یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
فنا کا مراقبہ
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12497
جب کوئی شخص مضمون لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کے ذہن میں پہلے پہل ایک عنوان ہوتا ہے۔ لیکن اس عنوان کی ترتیب و تفصیل اس کے ذہن میں نہیں ہوتی۔ جب وہ کاغذ قلم سنبھال کر ذہن کو حرکت دیتا ہے تو مضمون کی تفصیل مرتب ہونے لگتی ہے۔ جو کچھ وہ لکھتا ہے وہ مفہوم اور معنویت کے اعتبار سے اس کے لاشعور میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ اسی ذخیرے سے یہ مفہوم تفصیلی خدوخال اختیار کر کے الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے۔ مضمون میں کوئی بات ایسی نہیں ہوتی جو مفہوم اور معانی میں صاحب ِمضمون کے لاشعور میں موجود نہ ہو۔ اگر یہ موجودگی نہ ہو تو مضمون الفاظ کی شکل و صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ اس طرح مضمون کے تین تعینات قائم ہوتے ہیں۔ ایک وہ تعین جس میں مضمون مفہوم کی شکل میں وجود پذیر ہے۔ دوسرا وہ تعین جہاں الفاظ کی صورت میں متشکل ہوتا ہے اور تیسرا وہ تعین جہاں قلم الفاظ کو کاغذ پر لکھ کر مادّی خدوخال بخشتا ہے۔
جس طرح مضمون کی تین حیثیتیں ہیں اور مضمون مادّی شکل وصورت اختیار کرنے میں تین مراحل سے گزرتا ہے اسی طرح تمام مظاہرات تین جگہ موجود ہیں۔ کوئی بھی وجود یا کوئی بھی حرکت چاہے اس کا تعلق ماضی سے ہو، حال سے ہو یا اس کا رشتہ مستقبل سے ہو، وہ ان تین تعینات سے باہر نہیں ہے۔
اس بات کی مزید وضاحت کے لئے مصور کی مثال دی جاتی ہے ۔ ایک مصور کاغذ پر کبوتر کی تصویر بناتا ہے۔ وہ دوسری تصویر بنانا چاہے تو پھر بنا سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تصویر کا علم اس کے ذہن میں محفوظ ہے۔ کاغذ پر صرف تصویر کا عکس منتقل ہوتا ہے۔ اصل تصویر منتقل نہیں ہوتی۔ اس طرح وہ جتنی چاہے تصویریں بنا سکتا ہے۔ لیکن تصویر کا علم پھر بھی اس کے ذہن سے جدا نہیں ہوتا۔
کوئی بھی علم کوئی بھی حرکت، کوئی بھی مظہر جس جگہ مفہوم اور معنوی خدوخال میں موجود ہے اسے عالم تمثال کہتے ہیں۔ عالم تمثال میں بھی ہر مظہر نقوش اور خدوخال رکھتا ہے۔ ان خدوخال کو روح کی آنکھ دیکھتی ہے۔ اگر انسان مراقبہ کے ذریعے ان خدوخال یا ان نقوش کو سمجھنے کی کوشش کرے تو اس کا شعور ان انطباعیہ نقوش کو معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ان نقوش میں وہ واقعات بھی شامل ہیں جو مستقبل کے احکامات ہیں اور جن کی تعمیل من و عن اپنے وقت پر ظہور میں آتی ہے۔
عالم تمثال کا مطالعہ کرنے کا طریقہ فنا کا مراقبہ ہے:
صاحب مراقبہ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کرتا ہے کہ اس کی زندگی کے تمام آثار فنا ہو چکے ہیں اور وہ ایک نقطہ روشنی کی صورت میں موجود ہے۔ وہ یہ خیال اپنے ذہن میں مستحکم کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی دنیاسے بالکل آزاد ہے اور اس کا تعلق صرف اس دنیاسے باقی ہے جس کے احاطے میں ازل سے ابد تک کی سرگرمیاں موجود ہیں۔
چنانچہ کوئی شخص جتنی مشق کرتا ہے اتنی ہی عالم تمثال کی انطباعیت اس کے ذہن پر منکشف ہو جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ ان نقوش کا مفہوم اس کے شعور میں منتقل ہونے لگتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 314 تا 317
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔