یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مینیا
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12209
جب آدمی پر دیوانگی کا دورہ پڑتا ہے، ابتداء کسی طرح ہو۔ خواہ تھوڑا تھوڑا یا اچانک۔ اس میں ہمیشہ ام الدماغ کے اندر رو کا ہجوم ہو جاتا ہے اور چونکہ ان کے نکلنے کا راستہ نہیں ہوتا لہٰذا دباؤ کی بنا پر خلیوں کے اندر کی دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں اور راستہ کہیں کہیں سے زیادہ کھل جاتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ خلاء قطعی نہ ہو۔ اکثر خلیوں میں رو صفر کے برابر ہو جاتی ہے تو آدمی بیٹھے بیٹھے بالکل بے خیال ہو جاتا ہے۔ اگرچہ یہ کوئی مرض نہیں ہے لیکن ام الدماغ میں جب ایسا خلاء واقع ہوتا ہے تو خلیوں میں ایک سمت رو کا تصرف بہت بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خلیے کسی قسم کی یادداشت سے خالی ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ آدمی پرانے واقعات یاد کرنا چاہتا ہے۔ بار بار یاد کرنا چاہتا ہے لیکن یاد نہیں آتے۔ ایک طرف تو یہ ہوتا ہے اور دوسری طرف رو کا اتنا ہجوم ہو جاتا ہے کہ دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح خلیوں کی رو میں جو ترتیب ہونی چاہئے وہ نہیں رہتی بلکہ اس میں ایسی بے قاعدگی ہو جاتی ہے کہ مریض ایک بات زمین کی کہتا ہے ایک آسمان کی۔ کبھی وہ پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے اور کبھی بادشاہ بن جاتا ہے۔
زیادہ اثر ہونے سے کپڑوں سے بھی آزاد ہو سکتا ہے۔ کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا۔ جب چلنے پر آتا ہے تو میلوں میل چلتا رہتا ہے۔ دوڑ دوڑ کر چلتا ہے جسم پر کسی قسم کی تھکان کے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ ماحول اور دنیا و مافیہا سے آزاد، سوچوں میں گم، خلاء میں گھومتا رہتا ہے۔ دنیاوی زندگی کی ترتیب قائم نہیں رہتی۔ آرام و آسائش کا احساس تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ جسم میں اتنی زیادہ انرجی ذخیرہ ہو جاتی ہے کہ لوہے کی زنجیروں سے باندھنا پڑتا ہے۔ پاگل پن کا مریض جب بولنا شروع کرتا ہے، بولتا رہتا ہے لیکن باتوں میں کوئی ربط نہیں ہوتا۔ آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک اور ماورائیت آ جاتی ہے۔ پلک جھپکنے کا عمل بہت زیادہ محدود ہو جاتا ہے۔
سائیکوسس، شیزوفرینیا اور مینیا میں میجر ٹرانکو لائزر اور مائنر ٹرانکو لائزر دوائیں استعمال کرائی جاتی ہیں جن سے مندرجہ ذیل Side Effectsرونما ہوتے ہیں۔
منہ خشک ہو جاتا ہے، نظر دھندلا جاتی ہے، بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے، وزن بڑھ جاتا ہے، خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یرقان کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ مریض کا ٹمپریچر بڑھ جاتا ہے، رعشہ کا مرض لاحق ہو جاتا ہے، گھبراہٹ، خوف، بے چینی اور کنفیوژن پیدا ہوجاتا ہے اور بھوک کم ہو جاتی ہے اور بعض اوقات مریض دواؤں کے منفی اثرات سے چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کے کئی دیگر سائڈ افیکٹس ہو سکتے ہیں جن کے نتیجے میں مریض’’کوما‘‘ میں بھی جا سکتا ہے۔ مائنر ٹرانکو لائزر دوائیں، ذہن کو پرسکون رکھنے کے لئے استعمال کرائی جاتی ہیں۔
ان ادویات کا ایک بہت مضر اثر یہ بھی مرتب ہوتا ہے کہ آدمی ان کا عادی ہو جاتا ہے اور زیادہ عرصہ استعمال سے خوراک کی مقررہ مقدار اپنا اثر کھو دیتی ہے اور خوراک کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے۔ مسکن ادویات کو فوری طور پر چھڑانا نہیں چاہئے کیونکہ فوری طور پر دوائیں بند کرنے سے مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں اور بے خوابی، رعشہ، متلی کا احساس، پورے جسم میں درد، ارتکاز توجہ کی کمی جیسے امراض ہو جاتے ہیں۔
اس کے برعکس معالج کی نگرانی میں مراقبہ کے ذریعے علاج سے سکون ملتا ہے اور فاسد خیالات کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور خیالات کے بہاؤ میں تسلسل پیدا ہو جاتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے ذہن اور روح کا قدرتی تعلق بڑھ جاتا ہے اور انسان روح سے توانائی کی نئی لہریں حاصل کرتا ہے۔ اس وقت دماغی کیفیات بیداری اور خواب کے عام وقتوں سے الگ ہوتی ہے۔ چنانچہ اعصابی نظام میں واقع ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کو نارمل ہونے کا بہترین موقع ملتا ہے۔
جسمانی لحاظ سے ہمارے اندر دو نظام کام کرتے ہیں۔ ایک سمپیتھیٹک سسٹم (Sympathetic System) اور دوسرا پیرا سیمپیتھیٹک سسٹم (Parasympathetic System) اول الذکر نظام دل کی دھڑکن کی تیزی، خون کی رفتار کی تیزی اور آنکھوں کی پتلیوں کے پھیلنے کو کنٹرول کرتا ہے۔ جبکہ دوسرے نظام کے تحت دل کی دھڑکن کا آہستہ ہونا، خون کی رفتار کا کم ہونا۔ پتلیوں کا سکڑنا اور جسم کے مختلف مادوں کی حرکات وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ یہ Systemہمارے ارادے اور اختیار کے بغیر کام کرتا ہے مثلاً ہم سانس لینے پر مجبور ہیں۔ اگر سانس روک بھی لیں تو کچھ وقفے کے بعد دوبارہ سانس لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دل کی رفتار پر بھی ہمیں اختیار نہیں ہے۔ چنانچہ فی زمانہ طبی ماہرین اور ماہرین علم النفس اس بنیاد پر کام کر رہے ہیں کہ مختلف طریقوں اور مشقوں سے اگر ہم Parasympathetic Systemکی حرکات پر اثرات مرتب کر سکیں تو ہم بیماریوں کا کامیابی سے دفاع کر سکیں گے اور بہت سے امراض کا خاتمہ آسانی سے ہو جائے گا۔ اسی بنیاد پر سائنس دانوں نے ’’بائیو فیڈ بیک‘‘(Bio Feed Back) نامی طریقہ ایجاد کیا ہے جس پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
مراقبہ کے ذریعے Parasympathetic Systemپر حسب منشاء اثرات مرتب کیے جا سکتے ہیں۔ مراقبہ اس نظام میں خوشگوار تبدیلیاں پیدا کر دیتا ہے۔ مراقبہ کی کیفیت گہرے سکون اورٹھہراؤ میں لے جاتی ہے۔ یہ کیفیت ہمارے اوپر عام طور پر طاری نہیں ہوتی کیونکہ ذہن زیادہ دیر تک ایک جگہ نہیں ٹھہرتا۔ مراقبہ سے نہ صرف قوت ارادی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے بھی کثیر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ تجربات اور مشاہدات نے ثابت کر دیا ہے کہ مراقبہ سے مندرجہ ذیل جسمانی اور نفسیاتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
- خون کے دباؤ پر کنٹرول
- قوت حیات میں اضافہ
- بصارت میں تیزی
- خون کی چکنائی میں کمی
- تخلیقی قوتوں میں اضافہ
- چڑچڑے پن میں کمی
- دل کی کارکردگی میں بہتری
- قوت سماعت میں اضافہ
- بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت
- ڈیپریشن اور جذباتی ہیجان کا خاتمہ
- پریشانی اور مشکلات میں آنے والے دباؤ میں کمی
- خون کے سرخ ذرات میں اضافہ
- قوت یادداشت میں تیزی
- بہتر قوت فیصلہ
- بے خوابی سے نجات اور گہری نیند
- ڈر اور خوف کے خلاف ہمت اور بہادری پیدا ہو جاتی ہے۔
- عدم تحفظ کے احساس اور مستقبل کے اندیشوں سے نجات مل جاتی ہے۔
- مراقبہ کرنے والے مرد اور مراقبہ کرنے والی خاتون کو وسوسے نہیں آتے۔
- حسد ختم ہو جاتا ہے۔
- مراقبہ میں کامیابی کے بعد، آدمی جادو ٹونے، بھوت پریت، آسیب اور منفی خیالات سے آزاد ہو جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 113 تا 118
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔