یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
نیلم کی انگوٹھی
مکمل کتاب : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=5268
مجھے اپنے بابا جی قبلہؒ پر اتنا ناز تھا کہ شاید کسی کو ہو۔ جتنا یہ غلام ہمراز تھا، شاید کوئی نہ ہو۔ لطف و عنایت کی بارش جتنی اس عاجزومسکین پر فرماتے تھے، وہ خیال و تصور اور اظہار وبیان سے بالا ہے۔ ایک روز میں نے اس خواہش کا اظہا ر کیا کہ میں انگوٹھی پہننا چاہتا ہوں۔ فرمایا ’’ بالکل ٹھیک ہے۔ آپ انگوٹھی میں نیلم پہنیں۔‘‘
بازار میں جب نیلم کی قیمت معلوم کی تو وہ میری استطاعت سے باہر نکلی ۔ روہانسا منہ بنا کر عرض کیا۔ ’’ حضور ! نیلم تو بہت مہنگا پتھر ہے۔‘‘
حضور بابا جی ؒ خاموش ہوگئے۔ دوسرے دن صبح آٹھ اور نو کے درمیان میں فریئر روڈ پر جارہا تھا کہ نالے کے قریب کھڑے ہوئے ایک فقیر نے مجھے آواز دی ۔ میں سمجھا کہ کوئی سوالی ہے۔ اسے ایک آنہ دے دیا جائے۔ جب میں قریب پہنچا تو اس سے پہلے کہ میں اسے خیرات دوں اس نے میرے ہاتھ پر ایک انگوٹھی رکھ دی۔ انگوٹھی میں نیلم جڑا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا۔ ’’ یہ انگوٹھی کتنے کی ہے؟‘‘
اس بندۂ خدانے کہا۔ ’’ قیمت پوچھ کر کیا کرو گے؟ تم اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتے۔ـ‘‘
اللہ معاف کرے ، میں سمجھا کوئی فراڈ ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ بھائی قیمت کے بغیر انگوٹھی نہیں لوں گا۔ اس نے یہ سنکر جواب دیا کہ نہیں مانتے تو سوا پانچ روپے دے دو۔ کیوں کہ میں بازار سے نیلم کی قیمت معلوم کر چکا تھا اس لئے میرے اس خیال کو مزید تقویت پہنچی کہ یہ آدمی کوئی ایسا ویسا ہے۔ میں نے کہا۔ ’’ بھائی مجھے یہ انگوٹھی نہیں چاہئیے۔‘‘
میرا یہ کہنا تھا کہ فقیر کو جلال آگیا۔ نہایت درشت لہجے میں بولا۔ ’’ تو شک کرتا ہے ۔ لے انگوٹھی اور چلاجا۔ اپنے بڑوں کو لے جا کر دکھا۔ کل میں اسی وقت یہاں پھر ملوں گا۔ ‘‘
کام وغیرہ تو میں سب بھول گیا۔ انگوٹھی لے کر حضور بابا جی ؒ کے پاس آیا اور انکی خدمت بابرکت میں ساری روئیداد سنائی۔ بابا جی قبلہؒ نے میری اس گستاخی کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا اور فرمایا۔ ’’ یہ سچا نیلم ہے۔‘‘
اب تو میرے اوپر بڑی وحشت طاری ہوئی اور میں اس سوچ میں غرق ہوگیا کہ وہ فقیر کون ہے جس نے اتنی قیمتی انگوٹھی مجھے تحفے میں دے دی۔
باباجی ؒ نے مجھے فرمایا۔ ’’ کل صبح بہت سویرے اسی جگہ جا کر ان بزرگ کا انتظار کرنا اور کوشش کرنا کہ وہ تمہارے ساتھ ناشتہ کرلیں اور ساتھ ہی عقیدت و احترام سے خمیدہ ہوکر ان کو سواپانچ روپے نذر کردینا۔‘‘
قصّہ مختصر میں فقیر کے بتائے ہوئے وقت سے کافی پہلے وہاں جا کر ان کا انتظار کرنے لگا۔ و ہ ہنستے ہوئے نمودار ہوئے اور فرمایا ۔’’ خوب دانٹ پڑی ہے، خوب ڈانٹ پڑی ہے۔‘‘
میں نے معافی چاہی اور سواپانچ روپے ان کو نذر کئے۔ بہت خوش ہوکر یہ نذر سر پر رکھی اور مجھے ڈھیروں دعائیں دیں۔ میں نے عرض کیا۔ ’’ میں نے ابھی تک ناشتہ نہیں کیا ہے۔ آپ کے ساتھ ناشتہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔‘‘
بولے۔’’ اللہ تمہیں خوش رکھے۔ یہ چار آنے لو اور میرے طرف سے ناشتہ کرلو۔‘‘
تاریخ ، ماہ وسال یاد رکھنے میں میرا حافظہ کمزور ہے۔ اس وقت حلوہ پوری ایک آنے کی ملتی تھی۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 53 تا 55
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔