہ تک قافلے کو نہ پا سکو گے۔ میں نے کہا کہ پھر میری سواری کو بھی اپنے ساتھ لیتے جانا۔ یہ کہہ کر میں مدینہ طیبہ لوٹ آیا اور روضہ اقدس پر حاضر ہو کر اس شخص کا سلام میں نے حضورﷺ اور حضرات شیخین کی خدمت میں پہنچایا۔ اس وقت رات ہو چکی تھی میں مسجد سے باہر نکلا۔ تو ایک آدمی ذوالحلیفہ کی طرف آتا ہوا ملا۔ میں نے اس سے قافلے کا حال پوچھا۔ اس نے کہا وہ روانہ ہو گیا ہے۔
میں مسجد میں لوٹ آیا اور یہ خیال ہوا کہ کوئی دوسرا قافلہ کسی وقت جاتا ہوا ملے گا تو اس کے ساتھ روانہ ہو جاؤنگا۔ میں رات کو سو گیا آخیر شب میں حضور پاکﷺ اور حضرات شیخین کی زیارت کی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضور اقدسﷺ سے عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ یہ شخص ہے۔ حضورﷺ میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا ابوالوفاء۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میری کنیت تو ابوالعباس ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا تم ابو الوفاء ہو۔ اس کے بعد حضورﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مسجدالحرام میں پہنچا دیا۔ میں مکہ مکرمہ میں آٹھ دن تک مقیم رہا اس کے بعد میرے ساتھیوں کا قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا۔
* قافلہ کے ساتھ ایک بزرگ حج کو جا رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک عورت قافلے کے آگے چل رہی ہے۔ میں نے خیال کیا کہ یہ ضعیفہ امداد کی مستحق ہے۔ میرے پاس چند درہم تھے میں نے اسے دیئے۔ اس نے ہاتھ اوپر کر لئے۔ میں نے ضعیفہ سے کہا کہ جب قافلہ پڑاؤ کرے گا تو میں لوگوں سے چندہ جمع کر کے تجھے اور درہم دوں گا۔ بزرگ خاتون نے کہا، ہاتھ بڑھا۔ اور اس نے مجھے بہت سارے درہم دیئے اور کہا کہ اے شخص تو نے جیب سے درہم دیئے ہیں اور ہم نے تجھے غیب سے دیئے ہیں۔
* تاجروں کی ایک جماعت ایک مرتبہ حج کو گئی۔ راستے میں جہاز خراب ہو گیا۔ حج کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ ان میں سے ایک شخص کے پاس پچاس ہزار اشرفیوں کا مال تھا وہ اس کو چھوڑ کر پیدل چل دیا۔ ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ تو اگر یہاں ٹھہر جائے تو تیرا مال فروخت ہو سکتا ہے۔ تاجر نے کہا۔ خدا کی قسم اگر ساری دنیا کا مال بھی مجھے مل جائے تب بھی حج کے مقابلے میں اس کو ترجیح نہ دونگا کہ وہاں کی حاضری میں اولیاء اللہ کی زیارت نصیب ہو گی اور میں ان حضرات میں جو کچھ دیکھ چکا ہوں بیان سے باہر ہے۔ لوگوں نے پوچھا۔ آخر تو نے کیا دیکھا، اس تاجر نے سنایا۔ ایک مرتبہ ہم حج کو جا رہے تھے کہ پیاس کی شدت نے سب کو پریشان کر دیا۔ کہیں پانی کا گھونٹ نہ قیمت سے ملا اور نہ کسی طرح اور پیاس کی وجہ سے میرا دم نکلنے لگا۔ میں چند قدم آگے چلا تو ایک فقیر جس کے ہاتھ میں ایک برچھا اور ایک پیالہ تھا اس نے اپنے برچھے کو زمین میں گاڑھ دیا۔ اس کے نیچے سے پانی ابلنے لگا میں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور اپنا مشکیزہ بھی بھر لیا۔ اس کے بعد قافلے والوں کو میں نے خبر کی۔ سب قافلے والے اس سے سیراب ہوئے۔
* ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں بہت پریشان حال اور مضطرب دل تھا۔ بے چین اور بے قرار واری اور زاد راہ کے بغیر میں مکہ مکرمہ کی طرف چل پڑا۔ تین دن اسی طرح چلتا رہا۔ چوتھے دن پیاس کی شدت سے مرنے کے حال کو پہنچ گیا۔ ریگستان میں کہیں درخت نہیں تھا میں نے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیا اور قبلہ کی جانب منہ کر کے بیٹھ گیا۔ غنودگی میں ایک شخص نے میری طرف ہاتھ بڑھا کر کہا، ہاتھ بڑھاؤ۔ میں نے ہاتھ کھول دیا۔ انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور فرمایا تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ تم حج کرو گے اور روضہ اطہر کی زیارت کرو گے۔ میں نے پوچھا۔آپ کون صاحب ہیں؟ فرمایا، میں خضرؑ ہوں۔ میں نے عرض کیا، میرے لئے دعا کیجئے۔ حضرت خضرؑ نے کہا یہ الفاظ تین دفعہ دہراؤ۔’’اے پاک ذات جو اپنی مخلوق پر مہربان ہے۔ اپنی مخلوق کے حال کو جانتا ہے۔ ان کی ضروریات سے باخبر ہے۔ تو مجھ پر لطف و مہربانی فرما۔ اے لطیف، اے علیم، اے خبیر۔‘‘۔۔۔۔۔۔پھر فرمایا کہ یہ ایک تحفہ ہے جو ہمیشہ کام آنے والا ہے۔ جب تجھے کوئی پریشانی پیش آئے یا کوئی آفت نازل ہو تو اس کو پڑھ لیا کر۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر خضر غائب ہو گئے۔ مجھے ایک شخص نے یا شیخ یا شیخ کہہ کر آواز دی میں اس کی آواز سے ہوش میں آ گیا۔ وہ شخص اونٹنی پر سوار تھا۔ مجھ سے پوچھنے لگا ایسی صورت اور ایسے حلئے کا کوئی نوجوان کبھی تم نے دیکھا ہے۔ میں نے کہا۔ نہیں۔ اس شخص نے کہا ہمارا ایک اپنا عزیز سات دن ہو گئے گھر سے چلا گیا ہے۔ ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ وہ حج کو جا رہا ہے۔ پھر اس سوار نے مجھ سے پوچھا کہ تم کہاں کا ارادہ کر رہے ہو؟ میں نے کہا جہاں اللہ تعالیٰ لے جائے۔ اس نے اپنی اونٹنی بٹھائی اور اس سے اتر کر توشہ دان میں سے دو روٹیاں اور حلوہ مجھے دیا۔ پینے کے لئے پانی دیا اور پھر اس نے مجھے اپنے پیچھے اونٹ پر سوار کر لیا۔ ہم دو رات اور ایک دن چلے۔ تو قافلہ ہمیں مل گیا۔ وہاں اس نے قافلے والوں سے اس نوجوان کا حال دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ قافلے میں ہے۔ وہ مجھے چھوڑ کر تلاش میں گیا۔ تھوڑی دیر بعد نوجوان کو لے کر میرے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا۔ بیٹا اس شخص کی برکت سے اللہ جل شانہ نے تیری تلاش مجھ پر آسان کر دی۔ میں ان دونوں کو رخصت کر کے قافلے کے ساتھ چل دیا۔
* ایک بزرگ کہتے ہیں کہ جماعت کے ساتھ مکہ مکرمہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہم میں ایک ہاشمی بزرگ بھی تھے۔ ان پر غنودگی طاری ہو گئی۔ جب وہ نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے جو کچھ دیکھا وہ تم نے بھی دیکھا ہے۔ ہم نے کہا، ہمیں تو کچھ نظر نہیں آیا۔ کہنے لگے کہ میں نے فرشتوں کو دیکھا ہے کہ احرام باندھے ہوئے طواف کر رہے ہیں۔ میں نے طواف کرنے والوں سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ کہنے لگے۔ ہم فرشتے ہیں۔ میں نے پوچھا تمہاری محبت اللہ کے ساتھ کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا ہماری محبت اندر سے ہے تمہاری محبت باہر سے ہے۔
* ایک بزرگ مدینہ طیبہ میں حاضر تھے۔ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو روضہ اقدس پر الوداعی سلام کر رہا تھا۔ جب وہ ذوالحلیفہ پہنچا تو نماز پڑھی۔ احرام باندھا۔ جب وہ چلنے لگا تو بزرگ نے کہا۔ میں تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔ اس نے انکار کر دیا۔ جب زیادہ اصرار کیا تو اس شخص نے کہا کہ میرے قدم پر قدم رکھتے چلے آؤ۔ وہ ایک غیر معروف راستے پر چلا تو بزرگ قدم بقدم اس کے پیچھے ہو لئے۔ تھوڑی دیر میں چراغ نظر آنے لگے۔ اس شخص نے کہا یہ جگہ مسجد عائشہ ہے۔ یا تو تم آگے بڑھ جاؤ یا میں آگے بڑھ جاؤں۔ میں نے کہا جیسے تمہاری مرضی۔ وہ شخص آگے بڑھ گیا اور میں مکہ مکرمہ پہنچ گیا اور طواف اور سعی کے بعد شیخ ابو بکر کنانی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کی خدمت میں بہت سے مشائخ تشریف رکھتے تھے۔ وہ فرمانے لگے کب آئے؟ میں نے کہا ابھی حاضر ہوا۔ فرمایا، کدھر سے آ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا، مدینہ طیبہ سے۔ فرمایا، مدینے سے کب چلے تھے؟ عرض کی، گذشتہ رات وہیں تھا۔ وہ مشائخ جو حاضر مجلس تھے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ شیخ کنانی نے کہا۔ کس کے ساتھ آئے ہو؟ میں نے عرض کیا۔ ایک بزرگ کے ساتھ آیا ہوں۔ جن کے ساتھ یہ حالات اور قصہ گزرا۔ شیخ کنانی نے کہا۔ یہ شیخ ابو جعفر وامغانی ہیں۔ اور تم نے جو حالات سنائے وہ ان کے احوال میں سے بہت معمولی چیز ہے۔ اس کے بعد شیخ کنانی نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ چلو شیخ وامغانی کو تلاش کریں۔ کہاں ہیں اور مجھ سے فرمایا کہ تمہارا یہ حال نہیں تھا کہ ایک شب میں یہاں پہنچ جاؤ۔ پھر فرمایا کہ چلتی ہوئی زمین کیسی معلوم ہو رہی تھی۔ میں نے عرض کیا، جیسے دریا کی موج کشتی کے نیچے معلوم ہوتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 147 تا 153
رُوحانی حج و عُمرہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔