لوحِ محفوظ کا قانون
مکمل کتاب : لوح و قلم
مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2928
تصرف
تجلّی تنزّل کر کے نور بنتی ہے اور نور تنزّل کر کے روشنی یا مظہر بن جاتا ہے۔ یہی مظہر شئے ہے جو تجلّی اور نور کی مظاہراتی شکل ہے۔
بہ الفاظِ دیگر تجلّی تنزّل کر کے نور بنی اور نور تنزّل کر کے شئے یا مظہر بنا۔ مظہر تجلّی اور نور سے تخلیق ہوا پھر نور اور تجلّی ہی میں فنا ہو گیا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس ناموجود کو پھر موجود کر دے گا۔ عارف علمِ شئے میں ہی تصرف کرتا ہے جس کا اثر شئے پر براہِ راست پڑتا ہے۔
تصرف کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ معجزہ
۲۔ کرامت
۳۔ اِستدراج
یہاں تینوں کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ اِستدراج وہ علم ہے جو اعراف کی بری روحوں یا شیطان پرست جنّات کے زیر سایہ آدمی میں خاص وجوہ کی بنا پر پرورش پا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کے دور میں بھی پیش آئی ہے۔
اس دور میں صاف اِبن صیّاد نام کا ایک لڑکا مدینے کے قریب کسی باغ میں رہتا تھا۔ موقع پا کر شیطان کے شاگردوں نے اسے اچک لیا اور اس کی چھٹی حِس کو بیدار کر دیا۔ وہ چادر اوڑھ کر آنکھیں بند کر لیتا اور ملائکہ کی سرگرمیوں کو دیکھتا اور سنتا رہتا۔ وہ سرگرمیاں عوام میں بیان کر دیتا۔ جب حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے اس کی شہرت سنی تو ایک روز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
‘‘آؤ، ذرا اِبن صیّاد کو دیکھیں!’’
اس وقت وہ مدینے کے قریب ایک سرخ ٹیلے پر کھیل رہا تھا۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے اس سے سوال کیا۔
‘‘بتا! میں کون ہوں؟’’
وہ رُکا اور سوچنے لگا۔ پھر بولا:
‘‘آپ امّیوں کے رسول ہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ میں خدا کا رسول ہوں۔’’
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایا:
‘‘تیرا علم ناقص ہے، تو شک میں پڑ گیا۔ اچھا بتا! میرے دل میں کیا ہے؟’’
اس نے کہا۔ ‘‘دَخّ ہے۔’’ (ایمان نہ لانے والا) یعنی آپﷺ میرے متعلّق یہ سمجھتے ہیں کہ میں ایمان نہ لاؤں گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایا۔
‘‘پھر تیرا علم محدود ہے۔ تو ترقی نہیں کر سکتا۔ تُو اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے۔’’
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
‘‘یا رسول اللہﷺ! اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔’’
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے جواب دیا:
‘‘اے عمر! اگر یہ دجال ہے تو اس پر تم قابو نہیں پا سکو گے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا قتل زائد ہے۔ اس کو چھوڑ دو۔’’
غیب کی دنیا میں لفظ اور معنی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر چیز شکل و صورت رکھتی ہے خواہ وہ وہم ہو، خیال ہو یا احساس۔ اگر کسی انسان کی چھٹی حِس بیدار ہے تو اس کے ذہن میں غیب بینی کی صلاحیّت پیدا ہو جاتی ہے۔ عبرانی زبان میں نبی غیب بین کو کہتے ہیں۔ اور رسول غیب کے قاصد کو۔ اس ہی وجہ سے اِبن صیّاد حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کے مرتبۂِ رسالت کو صحیح نہیں سمجھ سکا۔ اس نے جو کچھ دیکھا وہ یہ تھا کہ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام غیب کے قاصد ہیں اور اس کی غیب کی رُوشناسی اپنی ہی حد تک تھی یا ان اجِنّہ کی حد تک تھی جو اس کے دوست یا استاد تھے۔ جب اس نے حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کو سمجھنے کی کوشش کی تو معرفتِ الٰہی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے
حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کو غیب کا رسول قرار دیا۔ اس کی غیب بینی صرف اس حد تک تھی کہ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام ایک اُمّی قوم میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے معجزات کا مظاہرہ اُمّی قوم میں ہوا۔ اس فکر کے تحت اس نے حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کو اُمّیوں کا رسول کہا۔ جب حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے اس کو اِستدراج کی حدوں میں مُقیّد دیکھا تو اس سے یہ سوال کیا کہ بتا میرے دل میں کیا ہے؟ جس کے جواب میں اس نے دَخّ کہا اور حضورﷺ نے جب یہ دیکھا کہ اِبن صیّاد کو معرفت حاصل نہیں ہو گی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو ترقی نہیں کر سکتا۔
چنانچہ اِبن صیّاد کی طرح کسی بھی صاحب اِستدراج کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔ علم اِستدراج اور علمِ نبوت میں یہی فرق ہے کہ اِستدراج کا علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے۔ اور علمِ نبوت انسان کو غیب بینی کی حدوں سے گزار کر اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچا دیتا ہے۔
علمِ نبوت کے زیر اثر جب کوئی خارقِ عادت نبی سے صادِر ہوتی تھی اس کو معجزہ کہتے تھے اور جب کوئی خارقِ عادت ولی سے صادِر ہوتی ہے تو اس کو کرامت کہتے ہیں لیکن یہ بھی علمِ نبوت کے زیر اثر ہوتی ہے۔ معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل ہوتا ہے۔ مستقل سے مراد یہ ہے کہ جب تک صاحبِ تصرف اس چیز کو خود نہ ہٹا دے وہ نہیں ہٹے گی۔ لیکن اِستدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے وہ مستقل نہیں ہوتا اور اس کا اثر فضا کے تأثرات بدلنے سے خود بہ خود ضائع ہو جاتا ہے۔ اِستدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے اس کو جادو کہتے ہیں۔
تجلّی کی جو رَو بَرتَر اَز وراءِ شعور ہے اس ہی سے تخلیق کی تمام اصلیں متّصل ہیں۔ یہ اَجزاءِ کائنات کے ہر ذرّے میں محدود ترین مرکزیّت کی آخری حد تک گشت کرتی ہے۔ اگر اس تجلّی کو محدود ترین مرکز کائنات سے گزرتے وقت کوئی ناپسندیدہ امر پیش آ جائے تو اس کے اندر ایک طرح کی حالت جلال پیدا ہو جاتی ہے۔
اِستدراج کے اُصول محدود ترین مرکز میں کوئی ناخوشگوار اثر پیدا کر دیتے ہیں۔ اس ناخوشگوار اثر کی وجہ سے تجلّی جو خیر کی حقیقت ہے بیزار ہو جاتی ہے اور بیزاری کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی تخریبی اثر مرتّب ہو جاتا ہے۔ جب کوئی شخص محدود ترین مرکز کے خول میں کسی قسم کا تعفن یا کسی قسم کی کثافت پیدا کر لیتا ہے تو اس کی قوّتیں تخریب اور شکست و ریخت پر قابو پا جاتی ہیں وہ صرف اس لئے کہ تجلّی نے بے رخی اِختیار کر لی ہے اور اس کی بے رخی سے خیر کی تاثیرات معطّل ہو گئیں۔ محدود ترین مرکز کا خول انسانی جسم ہے۔
مثلاً سادھو اپنے محدود ترین مرکز کے خول یعنی جسم پر راکھ مل کر جلدی مسامات کو بالکل بند کر لیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے جسم کی اندرونی روشنیاں جن کو زندگی کا قوام کہنا چاہئے، کثیف ہو کر رقیق بن جاتی ہیں۔ یہی تعفن کسی دوسرے جسم یا اَجسام کے محدود ترین مرکزوں کی طرف بہنے لگتا ہے اور وہاں اپنی تاثیریں پیدا کر دیتا ہے جس سے وہ جسم یا اَجسام تخریبی سرگرمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ہر مذہب میں عبادت کے لئے غسل یا وضو کا اہتمام کیا جاتا ہے حالانکہ عبادت کا تعلّق صرف ذہن سے ہے جسم سے نہیں۔ غسل اور وضو کا منشا طبیعت کو شگفتہ کر کے اِنہماک پیدا کرنا ہے۔
قانون:
یہاں یہ سمجھناپڑے گا کہ ہمارے اشغال و اعمال جو جسمانی اعضاء کے ذریعے صادِر ہوتے ہیں کہاں تخلیق پاتے ہیں اور ان کی تخلیق کس طرح ہوتی ہے۔ اب ذرا ماہیت کی طرف رجوع کیجئے۔ یہ ماہیت شخصِ اکبر کا خاصہ ہے۔ اور شخصِ اکبر تمام مخلوقات کی مختلف اَنواع کا مجموعہ ہے جن میں سے ہم کتنی ہی اَنواع و مخلوقات کو جانتے ہیں۔ شیر، گھوڑا، شاہین، ستارے، چاند، سورج، زمین، آسمان، جن، فرشتے، انسان، ہوا، پانی، چاندی، سونا، جواہرات، کنکر پتھر، پہاڑ، سمندر، سبزہ اور حشرات الارض ان میں سے ہر ایک، ایک نَوع یا مخلوق ہے۔ ان کی نَوع یا نوعیت ہی ان کی ماہیت ہے۔ اس ماہیت کا وقوع ہمیشہ ایک ہی طرز پر ہوتا ہے۔ جیسے شیر ایک شکل وصورت اور ایک خاص طبیعت رکھتا ہے۔ اس کی آواز بھی مخصوص ہے۔ یہ چیزیں اس کی پوری نَوع پر مشتمل ہیں۔ بالکل اِسی طرح انسان بھی خاص شکل و صورت، خاص عادتیں اور خاص صلاحیّتیں رکھتا ہے لیکن یہ دونوں نوعیں اپنی ماہیتوں میں ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ البتہ اصل ماہیت دونوں کی ایک ہے اور دونوں میں یکساں جسمانی تقاضے پیار اور رنج و غضب پایا جاتا ہے۔ یہ اشتراک نَوع کی ماہیت میں نہیں بلکہ اصلِ ماہیت میں ہے یہ اصلِ ماہیت زندگی کا وہ مرکز ہے جہاں زندگی کی انتہاؤں میں چھوٹے چھوٹے کیڑے کی زندگی اور چاند سورج کی زندگی مجتمع ہو جاتی ہے۔ اس قانون سے ہمیں روح کے دو حصّوں کی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ایک ہر نَوع کی جداگانہ ماہیت ، دوسرے تمام اَنواع کی واحد ماہیت۔ یہی واحد ماہیت روحِ اعظم اور شخصِ اکبر ہے اور ہر نَوع کی جداگانہ ماہیت شخص ِاصغر ہے۔ اور اس ہی شخص ِاصغر کے مظاہر افراد کہلاتے ہیں۔ مثلاً تمام انسان شخصِ اصغر کی حدود میں ایک ہی ماہیت ہیں۔
اوّل ہر نَوع کے افراد شخصِ اصغر کی حدود میں یعنی اصغر ماہیت کے دائرے میں ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں۔ دوئم ہر فرد تمام اَنواع کے افراد سے شخصِ اکبر کی حدود یعنی اکبر ماہیت کے دائرے میں متعارف ہے۔ شیر دوسرے شیر کو بحیثیت شیر کے شخصِ اصغر کی صلاحیّت سے شناخت کرتا ہے مگر یہی شیر کسی آدمی کو یا دریا کے پانی کو یا اپنے رہنے کی زمین کو یا سردی گرمی کو شخصِ اکبر کی صلاحیّت سے شناخت کرتا ہے۔ اصغر ماہیت کی صلاحیّت ایک شیر کو دوسرے شیر کے قریب لے آتی ہے۔ لیکن ایک شیر کو جب پیاس لگتی ہے اور وہ پانی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی طبیعت میں یہ تحریک اکبر ماہیت کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ صرف اکبر ماہیت کی بدولت یعنی شخصِ اکبر کی وجہ سے یہ بات سمجھتا ہے کہ پانی پینے سے پیاس رفع ہو جاتی ہے۔
کشش کا قانون
چنانچہ ذی روح یا غیر ذی روح ہر فرد کے اندر اکبر صلاحیّت ہی اجتماعی زندگی کی فہم رکھتی ہے۔ ایک بکری سورج کی حرارت کو اس لئے محسوس کرتی ہے کہ وہ اور سورج شخصِ اکبر کی حدود میں ایک دوسرے سے الحاق رکھتے ہیں۔ اگر کوئی انسان شخصِ اکبر کی حدود میں فہم و فراست نہ رکھتا ہو تو وہ کسی دوسری نَوع کے افراد کو نہیں پہچان سکتا اور نہ اس کا مَصرف جان سکتا ہے۔ جب آدمی کی آنکھ ستارہ کو ایک مرتبہ دیکھ لیتی ہے تو اس کا حافظہ ستاروں کی نَوع کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔ حافظہ کو یہ صلاحیّت شخصِ اکبر سے حاصل ہوتی ہے لیکن جب کوئی انسان اپنی نَوع کے کسی انسان کو دیکھتا ہے تو اس کی طرف ایک کشش محسوس کرتا ہے۔ یہ کشش شخصِ اصغر کا خاصہ ہے۔ یہاں سے اصغر ماہیت اور اکبر ماہیت کی تخصیص ہو جاتی ہے۔ اکبر ماہیت کششِ بعید کا نام ہے اور اصغر ماہیت کششِ قریب کا۔
تجلّی کی رَو تمام اَنواع کی مخلوقات میں کشش بعید کا باہمی تعلّق پیدا کرتی ہے۔ یہی تجلّی جب تنزّل کر کے نور کی شکل اِختیار کرتی ہے تو کشش قریب بن جاتی ہے تیسرے درجہ میں جب یہ تجلّی نور سے تنزّل کر کے روشنی کی صورت اِختیار کرتی ہے تو ایک ہی نَوع کے دو افراد کے درمیان باہمی کشش کو حرکت میں لاتی ہے۔
روحانی دنیا میں غیر اِرادی حرکت کا نام کشش اور اِرادی حرکت کا نام عمل ہے۔ غیر اِرادی تمام حرکات شخصِ اکبر کے ارادے سے واقع ہوتی ہیں لیکن فرد کی تمام حرکات فرد کے اپنے ارادے سے عمل آتی ہیں۔ جہاں تک نہرِ تسوید، تجرید اور تشہید کے اَوصاف ذات ِانسانی میں حرکت کرتے ہیں۔ وہاں تک اس کا مقام اجتماعی اور شخصِ اکبر کا مقام ہے۔ البتہ جہاں سے نہرِ تظہیر کا وصف حرکت میں آتا ہے وہاں سے ذات انسانی کا مقام انفرادی ہے۔
نہرِ تسوید، نہرِ تجرید اور نہرِ تشہید کی حدودِ حرکت میں جب کوئی خرقِ عادت پیش آتی ہے تو کرامت کہلاتی ہے۔ جب نہرِ تظہیر کی حدود میں حرکت میں کوئی خرقِ عادت پیش آتی ہے تو اِستدراج ہوتی ہے۔
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَللہُ نُوْرُ السّمٰوٰاتِ وَالْاَرْض۔ اس کا تذکرہ پہلے آ چکا ہے۔ اس کی مزید تشریح یہ ہے کہ تمام مَوجودات ایک ہی اصل سے تخلیق ہوتی ہیں خواہ وہ مَوجودات بلندی کی ہوں یا پستی کی۔ ہم ساخت کی ترتیب کو حسب ذیل مثال سے واضح کر سکتے ہیں۔
شیشے کا ایک بہت بڑا گلوب ہے۔ اس گلوب کے اندر دوسرا گلوب ہے۔ اس دوسرے گلوب کے اندر ایک تیسرا گلوب ہے۔ اس تیسرے گلوب میں حرکت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور یہ حرکت شکل وصورت، جسم و مادّیت کے ذریعے ظُہور میں آتی ہے۔ پہلا گلوب تصوّف کی زبان میں نہرِ تسوید یا تجلّی کہلاتا ہے۔ یہ تجلّی مَوجودات کے ہر ذرّہ سے لمحہ بہ لمحہ گزرتی رہتی ہے تا کہ اس کی اصل سیراب ہوتی رہے۔
دوسرا گلوب نہرِ تجرید یا نور کہلاتا ہے۔ یہ بھی تجلّی کی طرح لمحہ بہ لمحہ کائنات کے ہر ذرّہ سے گزرتا رہتا ہے۔
تیسرا گلوب نہرِ تشہید یا روشنی کا ہے۔ اس کا کردار زندگی کو برقرار رکھتا ہے۔
چوتھا گلوب نَسمہ کا ہے جو گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس ہی نَسمہ کے ہُجوم سے مادّی شکل وصورت اور مظاہرات بنتے ہیں۔
انجیل کے اندر اس ہی چیز کو حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
انجیل۔ اعمال، باب نمبر ۱۷، آیت ۲۴ تا ۲۸
نمبر ۱۔ آیت نمبر ۲۴
جس خدا نے دنیا اور اس کی سب چیزوں کو پیدا کیا وہ آسمانوں اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا۔
اس آیت میں نہرِ تسوید اور نہرِ تجرید کا بیان ہے۔ اوّل اللہ تعالیٰ کی قوّت خالقیّت پوری کائنات کے ذرّہ ذرّہ پر مسلط ہے۔ اس ہی قوّت کے تسلط کو روحانیت کی زبان میں نہرِ تجرید یا نور کہتے ہیں۔ (دنیا اور اس کی سب چیزوں کو پیدا کیا۔۔۔ نہرِ تسوید، آسمانوں اور زمین کا مالک ہو کر ۔۔۔نہرِ تجرید)
نمبر۲۔ آیت نمبر۲۵
نہ کسی چیز کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھوں سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خود ہی سب کو زندگی، سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔
(زندگی نہرِ تشہید، سب کچھ نہرِ تظہیر یا نَسمہ)
نمبر۳:
نہرِ تشہید یا روشنی جسے انجیل کی زبان میں زندگی کہا گیا ہے۔ اس کی عطا کا سلسلہ ازل سے ابد تک جاری ہے۔
نمبر۴:
نہرِ تظہیر کی رَو جس کا دوسرا نام نَسمہ ہے کائنات کے مادّی اَجسام کو محفوظ اور متحرّک رکھتی ہے۔
* (نوٹ): اللہ تعالیٰ کے یہ چاروں تسلط مسلسل اور مستقل ہیں۔ ان میں سے کوئی تسلط اگر منقطع ہو جائے تو کائنات فنا ہو جائے گی۔ وہ تسلط خالقیّت کا ہو، مالکیّت کا ہو یا عطائے زندگی کا ہو یا عطائے نَسمہ کا۔
تشریح:
نمبر۱، کائنات کا لاشعور، نہرِ تسوید۔
نمبر ۲، کائنات کا شعور، نہرِ تجرید۔
نمبر۳، کائنات کا ارادہ، نہرِ تشہید۔
نمبر۴، کائنات کی حرکت، نہرِ تظہیر ہے۔
نوٹ: تمام حرکات نَسمہ کا عمل ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے ‘‘میں نے کھایا یا میں نے لکھا۔’’ وہ یہ نہیں کہتا کہ میرے منہ نے کھایا یا میرے ہاتھ نے لکھا۔ شعوری طور پر نَسمہ ہی تمام اعمال کا دعویدار ہے اوربرائی بھلائی کا صُدور اِسی سے ہوتا ہے۔ اس ہی کی تشریح انجیل، باب۱۷ آیت ۲۷۔۲۸ میں کی گئی ہے۔
‘‘تا کہ خدا کو تلاش کریں شاید کہ اسے پا لیں ہر چند وہ ہم میں سے کسی سے دور نہیں ہے۔‘‘
‘‘(نہرِ تجرید) کیوں کہ ’’ اس ہی میں ہم جیتے‘‘(نہرِ تشہید)، ’’چلتے پھرتے(نہرِ تظہیر)، اور ‘‘موجود ہیں’’ (نہرِ تسوید) ہے۔
نوٹ: ان دونوں آیتوں میں بھی چاروں نہروں کا تذکرہ ہے جن میں سے ایک نہرِ تظہیر یا نَسمہ ہے۔ اس ہی مفہوم کو حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے مَنْ عَرَفْ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ میں بیان فرمایا ہے۔ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا یعنی سب انسان کے نفس ناطقہ سے بالکل متّصل ہے۔ یہاں پڑھنے والے کے ذہن میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ برائی بھلائی سب کا خالق اللہ ہے۔ یہ بات صحیح ہے۔ اسلام اس کا شاہد ہے لیکن برائی بھلائی کا خالق ہونے سے اللہ تعالیٰ پر کسی فعل کے صُدور کی ذمّہ داری عائد نہیں ہوتی جب کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو برائی یا بھلائی کرنے کا اِختیار دیا ہے۔ اس کی سب سے پہلی مثال حضرت آدمؑ کے لئے شجر ممنوعہ کے قریب جانے کی ممانعت تھی۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ممانعت کرنے سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو یہ اِختیار دے دیا تھا کہ وہ شجر ممنوعہ کے قریب جائیں یا نہ جائیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں برائی بھلائی کا خالق ہونا اللہ تعالیٰ کا وصف ہے لیکن برائی کرنا یا نہ کرنا انسان کا اپنا اِختیار ہے۔ ) *
اب ہم نَسمہ کی صلاحیّتوں کا تذکرہ کریں گے۔ اس تذکرہ کے بعض حصّے اِستدراج کے خُصوصی بیانات ہیں۔ قرآنِ پاک سے یہ بات ثابت ہے کہ ازل سے ابد تک اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر محیط ہیں
أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَاءِ رَبِّهِمْ ۗ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ
(آیت ۵۴، سورۃ حٰم السجدہ، پارہ ۲۵)
اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی اور اللہ تعالیٰ کے علم سے کسی چیز کا باہر ہونا ناممکن ہے۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ریکارڈ علم کا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفَت ہے اور ایک ریکارڈ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معرفت قدیم ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرح ہمیشہ اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ چنانچہ یہ دونوں ریکارڈ اللہ تعالیٰ کی صفَتِ علم اور صفَتِ حکم میں موجود ہیں۔ صفَتِ علم کو ‘‘علمُ القلم’’ اور صفَتِ حکم کو ‘‘لوحِ محفوظ’’ کہتے ہیں۔ ان دونوں ریکارڈوں کی موجودگی ایسی غیب کی دنیا کا پتہ دیتی ہے جس سے ہماری دنیا کی إبتداء ہوتی ہے۔ لوحِ محفوظ کے تمام اَحکامات بصورتِ تَمثال عالمِ غیب میں موجود ہیں اور یہ اَحکامات علمِ الٰہی کے مطابق تفصیل کے ساتھ عالمِ ناسُوت یعنی اس مادّی دنیا میں نازل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا ہے۔ میں نے ہر چیز کو دو رُخوں پر پیدا کیا ہے۔ اس نزول کا ایک رُخ عمل کرانے والے یعنی فرشتے ہیں اور دوسرا رخ عمل کرنے والی عالمِ ناسُوت کی مخلوق ہے۔
نہروں کی حدود چار عالموں سے موسوم ہیں۔
① نہرِ تسوید کی حدود عالمِ لاہوت
② نہرِ تجرید کی حدود عالمِ جبروت
③ نہرِ تشہید کی حدود عالمِ ملکوت اور
④ نہرِ تظہیر کی حدود عالمِ ناسُوت ہے۔
عالمِ لاہوت وہ دائرہ ہے جس کے اندر علمِ الٰہی بصورت غیب متمکن ہے۔ اس دائرہ کی تجلّی میں ایسے لاشمار دائرے ہیں جو خَفیف ترین نقطہ سے دائرہ کی شکل میں توسیع اِختیار کر کے پوری کائنات کو محیط ہوتے رہتے ہیں۔ تجلّی کا ہر نقطہ جب دائرہ بنتا ہے تو پہلے ہر نقطہ کے دائرے سے بڑا ہوتا ہے۔ تجلّی کے یہ لاشمار دائرے کائنات کی تمام اصلوں کی اصل ہیں۔ ہم اس غیب کا نام بَرتَر اَز وَراءِ شُہود (غیبُ الغیب) رکھ سکتے ہیں۔ لاشعور کی اصل تجلّی کے ان ہی دائروں سے اَنواع کائنات کی اصلیں بنتی ہیں۔ اگر ساری مَوجودات کی صلاحیّتیں جمع کی جائیں اور ہم ان صلاحیّتوں کی ماہیت کو تلاش کرنا چاہیں تو اس تلاش کی انتہا پر تجلّی کے دائرے پائیں گے۔ لیکن ان دائروں کو صرف روح کی نگاہ دیکھ سکتی ہے جو تخلیق کی اصل ہے۔
جب یہ تجلّی اپنی حد سے نزول کرتی ہے تو اَنواع کائنات کی ماہیت (تصوّر) بن جاتی ہے۔ ہم اس کو عام الفاظ میں لاشعور (غیب) کہہ سکتے ہیں۔ تصوّف میں ایسی ماہیت کی حدود کا نام نہر ِتجرید ہے۔ جب یہ نہر اپنی حدوں سے نزول کرتی ہے تو شعور بن جاتی ہے۔ اس ہی دائرۂِ شعور کا نام نہرِ تشہید ہے۔ جب نہرِ تشہید اپنی حدوں سے نزول کرتی ہے تو عالم محسوس کی حدوں میں داخل ہو جاتی ہے جس کو عالمِ ناسُوت یا مادّی دنیا بھی کہتے ہیں۔ یہی دنیا حرکت کا ظُہور ہے۔ اس ہی کو تصوّف کی زبان میں مظہر کہتے ہیں۔
علم کی دو قسمیں ہیں:
① علمِ حُضوری، اور
② علمِ حُصولی۔
علمِ حُضوری کی دو قسمیں ہیں:
① غیبُ الغیب (علمُ القلم)، اور
② غیب (علمِ لوح)
علمِ حُصولی کی بھی دو قسمیں ہیں:
① علمِ شعور، اور
② علمِ احساس
علمِ حُضوری کائنات کے صفاتی احساس کا مجموعہ ہے۔
علمِ حُضوری روح کی بیداری سے میسر آتا ہے۔
علمِ حُصولی اگرچہ محض روح کی تحریکات کا نتیجہ ہے لیکن اس کا اظہار جسم کے ذریعے ہوتا ہے۔
فلسفی علماء
ایک عارف مظہر یعنی عالمِ ناسُوت سے صَعود کر کے زینہ بہ زینہ عالمِ ملکوت، جبروت اور لاہوت تک جا پہنچتا ہے۔ یہ ترقی جسمانی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ اس راستہ میں صرف روح کی کوششیں کام دیتی ہیں۔
انسان کی پیدائش سے لے کر حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام تک جس قدر صحیفے نازل ہوئے ہیں ان میں اس بات کی پوری وضاحت کی گئی ہے۔ یونانی فلسفہ نے بھی ان ہی صحائف سے فائدہ اٹھایا ہے اگرچہ یہ فائدہ انہیں انبیاء کے شاگردوں ہی سے پہنچا لیکن ان کی اپنی عقل کی کارفرمائی نے اس کو زیادہ سے زیادہ الجھا دیا ہے اور ایسی متبدّل تحریفات کیں جن سے ان کے شاگرد غلط راستے پر پڑ گئے۔ ان یونانی فلسفیوں کے علاوہ اور ممالک کے فلسفی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے پیشتر ان تحریفات میں شریک تھے۔ فلسفہ کی تعلیمات کا یہ خُصوصی زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کے بعد اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش سے پہلے کا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی تعلیمات میں جس ‘‘انا’’ کی وضاحت کی گئی ہے اس ‘‘انا’’ کو اہل فلسفہ کی کوششوں نے مبہم ہی نہیں بلکہ مہمل کر دیا۔ بالخصوص تیسری، چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں علماءِ اسلام یونانی فلسفہ سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ان کی طرزِ فکر عقل کی ایسی راہوں پر گامزن نظر آتی ہے جو فلسفہ نے نکالی تھیں دراصل اس قسم کے علماءِ فریب ا س معرفت سے دور ہو چکے تھے جو حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام سے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کو پہنچی تھی۔
جس ‘‘انا’’ کا ہم نے تذکرہ کیا ہے، قرآنِ پاک میں کئی جگہ اس کی طرف اشارات ملتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے ذہن میں یہ تجسّس پیدا ہوا کہ میرا رب کون ہے؟ کہاں ہے؟ اور اس تجسّس میں ان کا ذہن ستارہ، چاند اور سورج کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک کی آیت۔۔۔۔۔۔
وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ (75) فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ (76) فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ (77) فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّي هَٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ (78) إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (79) وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللہ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ (80) وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللہ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (81) الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ (82) وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (83)
ترجمہ: اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھائیں تا کہ وہ عارف ہو جائیں اور کامل یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا۔ آپ نے فرمایا۔ یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا میں غروب ہوجانے والوں سے محبّت نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا، اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں۔ پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا۔ اے قوم بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں نہیں ہوں۔ اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کی۔ آپ نے فرمایا۔ تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ اس نے مجھ کو طریقہ بتلا دیا تھا اور ان چیزوں سے جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا۔ ہاں لیکن اگر میرا پروردگار ہی کوئی امر چاہے۔ میرا پروردگار ہر چیز کو اپنے علم کے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ کیا تم پھر خیال نہیں کرتے اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے۔ حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ سو ان دو جماعتوں میں سے امن کی زیادہ مستحق کون ہے، اگر تم خبر رکھتے ہو، جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔ ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہِ ہدایت پر چل رہے ہیں۔ اور یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلے میں دی تھی۔ ہم جس کو چاہتے ہیں رتبے میں بڑھا دیتے ہیں۔ بے شک آپ کا رب بڑا علم والا بڑا حکمت والا ہے۔
(سورۃ انعام۔ آیت ۷۶ تا ۸۴۔ پارہ ۷)
لیکن جب وہ چاند، سورج کو اپنی آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ میں چھپنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ رب کی نفی نہیں ہو سکتی۔ رب وہ ہے جس کا انسان کے ضمیر سے جدا ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ غیر رب وہ ہے جس کا انسان کے ضمیر سے جدا ہونا ممکن ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس قول سے ‘‘انا’’ کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ اس ہی ‘‘انا’’ کو حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے ‘‘نفس’’ اور اللہ تعالیٰ نے ‘‘حَبلِ الوَرید’’ فرمایا ہے۔ یہی وہ ذاتِ انسانی یا انا (ضمیر) ہے جس سے اس کا رب جدا نہیں ہو سکتا۔ اور یہی معرفتِ الٰہیہ کا پہلا قدم ہے۔ اگر ‘‘انا’’ اپنے رب کو خود سے جدا سمجھے تو وہ معرفتِ الٰہیہ سے محروم ہے۔
دنیا کا ہر انسان جانتا ہے کہ زندگی کی تجدید ہر لمحہ ہوتی رہتی ہے۔ اس تجدید کے ظاہری مادّی وسائل ہوا، پانی اور غذا ہیں لیکن انسانی جسم پر ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب ہوا، پانی اور غذا زندگی کی تجدید نہیں کر سکتی۔ مادّی دنیا میں ایسی حالت کو موت کہتے ہیں۔ جب موت وارِد ہو جاتی ہے تو کسی طرح کی ہوا، کسی طرح کا پانی اور کسی طرح کی غذا آدمی کی زندگی کو بحال نہیں کر سکتی۔ اگر ہوا، پانی اور غذا ہی انسانی زندگی کا سبب ہوتے تو کسی مُردہ جسم کو ان چیزوں کے ذریعے زندہ کرنا ناممکن نہ ہوتا۔ اب یہ حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی کا سبب ہوا، پانی اورغذا نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ اس سبب کی وضاحت بھی قرآنِ پاک کے ان الفاظ سے ہوتی ہے:
سُبْحَانَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَo
(سورۃ یٰسین۔ آیت ۳۶)
پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا۔
اس آیت کی روشنی میں زندگی کے اسباب میں ایک طرف شعوری، اسباب ہیں اور دوسری طرف لاشعوری اسباب ہیں۔ ایک سبب غیر رب کی نفی ہے جو زندگی کو بحال رکھنے کے لئے جُزواعظم ہے۔ انسان شخصِ اکبر کے ارادے کے تحت اس امر کی تعمیل کرنے پر مجبور ہے۔ جب ہم آدمی کی پوری زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی کا نصف لاشعور کے اور نصف شعور کے زیر اثر ہے۔ پیدائش کے بعد انسانی عمر کا ایک حصّہ قطعی غیر شعوری حالت میں گزرتا ہے۔ پھر ہم تمام زندگی میں نیند کا وقفہ شمار کریں تو وہ عمر کی ایک تہائی سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر غیر شعوری عمر اور نیند کے وقفے ایک جگہ کئے جائیں تو پوری عمر کا نصف ہوں گے۔ یہ وہ نصف ہے جس کو انسان لاشعور کے زیر اثر بسر کرتا ہے۔ ایسا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا جس نے قدرت کے اس قانون کو توڑ دیا ہو چنانچہ ہم زندگی کے دو حصّوں کو لاشعوری اور شعوری زندگی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہی زندگی کی دو قسمیں ہیں۔ لاشعوری زندگی کا حصّہ لازماً غیر رب کی نفی کرتا ہے اور اس نفی کا حاصل اسے غیر اِرادی طور پر جسمانی بیداری کی شکل میں ملتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص لاشعور کے زیر اثر زندگی کے وقفوں میں اضافہ کر دے تو اسے روحانی بیداری میسر آ سکتی ہے۔ اس اُصول کو قرآنِ پاک نے سورۂ مزمّل میں بیان فرمایا ہے:
‘‘اے کپڑوں میں لپٹنے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات (کہ اس میں قیام نہ کرو بلکہ آرام کرو) یا اس نصف سے کسی قدر کم کر دو یا نصف سے کسی قدر بڑھا دو اور قرآن خوب خوب صاف پڑھو (کہ ایک ایک حرف الگ الگ ہو)، ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں۔ بے شک رات کے اٹھنے میں دل اور زبان کا خوب میل ہوتا ہے۔ اور بات خوب ٹھیک نکلتی ہے۔ بیشک تم کو دن میں بہت کام رہتا ہے (دنیاوی بھی اور دینی بھی) اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کر کے اس ہی کی طرف متوجّہ رہو۔ وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اس کے سوا کوئی قابلِ عبادت نہیں۔’’
متذکرہ بالا آیات کی رُو سے جس طرح جسمانی توانائی کے لئے انسان غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے کا پابند ہے۔ اس ہی طرح روحانی بیداری کے لئے شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنا ضروری ہے۔ سورۂ مزمل شریف کی مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہی قانون بیان فرمایا ہے جس طرح غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے جسمانی زندگی تعمیر ہوتی ہے اس ہی طرح شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے۔
جس چیز کو مذکورہ بالا عبارت میں لاشعور کہا گیا ہے اور حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی زبان میں ‘‘نفس’’ اور قرآنِ پاک کی زبان میں ‘‘حَبلِ الوَرید’’ اس ہی کو تصوّف کی زبان میں ‘‘انا’’ کہتے ہیں۔ جب غیر رب کی نفی کی جاتی ہے اور ‘‘انا’’ کا شعور باقی رہتا ہے تو یہی ‘‘انا’’ اپنے رب کی طرف صَعود کرتی ہے جب یہ ‘‘انا’’ صَعود کر کے صفَتِ الٰہیہ (شخصِ اکبر) میں جذب ہو جاتی ہے تو صفَتِ الٰہی کے ساتھ منسلک ہو کر حرکت کرتی ہے۔ ‘‘انا’’ کے صفَتِ الٰہیہ میں جذب ہو جانے کی کئی منزلیں ہیں۔ پہلی منزل ہے ایمان لانا۔ اس ایمان کے بارے میں قرآنِ پاک نے اپنی ابتدائی آیت میں شرائط بندی کر دی ہے۔
الٓمٓ o ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَo الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب….
ترجمہ: یہ کتابِ الٰہی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں، راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والے لوگ ایسے ہیں کہ یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر ۔(سورۃ البقرہ)
قانون:
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں لوحِ محفوظ کا یہی قانون بیان ہوا ہے۔ نَوعِ انسانی اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اس قانون پر عمل پیرا ہے۔ یہ دن رات کے مشاہدات اور تجربات ہیں۔ جب تک ہم کسی چیز کی طرف یقین کے ساتھ متوجّہ نہیں ہوتے ہم اسے دیکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ اگر ہم کسی درخت کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو اس درخت کی ساخت، پتیاں، پھول، رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے لیکن پہلے ہمیں قانون کی شرط پوری کرنا پڑتی ہے یعنی پہلے ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اس یقین کے اسباب کچھ ہی ہوں تا ہم اپنے اِدراک میں کسی درخت کو جو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے ایک حقیقتِ ثابِتہ تسلیم کرنے کے بعد اس درخت کے پھول، پتوں، ساخت اور رنگ و روپ کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہمارے ذہن میں درخت نہ ہو تو پھر اس کی تشریح کرنا ہماری بصارت کے لئے ناممکن ہے کیونکہ بصارت ہی یقین کی وضاحت کرتی ہے۔
ہماری روزمرّہ زندگی میں یہی قانون جاری و ساری ہے۔ جب ہم ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف سفر کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ہم جس شہر کی طرف جا رہے ہیں وہ موجود ہے اگر چہ اس شہر کو ہم نے دیکھا نہ ہو۔ لوحِ محفوظ کا یہی وہ قانون ہے جو مادّی دنیا اور روحانی دنیا دونوں میں یکساں نافذ ہے۔ بچہ کی تربیت کا سارا دارومدار اِسی قانون پر ہے۔ ہر بچہ بتائی ہوئی بات کو حقیقت تسلیم کر کے اِستفادہ کرتا ہے۔
اب ہم ‘‘انا’’ کے نزول اور صَعود کی تھوڑی سی تشریح کرتے ہیں۔ ‘‘انا’’ یا ذات انسانی یا نفس جس کو روح بھی کہتے ہیں۔ روشنی کا ایسا ہیولیٰ ہے جو ایک طرف اپنی اصل کے ساتھ اور دوسری طرف اپنی نَوع کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کی اصل صفاتِ الٰہیہ کا وہ مجموعہ ہے جس کے ذریعے تمام کائنات کے حواس ایک رشتہ میں بندھے ہوئے ہیں، گویا لطیف روشنی کا ایک سمندر ہے جس کی سطح پر کائنات کی تمام شکلیں اور صورتیں ابھرتی ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک شکل وصورت اپنی نَوع کے اعمال اور اشغال انجام دے کر سمندر کے اندرڈوب جاتی ہیں۔ ہر نَوع کی کسی ایک شکل وصورت کا نام ‘‘فرد’’ ہے۔ اس فرد کا احساس دو اَجزاء سے مرکّب ہے۔ یہ احساس دریا کی تہہ سے اپنا سفر شروع کر کے دریا کی سطح تک پہنچتا ہے۔ سطح پر ابھرنے کے بعد ‘‘فرد’’ کا مَخفی احساس شعور بن جاتا ہے۔ اس حالت میں فرد سے جو حرکات صادِر ہوتی ہیں وہ تمام شعوری حرکات کہلاتی ہیں۔ یہی اس کی خارجی زندگی ہے لیکن فرد کا مَخفی احساس اس کا لاشعور ہے۔ دراصل یہ لاشعور سمندر کے تمام قطروں کے مَخفی احساسات کا مجموعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو سمندر کا اجتماعی شعور کہنا چاہئے سمندر کا اجتماعی شعور فرد کا لاشعور ہوتا ہے۔ اِسی طرح تمام افراد جو سمندر کی تہہ سے ابھر کر سطح پر آتے ہیں وہ سب کے سب ایک مَخفی شعور کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ سمندر میں جب اس شعور کی ڈور ہلتی ہے تو سمندر کی سطح پر ابھرنے والے تمام افراد خود کو ایک دوسرے سے متعارف اور مانوس محسوس کرتے ہیں۔ جب ایک آدمی سورج کو دیکھتا ہے تو وہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ سورج بھی میری طرح اس کائنات کا ایک فرد اور ایک رکن ہے۔ وہاں اس کو اپنے ذہن کی سطح پر اپنی ہستی اور سورج کی ہستی کا یکساں احساس ہوتا ہے حالانکہ ایک آدمی کی نَوع سورج کی نَوع سے بالکل الگ ہے۔ اس ہی ربط اور تعارف کو تصوّف میں نسبت کہتے ہیں۔ یہ نسبت وہ مَخفی احساس ہے جو سمندر کی تہہ میں ہر نَوع کے ہر فرد کو محیط ہے۔ اس ہی کی وجہ سے کائنات کا ہر ذرّہ کائنات کی مشترک صفات کا مالک ہے۔ انسان کی ‘‘انا’’ اپنے شعور میں اس ہی مَخفی احساس یا نسبت کے ذریعہ آہستہ آہستہ اپنی کوششوں سے کائنات کی مختلف صفات سے تعارف حاصل کر لیتی ہے۔ مَخفی طور پر تو انسان کی انا کائنات کی مشترک صفات سے پہلے ہی رُوشناس ہوتی ہے لیکن وہ اپنی کوششوں کے ذریعہ آہستہ آہستہ اس مَخفی احساس کو اپنے شعور میں منتقل کر لیتی ہے۔ اب اس میں یہ صلاحیّت پیدا ہو جاتی ہے کہ سمندر کے اندر کائنات کی مشترک صفات میں جو تحریکات ہوتی ہیں ان کو محسوس کرتی اور دیکھ لیتی ہے۔ جب سمندر کے اندر یا غیب میں حرکت ہوتی ہے تو فرد کو اس کا پورا علم ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس کا قانون بیان فرمایا ہے جس کا تزکرہ آ چکا ہے۔
’’ہم نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا ہے۔‘‘
دو قسمیں یا دو رُخ مل کر وُجود ہوتے ہیں مثلاً پیاس، شئے کا ایک رخ ہے۔ اور پانی دوسرا رخ۔ پیاس روح کی شکل وصورت ہے اور پانی جسم کی شکل و صورت یعنی اِمتِثال کے دو رخ ہیں۔ ایک روح، دوسرا جسم۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ہیں۔ اگر دنیا سے پیاس کا احساس فنا ہو جائے تو پانی بھی فنا ہو جائے گا۔ تصوّف کی زبان میں روح والے رخ کو تمثُّل کہتے ہیں اور مادّی رخ کو جسم کہتے ہیں۔ اگر دنیا میں کوئی وبا پھوٹ پڑے تو یہ امر یقینی ہے کہ اس کی دوا پہلے سے موجود ہے۔ اس ہی طرح وبائی مرض اور اس وبائی مرض کی دوا دونوں مل کر ایک اِمتِثال کہلائیں گے۔
قانون:
کسی شئے کی معنویّت، ماہیت یا روح علمِ شئے کہلاتی ہے اور اس کا جسمانی اِنشراح یا مظہر شئے کہلاتا ہے۔ اگر کسی طرح روح کا إثبات ہو جائے تو شئے کا موجود ہونا یقینی ہے۔
جس وقت ہم گرمی محسوس کرتے ہیں اس وقت ہمارے احساس کے اندرونی رخ میں برابر سردی کا احساس کام کرتا رہتا ہے۔ جب تک اندرونی طور پر سردی کا یہ احساس باقی رہتا ہے۔ ہم خارجی طور پر گرمی محسوس کرتے ہیں۔ یعنی لاشعور میں سردی کا احساس اور شعور میں گرمی کا احساس دونوں مل کر ایک اِمتِثال ہے۔ چنانچہ ایک رخ علمِ شئے اور دوسرا رخ شئے ہوتا ہے۔ اگر کہیں علمِ شئے کا سُراغ مل جائے تو پھر شئے کا وُجود میں آنا لازمی ہے۔ اگر کسی کی طبیعت کونین (QUININE) کی طرف رغبت کرنے لگے تو لازماً اس کے اندر ملیریا (MALARIA) موجود ہے جس کا واقع ہونا لازمی ہے کیونکہ کونین کی رغبت علمِ شئے ہے اور ملیریا شئے ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 121 تا 143
لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔