یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مدارج
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12213
اپنی ذات Innerسے واقفیت حاصل کرنے اور روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لئے مسلسل مراقبہ کرایا جاتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے ہماری باطنی صلاحیتیں آہستہ آہستہ سامنے آتی ہیں اور ہم سیڑھی بہ سیڑھی چڑھتے ہوئے اپنی ذات کا عرفان حاصل کر لیتے ہیں۔
یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب ہم کوئی ہنر یا فن حاصل کرنا چاہتے ہیں یا کسی صلاحیت کو بیدار کرنا ہمارے پیش نظر ہوتا ہے تو کسی قاعدے کلیے کے تحت اس کی مشق کرتے ہیں۔ مسلسل مشق کے نتیجے میں صلاحیت بیدار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور بالآخر ہم اس فن میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔ مثلاً ہم مصوری سیکھنا چاہتے ہیں تو کسی استاد کی نگرانی میں کاغذ پر لکیریں بناتے ہیں اور ان لکیروں کی ترتیب سے کوئی شکل بن جاتی ہے۔ شروع شروع میں پنسل ارادے کا ساتھ نہیں دیتی۔ لکیروں کی لمبائی، چوڑائی اور قوس صحیح نہیں بنتے لیکن مشق کے نتیجے میں ہم اپنے ارادے کے مطابق متناسب خطوط بنانے پر قادر ہو جاتے ہیں۔
مثال:
ایک نومولود بچہ اپنے گرد و پیش کو اس طرح نہیں سمجھتا جس طرح ایک بالغ اور باشعور شخص سمجھتا ہے۔ وہ چیزوں کو دیکھتا ہے لیکن ان کی معنویت اور استعمال ذہن میں نہیں آتا۔ ماحول کا علم رفتہ رفتہ بچے کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اور شعوری بلوغت تک پہنچنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ ابتداء میں بچے کو صلاحیتوں کے استعمال میں مشکل پیش آتی ہے۔ چلنا سیکھتا ہے تو پہلے گھٹنوں کے بل چلتا ہے۔ پیروں پر کھڑا ہوتا ہے تو کافی عرصہ تک توازن قائم نہیں ہوتا۔ ایک عرصہ کی جدوجہد کے بعد وہ پیروں پر چلنے کے قابل ہوتا ہے۔ بولنے کی ابتداء ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے ہوتی ہے۔ پھر ادھورے جملے بولنا آ جاتے ہیں۔ اکثر الفاظ کے معنی غلط ملط ہو جاتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مکمل جملے ادا کر کے اپنا مافی الضمیر دوسروں تک پہنچا دیتا ہے۔ ذاتی کوشش کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور والدین کی نگرانی میں بچہ کئی سال کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ ٹھیک طرح سے لکھ اور پڑھ سکے۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ جب بھی آدمی کے اندر کوئی نئی صلاحیت کروٹ لیتی ہے، شعور اس کو بتدریج جذب کرتا ہے۔ جس طرح ایک بچہ مراحل سے گزر کر کوئی علم حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح بالغ اور باشعور آدمی کو بھی کسی صلاحیت کے بیدار کرنے میں مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کم و بیش یہی کیفیت آدمی کی اس وقت ہوتی ہے جب اس کے اندر باطنی حواس متحرک ہوتے ہیں۔ چونکہ شعور کے لیے باطنی حواس کا عمل نیا ہوتا ہے اس لیے انہیں سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مراقبہ کے لئے آنکھیں بند کی جائیں اور ایک دن یا چند دنوں میں وہ سارے تجربات و مشاہدے سامنے آ جائیں جو مراقبہ کا حاصل ہیں مسلسل مشق اور دلچسپی کے ذریعے کوئی شخص درجہ بہ درجہ مراقبے کی دنیا میں سفر کرتا ہے۔ پہلے پہل ذہنی مرکزیت نہیں ہوتی۔ لیکن مشق کے نتیجے میں یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے۔ جیسے جیسے ذہنی یکسوئی میں اضافہ ہوتا ہے باطنی حواس میں حرکت بیدار ہوتی رہتی ہے۔ آدمی شعوری قوت کی مناسبت سے روحانی تجربات اور باطنی مشاہدات سے گزرتا ہے۔ واردات و کیفیات میں وقت کے ساتھ ساتھ وسعت پیدا ہوتی ہے مراقبہ میں ملکہ پیدا ہو جانے کے بعد روحانی صلاحیتوں کا ارادے کے ساتھ اسی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح دوسری صلاحیتیں استعمال ہوتی ہیں۔
ان مراحل میں طالبات اور طلباء کو ایسے روحانی استاد کی ضرورت ہوتی ہے جواسے بچے کی طرح انگلی پکڑ کر چلنا سکھائے اور شاگرد خود اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں مہارت حاصل کر لے۔
ہر شخص کی واردات و کیفیات الگ الگ ہوتی ہیں۔ اور اس کا تعلق اس کی روحانی اور شعوری سطح پر ہوتا ہے۔ چنانچہ انفرادی طور پر روحانی مشاہدات کا مکمل تجزیہ ایک ماہر استاد ہی کر سکتا ہے۔ لیکن شعوری قوت کے لحاظ سے مراقبے کا طالب علم جن مدارج سے گزرتا ہے وہ ہر شخص میں کم و بیش ایک جیسے ہوتے ہیں۔ قوت و استعداد کے ان مدارج اور منازل کی تفصیل اس طرح ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 119 تا 122
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔