ماضی اور مستقبل
مکمل کتاب : لوح و قلم
مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2942
پچھلے صفحات میں ہم نے منقسم حواس اور غیر منقسم حواس کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ یہ منقسم حواس (امر ِمطلق) ہی ہیں جو خود کو ازل سے ابد تک کا روپ دے کر کائنات کی شکل وصورت میں پیش کرتے ہیں۔ شکل وصورت سے روح کا پاجانا ممکن نہیں۔ لیکن روح سے شکل وصورت کی کُنہ تک پہنچ جانا یقینی ہے۔ اس مقام سے مظاہر کو اوّلیت دینے والوں کی یہ غلطی واضح ہو جاتی ہے کہ مظہرہی ‘‘وسعتِ حیات’’ ہیں۔ مظہر کو وسعتِ حیات سمجھنے والوں کا مطلب بجُز اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ وہ ماضی اور مستقبل دونوں کا انکار کر رہے ہیں۔ گویا انہوں نے زمان کی اضافیت کو قطعی نظرانداز کر دیا حالانکہ زمان کی اضافیت ہی امر مطلق اور کائنات ہے۔ دراصل ماضی ہی کائنات ہے۔ باقی رہے حال اور مستقبل۔ یہ دونوں بجائے خود کوئی وُجود نہیں رکھتے مگر یہ ماضی ہی کے اَجزاء ہیں۔ ہر لمحہ مستقبل سے ماضی کی طرف سفر کر رہا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا ارشاد
جَفَّ القَلَمُ بِما هُوَ کائِنٌ
جو کچھ ہونے والا ہے اس کو لکھ کر قلم خشک ہو گیا۔
اس ہی مطلب کی وضاحت کرتا ہے۔ اس حدیث سے ماضی کے علاوہ زمانے کا کوئی اور اسلوب معلوم نہیں ہوتا۔ حال اور مستقبل دونوں ماضی ہی کے اَجزاء ہیں۔
یہاں سے کائنات کی ساخت کا بالمشافہ سُراغ ملتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
ترجمہ: خدا کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ‘ہوجا’ اور وہ ہو جاتی ہے۔
اس آیت میں ارادہ کی ماہیت اور اَجزاء کا بیان ہے۔ معلوم نہیں پہلے لوگوں نے ماہیت کو کس معنی میں استعمال کیا لیکن ہم اس لفظ میں نور کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا ارادہ لامُتناہی نور ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے امر کی وضاحت کی ہے۔ یہ ارشاد کہ میں جس چیز کو حکم دیتا ہوں ہونے کا، وہ ہو جاتی ہے۔ اس بات کی تشریح ہے کہ امر الٰہی کے تین حصّے ہیں:
نمبر۱۔ ارادہ
نمبر۲۔ جو کچھ ارادہ میں ہے یعنی شئے
نمبر۳۔ پھر اس کا ظُہور
اللہ تعالیٰ کے الفاظ سے یہ چیز پایۂ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں پہلے سے ان کے علم میں موجود ہے۔ چنانچہ جو کچھ موجود ہے وہ ماضی ہے۔ جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کی مقدار کیا ہے؟ ہمارے پاس ماضی کی مقدار کو سمجھنے کی بہت سی طرزیں ہیں مثلاً موجودہ دور کے سائنس داں روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاِسی ہزار دو سو بیاِسی میل فی سیکنڈ بتاتے ہیں۔ اس طرح روشنی کی دنیا میں ایک سیکنڈ کا طول ایک لاکھ چھیاِسی ہزار دو سو بیاِسی میل ہوا۔
کائنات کے ایک لاکھ چھیاِسی ہزار میل جس مکانیت پر مشتمل ہیں بیک وقت اس مکانیت کے اندر کتنے اعمال اور افعال یعنی حوادث رُونما ہوئے اس کا اندازہ مُحال ہے۔ یوں سمجھنا چاہئے کہ ایک سیکنڈ کے اندر تمام کائنات میں جتنے افعال سرزد ہو سکتے ہیں۔ وہ محض ایک ہی سیکنڈ میں واقع ہونے والے حوادث ہیں۔ اگر کسی طرح ان افعال کا شمار ممکن ہو تو معلوم ہو سکتا ہے کہ ایک سیکنڈ کی وسعتیں کتنی ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ایک سیکنڈ کے کائناتی حوادث تحریر میں لانے کے لئے یقیناً نَوعِ انسانی کو ازل سے ابد تک کی مدت چاہئے۔ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ ایک سیکنڈ ازل سے ابد تک کی مدت کے برابر ہے تو اس دعویٰ میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ جب ازل سے ابد تک ایک ہی سیکنڈ(لمحہ) کارفرما ہے تو زمانِ متواتِر کا مفہوم کچھ نہیں رہتا۔ دراصل اللہ تعالیٰ کے شیؤن ہی زمان کی حقیقت ہیں۔
کائنات میں تین زمانے متعارف ہیں۔ زمانِ حقیقی، زمانِ متواتِر اور زمانِ غیر متواتِر۔
زمانِ متواتِر وہ زمانہ ہے جس کا تجربہ ہمیں منقسم حواس میں ہوتا ہے۔ کائنات کی خارجی سطح پر تمام افعال و حوادث کی زمانِ متواتِر ہی کے پیمانے سے ناپا جاتا ہے۔ کائنات جو قدم اٹھاتی ہے وہ ایک لمحہ کا پابند ہے۔ علیٰ ہذا دوسرا قدم دوسرے لمحہ کا پابند ہے۔ چنانچہ کائنات کا سفر جب ایک نقطہ کے بعد دوسرے نقطہ اور تیسرے نقطہ میں واقع ہوتا ہے تو بلا تغیّر کے نہیں ہوتا۔ گویا ایک لمحہ ایک تغیّر ہے اور دوسرا لمحہ دوسرا تغیّر۔ بالفاظ دیگر لمحہ کائناتی تغیّر کا نام ہے۔ چنانچہ لمحات کا الگ الگ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہر لمحہ کے وارِدات و حوادث جدا جدا ہیں۔ ساتھ ہی زمان کی جداگانہ وَحدتیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کے درمیان فصل ہے اور یہ فصل متضاد وَحدتیں ہیں۔ اور یہ متضاد وَحدتیں اپنی ہستی میں جداگانہ صفات رکھتی ہیں۔ اِصطلاحاً ان ہی کا نام زمانِ غیر متواتِر ہے۔ اگر زمانِ متواتِر معلوم وارِدات ہیں تو زمانِ غیر متواتِر نامعلوم وارِدات ہیں۔ اگر انسان متواتِر کی وَحدتیں ایسی وارِدات کا مجموعہ ہیں جن سے شعور واقف ہے تو زمان
غیر متواتِر کی وَحدتیں ایسی وارِدات ہیں جن سے شعور ناواقف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کے اندر دونوں زمانوں کا تذکرہ حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے۔ ارشاد ہے:
میں نے آدم کے پُتلے میں اپنی روح پھونکی اور اسے علمِ اشیاء عطا کیا۔
یہ دو ایجنسیاں ہوئیں روحِ الٰہی اور علمِ اشیاء۔
علمِ اشیاء کے بالمقابل عالمِ فطرت (زمانِ متواتِر) ہے جس کو قرآنِ پاک میں عالمِ شہادت کہا گیا ہے اور روحِ الٰہی کے بالمقابل روحانی دنیا (زمانِ غیر متواتِر) جس کو قرآنِ پاک میں عالمِ غیب کا نام دیا گیا ہے۔
دو ایجنسیوں کی تفصیلات جاننے کے لئے کسی حد تک نور اور نَسمہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ انسانی ہستی ان ہی دونوں سے مرکّب ہے۔ یہی دونوں انسانی ذہن کے غیر شعوری اور شعوری پیمانے ہیں۔
انسانی ذہن کی تین سطحیں ہیں۔ پہلی سطح کے دو رخ ہیں۔ وراءِ وہم اور وہم۔ اس ہی طرح دوسری سطح کے بھی دو رخ ہیں۔ احساس اور مشاہدہ۔ ذہن کی ایک سطح یعنی وراءِ وہم (روح) کے بالمقابل عالمِ غیب واقع ہے۔ اس عالم کا اِنشراح روح میں ہوتا ہے۔ شعور اس عالم سے ناواقف ہے۔ یہ عالم ماوراءِ کائنات اور باطن کائنات پر مشتمل ہے۔ یہ عالم زمانِ حقیقی (Timeless-ness) اور زمانِ غیر متواتِر (Non-serial Time) کا مجموعہ ہے۔ زمانِ حقیقی علمِ الٰہی ہے جس کو اِصطلاح میں غیبُ الغیب کہتے ہیں۔ زمانِ غیر متواتِر فرشتوں کی دنیا ہے جس کو اِصطلاح میں غیب کہتے ہیں۔ چنانچہ عالم غیب کی یہ دونوں ایجنسیاں غیبُ الغیب اور غیب، روح کے بالمقابل واقع ہیں۔ غیبُ الغیب نور مُفرد میں اور غیب نورِ مرکّب میں۔ باقی ذہنِ انسانی کے پانچ رخ۔۔۔وہم، خیال، تصوّر، احساس اور مشاہدہ ان ہی کا مجموعہ ہیں اور ان ہی کے بالمقابل عالمِ فطرت واقع ہے۔ اب کائناتی زندگی کی تشریح یہ ہوئی کہ پہلے عالمِ غیب کا لمحہ آتا ہے اور پھر عالمِ فطرت کا۔ عالمِ غیب کے لمحے سے ہمارا شعور ناواقف رہتا ہے لیکن روح آگاہ رہتی ہے۔
غیبُ الغیب لاتناہیت یعنی زمانِ حقیقی ہے۔ اس لاتناہیت کے مقابل ہر مُتناہیت کی ماہیت ہے جس کا دوسرا نام علم ہے۔ بالفاظ دیگر علم وہ ہستی ہے جو لاتناہیت کے اندر تجسّس کرتی ہے۔ اور لاتناہیت کی افہام و تفہیم میں لگی رہتی ہے۔ علم کی ہستی لاتناہیت کی ان روشنیوں کو معلوم کرنا چاہتی ہے جو ہنوز اس کے سامنے نہیں آئیں۔ علم کی ہستی لاتناہیت کی روشنی تلاش کرتی رہتی ہے اور جن روشنیوں کو پا لیتی ہے ان کو اپنی ہستی کے اند رجذب کر لیتی ہے۔ وہ جس روشنی کو جذب کرتی ہے، اس روشنی کی ہستی علم کی ہستی میں مستقل نقش بن جاتی ہے۔ اس نقش کا نام نَوع ہے۔ یہ زمانِ غیر متواتِر ہے۔ علم کی ہستی میں نَوع کا نقش یہ معنی رکھتا ہے کہ نَوع کو اپنی ہستی کا علم حاصل ہے چنانچہ نَوع اپنی ہستی کے علم کو برقرار رکھنے کے لئے خود کو دہراتی ہے جس سے نَوع کے افراد کی تخلیق ہوتی رہتی ہے۔ یہ زمانِ متواتِر ہے۔ واضح رہے کہ نَوع کا خود کو دہرانا مرتبۂِ لاتناہیت کے بالمقابل تناہیت کے درجے میں رُونما ہوتا ہے۔ مرتبۂِ لاتناہیت غیبُ الغیب اور مرتبہ تناہیت غیب ہے۔ علم کا درجۂِ تناہیت نَوع ہے لیکن نَوع کا درجۂِ تناہیت فرد ہے۔ فرد کا ظُہور عالم شہادت ہے۔ اِصطلاح میں فرد کے ظُہور کو زمانِ متواتِر کہتے ہیں۔
ہم نے بیان کیا ہے کہ علمِ غیب کے دو مراتب ہیں۔۔۔غیبُ الغیب اور غیب۔ مرتبۂِ غیبُ الغیب نورِ مُفرد کا لمحہ ہے۔ ہم نے اس ہی لمحہ کو زمانِ حقیقی کہا ہے۔ یہ لمحہ غیر متغیّر لمحہ ہے۔ اس کی وسعت ازل سے ابد تک ہے۔ علم کی ہستی اس ہی لمحہ کے اَوصاف معلوم کرنے میں لگی رہتی ہے یعنی علم اس لمحہ کی لاتناہیت سے تناہیت کی طرف سفر کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ علم کا یہ عبوری لمحہ جو لاتناہیت سے تناہیت کی سمت سفر میں گزرتا ہے نورِ مرکّب کا لمحہ ہے۔ اس لمحہ کی مدت انسانی شعور کے دائرے سے باہر ہے کیونکہ انسانی شعور کا آغاز تناہیت میں ہوتا ہے۔ تناہیت کا لمحہ ہماری دنیا کا وقت ہے جس کا تذکرہ زمانِ متواتِر کے نام سے کیا گیا ہے۔ یہ لمحہ نسمۂِ مُفرد سے شروع ہو کر نسمۂِ مرکّب پر ختم ہو جاتا ہے۔ انسانی شعور مُدرِکات کی حدود(وہم، خیال، تصوّر) میں نسمۂِ مُفرد سے رُوشناس ہوتا ہے۔ اور محسوسات و مشاہدات کی حدود میں نسمۂِ مرکّب سے متعارف ہوتا ہے۔ شعور کے تغیّرات سے واقف ہونے کا عمل ہی شعور کی ہستی ہے۔ چنانچہ شعور کی ہستی اس ہی لمحہ کے اندر تعمیر ہوتی ہے۔ قرآنِ پاک کی زبان میں نَسمہ کے لمحے کا نام آفاق اور نور کے لمحے کا نام انفس ہے۔ نور کا لمحہ انسانی روح کے بالمقابل اور نَسمہ کالمحہ انسانی ذہن کے بالمقابل واقع ہے۔
مثال:
زید ایک فرد ہے۔ اگر سوال کیا جائے کہ زید کون ہے تو کہا جائے گا کہ زید فلاں کا بیٹا ہے۔ فلاں کا بھائی ہے، زید عالِم ہے، زید کی عمر پچیس سال ہے، زید خوش اخلاق ہے، زید عقل مند ہے، زید نوجوان ہے، زید وجیہ ہے، زید بردبار ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ زید ان صفات کا مجموعہ ہے اور زید کے اندر یہ تمام اَوصاف ہیں ۔گویا زید کی ہستی رگ، پٹھوں، ہڈیوں اور گوشت کا نام نہیں ہے بلکہ زید اعمال کا مجموعہ ہے۔ اگر زید کی حیات کو تصویری فلم کی شکل میں ترتیب دیا جائے تو اس فلم کا نام وراءِ شعور یعنی لاشعور یا ایسے نورِ مرکّب کی ہستی ہو گا جو زمانِ غیر متواتِر پر مشتمل ہے۔ یہاں زید کی ہستی میں زمانِ غیر متواتِر کو سمجھنا ضروری ہے۔
مثال:
زید کو سورج کا خیال آیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ زید کے ذہن نے غیر شعوری طور پر سورج کے نظام کو احاطہ کر لیا گویا زید کی داخلی ہستی (روح) کے بالمقابل سورج کا مکمل نظام ایک تصویری فلم کی شکل میں موجود ہو گیا۔ اس تصویری فلم میں سورج کے نظام کی تفصیلات زمانِ غیر متواتِر کا ایک لمحہ ہے۔
لمحہ کی تفصیلات یعنی آثار و احوال، کیفیات و حوادث لپیٹ دیئے جائیں تو یہ زید کی زندگی کا ایک لمحہ بنا۔ یہ لمحہ زمانِ متواتِر کا لمحہ ہے۔ اس لمحہ کی بھی دو سطح ہیں۔۔۔ایک سطح حواس کے بالمقابل واقع ہے جس کو عالمِ فطرت کہتے ہیں۔ ایسے بے شمار لمحات کا مجموعی نام زید ہے۔ یہ وہی زید ہے جس کو حواس دیکھتے ، چھوتے اور جانتے ہیں۔ گویا زید بے شمار لمحات یعنی عالمِ فطرت کی لپٹی ہوئی سربستہ فلم ہے۔ اس ہی سربستہ فلم کا نام ٹھوس اور محسوس زید ہے۔ بالفاظ دیگر زید زمانِ متواتِر کی یونٹ(Unit) کا ایک عنوان ہے۔ اس عنوان کی تفصیل زمانِ غیر متواتِر کی وہ یونٹ ہے جس کو زید کی ماہیت کہنا چاہئے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ زمانِ غیر متواتِر کی یونٹ(Unit) زید کی ماہیت ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ ماہیت جس چیز کا نام ہے وہ نور کا بسط ہے یا ایسا پھیلا ہوا نور ہے جو کسی یونٹ کے اجزا کی تصویری فلم ہے۔ اس تصویری فلم میں کسی یونٹ (Unit) کا ہر ایک وہم، ہر ایک خیال، ہر ایک تصوّر اور ہر ایک احساس ریکارڈ ہے۔
ہم اوپر کہی ہوئی بات کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ زمانِ متواتِر کا لمحہ عنوان یا جسم ہے اور زمانِ غیر متواتِر کا لمحہ اس کی تفصیلی فلم ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ زمانِ غیر متواتِر کا لمحہ ہر وقت ہمارے سامنے رہتا ہے لیکن ہمارا ذہن اس طرف نہیں جاتا۔ اس ہی لئے وہ غیب ہے۔
مثال:
جب ہم کسی شئے کو دیکھتے ہیں تو زمانِ غیر متواتِر کا لمحہ درمیانی فاصلہ کو ہماری لاعلمی میں اس طرح ناپ لیتا ہے کہ نہ توشے کی روشنی ہمارے ذہن سے ہَوا بھر الگ رہتی ہے اور نہ ہَوا بھر ہمارے ذہن کی سطح میں داخل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شئے کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہمارا ذہن شئے سے ہَوا بھر الگ رہے یا ہَوا بھر شئے کے اندر داخل ہو جائے تو شئے غائب ہو جائے گی اور ہم اسے ہرگز نہیں دیکھ سکیں گے۔
متواتِر شعور میں تواتُر ہوتا ہے۔ مثلا:
آج کے بعد پرسوں کا دن اس وقت تک نہیں آتا جب تک کل کا دن نہ گزر جائے۔ اِسی طرح ربیع الاوّل کے بعد ذیقعد کا مہینہ اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک درمیانی مہینے نہ گزر جائیں۔ اس کے برعکس زمانِ غیر متواتِر ترتیب کا پابند نہیں ہے۔ جس کی ایک مثال رُؤیا(خواب) ہے۔ خواب دیکھنے والا دس سال بعد کے واقعات اچانک دیکھنے لگتا ہے حالانکہ ابھی درمیانی وقفہ نہیں گزرا۔ گویا زمانِ متواتِر میں ہر دَور کے حوادث نظر آ سکتے ہیں۔ ماضی، حال، مستقبل کی کوئی شرط نہیں ہے۔ زمانِ غیر متواتِر میں کائناتی حوادث کو ناپنے کے ایسے تمام پیمانے موجود ہیں جن سے ماضی، حال اور مستقبل کو بغیر کسی ترتیب کے ناپا جا سکتا ہے۔ رُؤیا میں یا خیال میں ہم ایسے زمانے کو واپس لا سکتے ہیں جو ہزاروں سال پہلے گزر چکا ہے۔ خیال یا رُؤیا کے اندر اس کو واپس لانے میں درمیانی وقفہ نظر انداز ہو جاتا ہے۔ زمانِ غیر متواتِر کی ایک سطح تو یہ ہے جس کا ہم نے مذکورہ بالا سطروں میں تذکرہ کیا ہے۔ اور زمانِ غیر متواتِر کی دوسری سطح ہمہ وقت ہمارے ذہن کے ساتھ وابستہ رہتی اور کام کرتی ہے جس کی ایک مثال اوپر گزر چکی ہے اور بے شمار مثالیں ہر وقت ہمارے تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ مثلاً ہم جب کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جس کو ہم نے آج سے پچیس سال پیشتر دیکھا تھا تو ہمیں گزشتہ پچیس سال کے مسلسل واقعات یاد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ ہم اچانک اس شخص کے چہرے کو واپس اپنے ذہن میں لے آتے ہیں۔ دراصل وہ زمانِ غیر متواتِر کے دائرے میں محفوظ رہتا ہے۔ ہمارا ذہن اس کی شخصیت واپس لانے کے لئے تمام درمیانی وقفوں کو حذف کر جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر یا تو ہمارا ذہن زمانِ غیر متواتِر کے اس دائرے میں داخل ہو جاتا ہے جس کے اندر مذکورہ انسانی شخصیت محفوظ ہے یا پھر زمانِ غیر متواتِر کا دائرہ ہمارے ذہن میں داخل ہو جاتا ہے۔ دوسری سطح کی اور بھی مثالیں ہو سکتی ہیں۔ ہم جب زینے سے اترتے ہیں تو زینے کی سیڑھیوں کا ناپ جو پہلے سے زمانِ غیر متواتِر میں ریکارڈ ہے، ہمارے قدموں کی صحیح صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ اس ہی لئے ہمیں زینہ اترنے میں شعوری طور پر سوچنا نہیں پڑتا۔ کبھی کبھی قدم ڈگمگا جاتا ہے اور ہم گر پڑتے ہیں۔ اس موقع پر کسی وجہ سے ہمارا ذہن زمانِ غیر متواتِر کے دائرے سے ہٹ جاتا ہے اور رہنمائی زمانِ متواتِر کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے جس کے سبب قدم غلطی کر جاتے ہیں کیونکہ زینہ کا ناپ زمانِ متواتِر کے اندر ریکارڈ نہیں ہوتا۔ قرآنِ پاک میں زمانِ غیر متواتِر کو علمُ الاسماء سے تعبیر کیا گیا ہے۔ علمُ الاسماء وہ شعور ہے جس کا نام ہم نے اپنی اِصطلاح میں زمانِ غیر متواتِر رکھا ہے۔ یعنی یہ شعور زمانِ غیر متواتِر کی اضافی صفَت ہے۔
روح کی ذاتی صفَت زمانِ حقیقی ہے۔ اس میں ازل سے ابد تک کی تمام تصویری فلمیں محفوظ ہیں۔ قرآنِ پاک کی زبان میں اس کو لوحِ محفوظ کہا گیا ہے۔ یہ زمان تجلّیِٔ ذات میں نقش ہے۔ اس کی اپنی حیثیت تجلّیِٔ صفات کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے آدم کے پُتلے میں اپنی روح پھونکی۔ یہی روح زمانِ حقیقی کا شعور ہے۔ اس ہی شعور کے بالمقابل تجلّیِٔ ذات(علمُ القلم) اور تجلّیِٔ صفات (لوحِ محفوظ) واقع ہے۔ یہ دونوں عالم نور کے مراتب ہیں۔ تجلّیِٔ صفات کے مرتبے میں زمانِ غیر متواتِر اور زمانِ متواتِر دونوں کے اِندراجات محفوظ ہیں۔ تجلّیِٔ صفات ہی وہ شعور ہے جس سے غیر متواتِر شعور اور متواتِر شعور دونوں کو حیات حاصل ہوتی ہے۔ قرآنِ پاک کی زبان میں تجلّیِٔ صفات کو عالمِ امَر اور باقی دو زمانوں کو عالمِ خلق کہا گیا ہے۔
عالمِ خلق کے دو مراتب ہیں۔ ایک عالمِ تَمثال جو زمانِ غیر متواتِر ہے دوسرا عالمِ فطرت۔ یہ زمانِ متواتِر ہے۔ اس ہی کو عالم عنصری یا عالم تاریخ اور مظاہر کی دنیا کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
ترجمہ: ہم تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہیں۔
اس آیت میں تین مراتب بیان کئے گئے ہیں۔ پہلا مرتبہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا۔ یہ زمانِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کے علمِ حُضوری کا شعور ہے۔ دوسرا مرتبہ رگِ جان کا جو انسانی ‘‘انا’’ یعنی علمُ الاسماء کا شعور ہے۔ تیسرا مرتبہ اس کا جس کی رگِ جاں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ انسان بحیثیت شئے ہے جس کا دوسرا نام زمانِ متواتِر ہے۔ زمانِ متواتِر افراد کا شعور ہے۔ اس شعور میں کائنات کا ہر فرد یعنی ذرّہ ذرّہ خود کو اپنی انفرادیت کی حدود میں جانتا ہے۔ زمانِ غیر متواتِر کائناتی شعور ہے۔ یہ افراد میں غیر شعوری طور پر کام کرتا ہے۔
زمانِ حقیقی اللہ تعالیٰ کا علم (علمِ حُضوری) ہے۔ یہ وہ شعور ہے جو کائنات کے ہر ذرّہ میں کارفرما ہے۔ جب یہ شعور کائنات میں کام کرتا ہے تو کائنات اس کو اپنا ذاتی شعور جانتی ہے اور جب یہ شعور ذرّہ میں کام کرتا ہے تو ذرّہ اس کو اپنا انفرادی شعور سمجھتا ہے۔ جب تک یہ شعور کائنات سے ماورا ہے۔ زمانِ حقیقی ہے۔ جب کائنات میں سما جاتا ہے تو زمانِ غیر متواتِر کہلاتا ہے اور جب ذرّہ کے اندر حرکت کرتا ہے تو زمانِ متواتِر بن جاتا ہے۔ اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْض میں اس ہی شعور کو نور کہا گیا ہے۔
انسان کی ذات میں ان ہی تین شعوروں کے مدارج کام کرتے ہیں۔
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ المُحْسِنِينَ (سورۃ ۲۹۔ آیت ۶۹)
ترجمہ: اور جن لوگوں نے محنت کی بیچ راہ ہماری کے البتہ دکھا دیں گے ہم ان کو راہ اپنی اور تحقیق اللہ ساتھ احسان کرنے والوں کے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں زمانِ حقیقی اور زمانِ غیر متواتِر دونوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تلاش کرتے ہیں ان پر یہ دونوں زمانے مُنکشِف ہو جاتے ہیں۔ ان کی ذات میں وہ بیداری پیدا ہو جاتی ہے جو زمانِ متواتِر میں ان دونوں زمانوں کو سمجھتی اور محسوس کرتی ہے۔ اکثر اوقات ان پر وہ چیزیں مُنکشِف ہو جاتی ہیں جو زمانِ حقیقی سے غیر متواتِر اور غیر متواتِر سے متواتِر میں کبھی منتقل ہوئی تھیں یا آئندہ کبھی منتقل ہونگی۔ ان کی بصارت، ان کی فہم اور ان کے محسوسات کبھی کبھی ماضی، حال اور مستقبل کے خدّوخال کو یک جا دیکھ لیتے ہیں۔ پھر ان کی فہم ماضی، حال اور مستقبل کی سرگرمیوں کو ایک دوسرے سے الگ جان لیتی ہے۔ زمانِ متواتِر کا رشتہ اپنے ہر سرے پر زمانِ غیر متواتِر سے مُلحِق ہے۔ اور زمانِ غیر متواتِر کا رشتہ اپنے ہر سرے پر زمانِ حقیقی سے منسلک ہے۔
کوئی بھی شئے جو فی الوقت موجود ہے۔ زمانِ متواتِر کا ایک یونٹ (Unit) ہے۔ یہ وُجود میں آنے سے پہلے حیات کے دائرے سے باہر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جو شئے حیات کے دائرے سے باہر ہے وہ حیات کے دائرے میں داخل ہونے کی صلاحیّت نہیں رکھتی۔ ایک درخت جو پوری طرح نشوونما پا کر ہمارے سامنے آ چکا ہے ، اپنے اسلاف کے باطن میں موجود تھا۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ درخت کے اسلاف کا باطن ہی ظاہر کی شکل وصورت اِختیار کر کے درخت بنا ہے۔ درخت کے اسلاف کا باطن زمانِ غیر متواتِر ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ساخت کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ
اللہ تعالیٰ نے خلق کیا، حِسِّ مشترک عطا کی، تقدیر بنائی اور ہدایت بخشی۔
تشریح:
کسی شئے کا وُجود فی الحقیقت ان تقاضوں کا مجموعہ ہے جو اس شئے کی طبیعت میں مرکوز ہیں یعنی شئے ایک خول ہے جس کے اندر تقاضے بھرے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں پیمانے سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ یہ تخلیق کا پہلا مرحلہ ہے۔
دوسرا مرحلہ حِسِّ مشترک ہے۔ یہ پیمانے کا طریق استعمال ہے یعنی تقاضوں کو کس طرح استعمال کیا جائے۔
تیسرا مرحلہ استعمال کے نتائج کا قانون ہے۔ مثلاً آگ جلاتی ہے۔ اگر کوئی چیز آگ میں پھینک دی جائے تو وہ جل جائے گی۔ مثلاً پانی بھگو دیتا ہے۔ اگر کوئی شئے پانی میں ڈال دی جائے تو وہ بھیگ جائے گی۔ یہ ہُوا استعمال کے نتائج کا قانون۔
چوتھا مرحلہ حصول ہے۔ اگر کوئی شئے مفید مقصد کے پیش نظر جلائی جائے تو یہ عمل اچھا کہلائے گا اور اس کے برخلاف بے کار یا برا عمل سمجھا جائے گا۔ یہ دونوں عمل حاصل رکھتے ہیں۔ حاصل کو مفید کہیں گے یا مضر، اس ہی مرحلہ کا نام ہدایت ہے۔
انسان جب اپنے تقاضے صحیح طور پر استعمال کرتا ہے اور نَوعِ انسانی کے لئے مفید نتائج نکلتے ہیں تو اس کی طبیعت میں نَوعِ انسانی کے اخلاص کا چشمہ اُبل پڑتا ہے۔ یہی چشمہ اس کی فکر کو نشوونما دے کر ایسے مقام تک لے جاتا ہے جہاں اس کی فکر نَوعِ انسانی کے مجموعی تقاضوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے لگتی ہے۔ پھر فکرِ انسانی اس مرحلے سے بھی گزر جاتی ہے اور ایسی وسعتوں میں جا پہنچتی ہے جہاں اس پر کائنات کے مجموعی تقاضے مُنکشِف ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد بھی ایک اور قدم ہے۔ اس قدم پر فکرِ انسانی ماوراءِ کائنات سے رُوشناس ہو جاتی ہے۔ یہی رُوشناسی حقیقت ِآگہی اور الٰہی معرفت ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان زمانِ غیر متواتِر اور زمانِ حقیقی دونوں کو جان لیتا ہے۔ کائنات کے مجموعی تقاضوں کا مُنکشِف ہو جانا انسان میں زمانِ غیر متواتِر کے شعور کو بیدار کرتا ہے۔ اس حالت کو تصوّف کی اِصطلاح میں جمع کہتے ہیں اور فکرِ انسانی کا ماوراءِ کائنات میں مرکوز ہوجانا جمع الجمع کہلاتا ہے۔ یہ مرکزیّت زمانِ حقیقی کے شعور کو بیدار کر دیتی ہے۔
متشابہ۔ اس مسئلہ پر سوچنے والوں کو کائنات اور فرد کائنات کے الگ الگ ہونے کا شبہ ہو سکتا ہے۔ یہ صرف متشابہ ہے۔ فی الواقع کائنات اپنے کسی ایک فرد کے إثبات اور نفی کا مجموعہ ہے۔جب ہمارے سامنے گلاب ہے تو اس لمحہ(لمحہ سے مراد لمحہ کی کمترین کسر ہے یعنی لمحہ کا کروڑواں حصّہ یا اس سے بھی کم جس کو ہم اپنے تصوّر میں کمترین وقفہ کا نام دے سکتے ہیں۔ گویا وہ وقفہ جس سے کم وقفہ ہمارے تصوّر میں نہ آ سکے) گلاب کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں یعنی ہمارے ذہن میں گلاب کا ہونا ہے اور گلاب کا نہ ہونا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے جو کچھ ہے وہ محض گلاب کی ہستی کا إثبات ہے۔ ہماری فکر کا مرکز گلاب کے علاوہ کوئی دوسری شئے نہیں ہوتی۔ ہم اس خاص لمحہ کے اندر کائنات کو ایک ہی یونٹ (Unit)شمار کرتے ہیں۔ جس یونٹ کا نام گلاب ہے، جب تک ہم اس یونٹ کو ترک نہ کردیں اور اس یونٹ کی طرف سے ذہن کو نہ ہٹالیں دوسرے یونٹ سے ربط قائم نہیں کر سکتے۔ زمانِ متواتِر میں ہم جس لمحہ کے اندر اپنی فکر کا تجزیہ کریں گے، کائنات کے صرف ایک ہی فرد سے متعارف ہو سکیں گے۔ چنانچہ اس ہی فرد کو کل کائنات کا نام دیں گے۔ جب تک اس ایک خاص فرد کے علاوہ کائنات کے تمام افراد ساقِط نہ ہو جائیں تو ہم اس فرد کا احساس یا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ یہاں سے اِدراک بالحواس کے قانون کی تحقیق ہو جاتی ہے۔ ہم بیک آن صرف ایک چیز کا اِدراک کر سکتے ہیں جب کہ باقی تمام اشیاء کی نفی کر دیں۔ اگر اس حقیقت کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ ہمارے ذہن کی صرف ایک ہی سمت ہے اور اس ہی سمت میں ہمارے طبَعی تقاضے پرواز کرتے رہتے ہیں۔ ہم دائیں بائیں، آگے پیچھے اور اوپر نیچے ہرگز نہیں دیکھتے۔ یہ چھ سمتیں قیاس کی پیداوار ہیں۔ فی الحقیقت سمت صرف وہی ہے جس طرف ہمارے ذہنی تقاضے سفر کر رہے ہیں۔ اس ہی سمت کا نام زمانِ متواتِر(Serial-Time) ہے۔ ہم روزمرّہ کے مشاہدات میں اِدراک بالحواس کے نام سے اس ہی زمان کا تجربہ کرتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ زمان گزرتا رہتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ فی الواقع یہ زمان ریکارڈ ہوتا ہے۔ گویا ہم زمان کے اندر ان ہی حوادث(اشیاء) کو پاتے ہیں جن کا عنوان پوری معنویّت کے ساتھ ہمارے ذہن میں موجود ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس ہی زمان کو کتابُ المرقوم فرمایا ہے۔ یہی علمُ الاسماء ہے۔ ہمیں کسی معنویّت کو نام دینے کا پورا اِختیار حاصل ہے۔ معنویّت کا نام دینے سے پہلے ہم اس کا اِدراک مَرئی یا غیر مَرئی روپ میں کرتے ہیں۔ چاہے یہ روپ خیال کی ہستی میں رُونما ہو یا شُہود کی صورت میں۔ ہر صورت میں یہ روپ نقش ہوتا ہے اور یہ نقش تصویر ہے اِدراک بالحواس کی۔ چنانچہ جن قدروں کا مالک مشاہدہ ہے۔ ان ہی قدروں کا مالک خیال بھی ہے۔ یہی خیال ذہن کی اندرونی سطح سے مسافرت کر کے ذہن کی بیرونی سطح پر مظاہر کی صورت میں جلوہ گرد ہو جاتا ہے۔
حرکتِ دَوری
اوپر کے مضمون کے سمجھنے کے لئے حرکتِ دَوری کی شرح ضروری ہے۔ کائنات ایک ایسا نقطہ ہے جسے ہمیں اپنے ذہن میں فرض کرنا پڑتا ہے۔ یہی کائنات کی موجودگی کا راز ہے۔ کوئی نقطہ ریاضی دانوں کی اِصطلاح میں نہ لمبائی رکھتا ہے، نہ چوڑائی رکھتا ہے اور نہ گہرائی رکھتا ہے۔ وہ صرف شعور کی تخلیق ہے۔ یہی نقطہ شعور سے مسافرت کر کے اِدراک بالحواس بنتا ہے۔ اس کے اِدراک بالحواس بننے کا طریقہ بہت سادہ ہے۔ پہلے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ شعور فی نفسہٖ کیا چیز ہے؟ وہ خود کو قائم رکھتا ہے اور اپنی یاد دہانی میں مصروف رہتا ہے۔ یعنی شعور مسلسل دعویٰ کرتا رہتا ہے میں یہ ہوں، میں وہ ہوں، میں چاندکو دیکھ رہا ہوں، میں سورج کو دیکھ رہا ہوں، میں ستاروں کو دیکھ رہا ہوں، میرے ہاتھ میں کتاب ہے، میرے ہاتھ میں قلم ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام دعوے شعور کی بنائی ہوئی تصویریں ہیں۔ وہ ان تصویروں کو جس طریقے سے استعمال کرتا ہے اس طریقے کے بہت سے نام ہیں۔ مثلاً اس طریقہ کا ایک نام نگاہ ہے۔ یہ بیک وقت دو مرکزوں میں دیکھتی ہے۔ اس مرکز کی ایک سطح غیب ہوتی ہے، دوسری شُہود۔ غیب کی سطح نگاہ کی انفرادیت ہے۔ شُہود کی سطح نگاہ کی اجتماعیت۔ درحقیقت ان دونوں سطحوں میں ایک ہی نگاہ کام کر رہی ہے۔ اگر ہماری آنکھوں کے سامنے بادام کا ایک درخت ہو تو ہمارا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ بادام کا درخت ہے۔ پھر ہم ایک اور شخص سے اس درخت کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ بھی یہی کہتا ہے کہ یہ بادام کا درخت ہے۔ ہم لاکھوں آدمیوں سے اس درخت کے بارے میں استفسار کریں گے تو جواب ایک ہی ملے گا کہ یہ بادام کا درخت ہے۔ اس تجربہ سے یہ حقیقت مُنکشِف ہو جاتی ہے کہ ان لاکھوں آدمیوں میں دیکھنے والی نگاہ ایک اور صرف ایک ہے۔ اگر دیکھنے والی نگاہیں دو ہوتیں تو ان دونوں نگاہوں میں ہر نگاہ مختلف دیکھتی کیونکہ دو ہونا مختلف ہونا ہے۔ یہ نگاہ کچھ اور دیکھتی اور وہ نگاہ کچھ اور دیکھتی۔ لیکن تجربہ دیکھنے والی نگاہ کے الگ الگ ہونے کی شہادت نہیں دیتا۔ اس لئے یہ کہنا پڑے گا کہ یہ نگاہ شعور کی ایک طرز ہے یا ایک سطح ہے اور یہ سطح اجتماعی ہے جس میں پوری کائنات مشترک ہے۔ اس مشترک سطح کو ہم اِدراک بالحواس کہتے ہیں۔ یہی مشترک سطح کائنات ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مشترک سطح فرد ہی کا جُزو ہے۔ فرد سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔
نگاہ کی انفرادی سطح
نگاہ کی دوسری سطح انفرادی ہے۔ اس سطح سے ذات(نفس) جو کچھ دیکھتی ہے وہ کائنات کے دوسرے افراد سے مَخفی ہوتا ہے۔ پہلی نگاہ وَحدت ہے اور دوسری کثرت۔ یہ کثرت دراصل وَحدت ہی کی ایک نگاہ ہے۔ یا وَحدتِ نگاہ کے لاشمار زاویے ہیں جن کو انفرادی نگاہ کہتے ہیں۔ ہم اس مفہوم کی وضاحت اس طرح کر سکتے ہیں کہ وَحدتِ نگاہ اپنی ہر شان کو الگ الگ دیکھتی ہے۔ الگ الگ دیکھنے سے افراد یا کثرت کی تخلیق ہوتی ہے۔ حدیث قدسی کُنْتُ کَنْزاً مَخفیاً میں اس ہی طرف اشارہ ہے۔
لیل و نہار
اوپر تذکرہ ہو چکا ہے کہ شعور (ذات واجبُ الوجود) اپنی تکرار کرتا رہتا ہے اور جیسے ہی تکرار واقع ہوتی ہے ایک نقطہ کے دو ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک نقطہ کے دو ہو جاتے ہیں۔ ازل سے اس ہی طرح ہو رہا ہے۔ اگر ہم ریاضی دانوں کی طرز میں سمجھیں تو یہ لاشمار نقطے ایک دائرہ کی شکل اِختیار کر لیتے ہیں۔ ان نقطوں میں ہر نقطہ اپنی جگہ ایک دائرہ ہے۔ یہ تمام دائرے مل کر ایک بڑا دائرہ بناتے ہیں۔ اس ہی بڑے دائرے کا نام کائنات ہے۔ اِسی کو حرکتِ دَوری کہا جاتا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ حرکتِ دَوری صرف شعور کی تکرار ہے۔ قرآنِ پاک میں اس تکرار کا تذکرہ موجود ہے۔
وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (13)
(سورۂ انعام)
ترجمہ: اللہ ہی کا ہے جو رات اور دن میں سکونت پذیر ہے۔ وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
رات اور دن میں جو کچھ رہتا اور بستا ہے وہ اللہ ہی کی ملکیت ہے۔ انسان کے اِدراک و حواس میں جو کچھ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک حصّہ وہ ہے جس کا تعلّق رات کے حواس سے ہے۔ یہ دو دائرے ہیں یا ان کو حرکتِ دَوری کی دو سطح کہیں گے۔ یہ دونوں سطح مختلف حواس کا سرچشمہ ہیں۔ اس ہی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لیل و نہار کے الگ الگ الفاظ استعمال کئے۔ یہ امر یہاں قابل ذکر ہے کہ رات کے حواس کو تاریکی، غُنودگی یا نیند کہہ کر غیر حقیقی تصوّر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے الفاظ سے اس تصوّر کی تردید ہو جاتی ہے۔ اور یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک رات اور دن کے حواس یکساں ٹھوس اور حقیقی ہیں۔ اگر ہم ذرا سا تجزیہ کریں تو یہ بات ہمارے سامنے آ جائے گی کہ دن کے حواس کو اجتماعی شہادت حاصل ہے اور رات کے حواس کو انفرادی۔ لیکن یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اجتماعی شہادت میں بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں بالکل اِسی طرح جس طرح انفرادی شہادت میں۔
یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ نگاہ کی دو سطح میں اجتماعی سطح کو معروضی اور انفرادی سطح کو موضوعی کا نام دیا جاتا ہے۔ ان ہی دو سطح سے زمان(Time) کی داغ بیل پڑتی ہے۔ جب ایک فرد دوسرے فرد سے متعارف ہوتا ہے تو یہی تعارف کا مرحلہ زمان بنتا ہے۔ یہ تعارف ذات کا ایک عمل ہے جب ذات اپنی کسی شان کو دیکھتی ہے تو ایک ٹھہراؤ واقع ہوتا ہے۔ فی الحقیقت یہ ٹھہراؤ دیکھنے کی ایک طرز ہے جس کو عقل انسانی زمان کہتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز یا آن گزرتی ہو بلکہ یہ صرف ذات کی طرزِ فکر ہے، طرزِ شعور ہے، طرزِ نگاہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد یہ ہے کہ میں سمیع ہوں، میں بصیر ہوں، یعنی سماعت اور بصارت میری واحد ملکیت ہے اور دوسرا ارشاد یہ ہے کہ میں نے انسان کو سماعت دی، بصارت دی۔ ان دونوں ارشادات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی سماعت سے سنتا ہے اور
اللہ تعالیٰ کی بصارت سے دیکھتا ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ کا سننا اور دیکھنا حقیقی ہے چاہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں واقع ہو یا افراد کی ذات میں۔ دیکھنے اور سننے میں متشابہ صرف انسانوں کو لگ سکتا ہے۔ اس لئے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے انسان اس کو خود سے منسوب کرتا ہے اور یہاں سے وہ کسی چیز کے سمجھنے میں غلطی کرتا ہے۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ کسی شخص کی نگاہ بادام کو انجیر دیکھے۔ وہ انجیر کو انجیر دیکھنے پر مجبور ہے۔ البتہ معانی پہنانے میں اپنی غلط رائے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ کہہ سکتا ہے کہ انجیر ایک فضول درخت ہے، ایک مضر درخت ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ (سورۃ اعراف، آیت ۱۸۹)
وہی ہے جس نے تم کو بنایا ایک نفس سے۔
تمام نَوعِ انسانی ایک مَخفی اسکیم کے تحت بنائی گئی ہے۔ وہ مَخفی اسکیم جو مظاہر کے پیچھے کام کر رہی ہے۔ اس ہی کو اللہ تعالیٰ نے نفسِ واحدہ فرمایا ہے۔ مَخفی اسکیم نظر آنے والی تاریکی اور روشنی کی گہرائی میں ایسے نُقوش کی تخلیق کرتی ہے جن کو ہمارے حواس مظاہر کی صورت میں دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ یہ تو ناممکن ہے کہ ہم ان نُقوش کے اِدراک سے انکار کر دیں۔ یا ان کی موجودگی کو تسلیم نہ کریں۔ ہم بزُعمِ خود صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ حق کو باطل کہہ دیں اور باطل کو حق سمجھ لیں۔ چنانچہ اِسی خام خیالی اور غلط طرزِ فکر کے زیر اثر انسان گمراہی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی آواز
قرآنِ پاک میں ایک جگہ تذکرہ ہے۔ ‘‘ہم نے مریم پر وحی کی۔’’ ظاہر ہے کہ حضرت مریم رسول یا نبی نہیں تھیں۔ اس مقام سے عوام کو اَلقاء یا وحی کرنے کا پتہ چلتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی سماعت اور بصارت کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ عام حالات میں ہر انسان کو یہ کیفیت حاصل ہے۔ انسان اس کیفیت کو اپنی زبان میں ضمیر کے نام سے پہچانتا ہے۔ وہ ضمیر کی آواز سنتا ہے اور اس آواز کی رہنمائی میں نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ فی الواقع یہ اللہ تعالیٰ کی آواز ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا بخشا ہوا نتیجہ ہوتا ہے۔ نتیجہ انسان کی ذات تک پہنچتا ہے۔ یہیں سے نفس کی تنقید شروع ہوتی ہے۔ یہ تنقید انسان کی نیت کو صحیح رکھتی یا غلط کر دیتی ہے۔ قرآنِ پاک میں نفس کی اس ہی تنقید کو رؤیت اور نظر کا نام دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (سورۂ اعراف، آیت ۱۹۸)
اور تو دیکھ رہا ہے کہ تیری طرف دیکھ رہے ہیں اگرچہ وہ نہیں دیکھ رہے۔
اس آیت میں چار ایجنسیوں کا تذکرہ ہے۔ نفس کی دو ایجنسیوں کا نام رؤیت اور نظر لیا گیا ہے۔ نیز لَایُبْصِرُوْنَ میں الٰہی سماعت اور بصارت کی دونوں ہی ایجنسیاں مدغم ہیں۔ جب تک انسان اندرونی آواز پر توجہ نہیں دیتا، رہ نمائی حاصل نہیں کر سکتا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 228 تا 248
لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔