یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔

فلم اور اسکرین

مکمل کتاب : مراقبہ

مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12125

ہمارا ذہن ایک اسکرین ہے۔ جس پر زندگی کی فلم چلتی رہتی ہے۔ اس اسکرین کی دو سطحیں ہیں۔ ایک سطح وہ ہے جس پر مادی حواس کی فلم چلتی ہے۔ جو بھی خواہشات اور تقاضے، خیالات کی صورت میں وارد ہوتے ہیں ان کا عکس شعور کی بیرونی سطح پر پڑتا ہے اور ان تقاضوں کے تحت مادی جسم کے اعمال و وظائف پورے ہوتے ہیں۔

اسکرین کی دوسری سطح ذہن کی گہرائی میں موجود ہے۔ اسے اندرونی سطح بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سطح پر اطلاعات کا تصویری عکس روشنی کی شکل میں پڑتا ہے ۔عام حالات میں یہ اسکرین ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں آتا۔

مثال:

سینما گھر میں اسکرین کے بالمقابل ایک جگہ پروجیکٹر نصب ہوتا ہے۔ اس پروجیکٹر پر فلم چڑھا کر روشنی کا سوئچ آن کر دیا جاتا ہے۔ فلم کے فیتے پر محفوظ نقوش روشنی کی لہروں کے ذریعے سفر کرتے ہوئے اسکرین پر تصویری خدوخال میں نظرآتے ہیں۔ اگر پروجیکٹر اور اسکرین کے درمیان خلاء میں دیکھا جائے تو روشنی کا ایک دھارا نظر آتا ہے۔ روشنی کی ان لہروں میں وہ تمام تصاویر موجود ہوتی ہیں جو اسکرین تک پہنچتی ہیں۔ اس طرح تین تعینات قائم ہوتے ہیں۔ ایک فلم کے نقوش، دوسرا روشنی یا لہروں کا وہ نظام جس کے ذریعے تصاویر سفر کرتی ہیں اور تیسرا وہ اسکرین جہاں لہریں ٹکرا کر تصویری خدوخال بن جاتی ہیں۔

جب ہمارے اندر مادی حواس حرکت کرتے ہیں تو ہم فلم کو مادی اسکرین پر مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس وقت فلم کا عکس شعور کی بیرونی سطح پر پڑتا ہے۔ جبلی طور پر ہمارا حافظہ ہمیں کشش ثقل کا پابند کر دیتا ہے۔ ہم وقت اور فاصلے کی پابندیوں میں صرف لمحہ حاضر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

ہمارے ذہن میں ایک روشنی کی اسکرین بھی موجود ہے۔ جس پر کائناتی فلم کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس اسکرین پر ہم فلم کے ان اجزاء کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو مادی آنکھوں سے ماورا رہتے ہیں۔ اس طرز مشاہدہ میں وقت اور فاصلہ کی مروجہ پابندی باقی نہیں رہتی۔ ثانیۂ حاضر میں ہم کسی بھی لمحے کو دیکھ سکتے ہیں۔ چاہے اس کا تعلق ماضی و مستقبل سے ہو یا قریب و بعید سے ہو۔

ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ ایسے عوامل کے دوش پر سفر کر رہا ہے جو بظاہر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ لیکن ان کی موجودگی کے بغیر کوئی حرکت ظہور میں نہیں آتی۔ موجودات کی ہر حرکت ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ اور ہر لمحے کی تعمیر پہلے لمحے پر قائم ہے۔ پہلے لمحے سے دوسرا لمحہ جنم لیتا ہے اور دوسرے لمحے سے تیسرا لمحہ وجود میں آجاتا ہے۔ زندگی کی جن حرکات کو ہم ماضی کہتے ہیں اور جن لمحات کا نام مستقبل رکھا جاتا ہے، زمانہ حال میں ان کی موجودگی کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔

زندگی کی تمام صفات اور تمام اطلاعات جسمانی وجود کے ساتھ منسلک رہتی ہیں۔ عام طور پر ہماری آنکھیں انہیں دیکھ نہیں سکتیں۔ لیکن جب ان کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ سامنے آ جاتی ہیں۔ ظاہری حواس ان صفات کو دیکھ نہیں سکتے، لیکن ان صفات کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ صفات کی یہ سطح روشنی کی دنیا میں مکمل خدوخال کے ساتھ موجود رہتی ہے۔ لہروں کے ذریعے یا خلیات کے کیمیاوی عناصر کی معرفت یہ نظام حرکت کرتا ہے۔

جب ہم کسی شخص مثلاً محمود کو دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے گوشت پوست کا ایک مجسمہ ہوتا ہے لیکن محمود کی صفات نگاہوں سے ماوراء رہتی ہیں۔ مثلاً محمود نرم دل ہے، بردبار ہے، معاملہ فہم ہے، احساسات رکھتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ محمود کے دماغ میں بہت سے علوم محفوظ ہیں۔ حافظے میں لاتعداد نقوش جمع ہیں، محمود کے جسم و دماغ میں لاتعداد حرکات ایسی جاری رہتی ہیں۔ جنہیں بظاہر دیکھا نہیں جا سکتا۔

محمود کی زندگی لاتعداد حرکات کا مجموعہ ہے۔ پیدائش سے زمانہ حاضر تک ہر ذہنی اور جسمانی عمل ایک حرکت ہے۔ محمود کی زندگی ایک فلم ہے۔ جس میں ہر حرکت ایک نقش ہے۔ ان میں کسی بھی نقش کو محمود کی زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تمام حرکات محمود کی خفی زندگی ہیں۔ ہمارے سامنے جو شخص موجود ہے۔ وہ صرف مادی خدوخال کا مجسمہ ہے لیکن اس کا ماضی، اس کا مستقبل اور اس کی تمام صلاحیتیں اور صفات نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل محمود صفات کا نام ہے اور جسم ان صفات کا مظاہرہ ہے۔

محمود کی خفی زندگی اور اس کی تمام خصوصیات ایک ریکارڈ یا فلم کی شکل میں موجود ہیں۔ اس فلم کا مادی مظہر خود محمود کا جسمانی وجود ہے۔ جس کو شعور بھی کہتے ہیں۔ ہماری نگاہیں جس محمود کو دیکھتی  ہیں وہ چند صفات کا مجموعہ ہے جبکہ دیگر لاتعداد صفات کو ہماری نگاہ احاطہ نہیں کر سکتی۔ لیکن ان صفات کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں ہے۔

غیبی ریکارڈ یا فلم ہر وقت ذہن کے ساتھ موجود رہتی ہے۔ مثلاً جب ہم کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جسے پچیس سال پہلے دیکھا تھا تو ہمیں گذشتہ پچیس سال کے واقعات یاد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ ہم جسمانی طور سے پچیس سالوں کو عبور کر کے ماضی میں منتقل ہوتے ہیں بلکہ ہم دیکھتے ہی اس شخص کو پہچان جاتے ہیں۔ یعنی پچیس سال کا وقفہ لاشعور میں ریکارڈ ہے۔ جب یہ ریکارڈ حرکت میں آیا تو پچیس سالہ شخصیت کو واپس لانے کے لئے تمام درمیانی وقفہ حذف ہو گیا اور ہمارا ذہن ریکارڈ میں اس لمحے کو دیکھنے کے قابل ہو گیا جس میں پچیس سال پہلے کی شخصیت محفوظ ہے۔

کسی درخت کا بیج اس کی زندگی کا اولین مادی مظہر سمجھا جاتا ہے۔ یہی بیج جب مٹی اور پانی سے متصل ہوتا ہے اور اسے ایک مخصوص درجہ حرارت میسر آتا ہے تو زندگی میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ بظاہر ایک ننھے سے بیج کو دیکھ کر یہ بات ناقابل فہم معلوم ہوتی ہے کہ ایک ننھے منے بیج میں درخت کی پوری زندگی، اس کی شاخیں، پتے، پھل پھول اور آنے والی نسلوں کے پورے درخت موجود ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ناقابل تردید ہے۔ یہی بیج نمو پاتا ہے تو زندگی کے تمام مراحل یکے بعد دیگرے طے کرنے لگتا ہے۔ باالفاظ دیگر درخت کے مادی وجود (بیج) کے ساتھ اس کی پوری زندگی ایک ریکارڈ کی صورت میں منسلک رہتی ہے۔ اور یہی ریکارڈ ترتیب اور معین مقداروں کے ساتھ پورا درخت بن جاتا ہے۔

روحانی علم کے مطابق صفات کا تمام ریکارڈ ایک ایسی سطح پر موجود ہے۔ جسے روشنی کی دنیا کہتے ہیں۔ اس ریکارڈ کو فلم کی شکل میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اندرونی فلم کے مشاہدے کا طریقہ یہ ہے کہ نگاہ کو مادی اسکرین سے ہٹایا جائے۔ اس عمل میں وہ تمام امور اختیار کیے جاتے ہیں جن سے نگاہ بیرونی اسکرین کے بجائے اندرونی اسکرین کی طرف راغب ہوتی ہے۔ اس کوشش سے شعوری واردات مغلوب ہو جاتی ہے اور نگاہ اس اسکرین کو رد کر دیتی ہے جو مادی ہوش و حواس میں نگاہ کے سامنے رہتا ہے۔ مسلسل مشق سے نگاہ کی مرکزیت وہ اسکرین بن جاتا ہے جو ذہن کی داخلی سطح ہے اور جس پر کائنات کے مخفی مظاہر کی فلم حرکت کرتی ہے۔

اندرونی فلم پر نگاہ قائم کرنا، ہماری عادت میں داخل نہیں ہے اس لیے طبیعت اس رجحان کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ طرح طرح کے خیالات آتے ہیں اور طبیعت میں بیزاری پیدا ہوتی ہے۔ اندرونی اسکرین پر نگاہ کو قائم کرنے کے لئے اس عمل کو بار بار دھرانا پڑتا ہے تا کہ یہ عمل عادت بن جائے۔

آدمی کے اندر نقطۂ ذات دونوں اسکرین پر کائنات کے مظاہر دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اندرونی فلم سے وہ اس لئے ناواقف ہے کہ ا س کی تمام تر دلچسپی بیرونی اسکرین کے ساتھ ہے۔ اندرونی فلم دیکھنے کی طرف آدمی متوجہ نہیں ہوتا۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 39 تا 44

یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔

مراقبہ کے مضامین :

انتساب 1 - انفس و آفاق 2 - ارتکاز توجہ 3 - روحانی دماغ 4 - خیالات کی لہریں 5 - تیسری آنکھ 6 - فلم اور اسکرین 7 - روح کی حرکت 8.1 - برقی نظام 8.2 - تین کرنٹ 9.1 - تین پرت 9.2 - نظر کا قانون 10 - كائنات کا قلب 11 - نظریہ توحید 12.1 - مراقبہ اور مذہب 12.2 - تفکر 12.3 - حضرت ابراہیم ؑ 12.4 - حضرت موسیٰ ؑ 12.5 - حضرت مریم ؑ 12.6 - حضرت عیسیٰ ؑ 12.7 - غار حرا 12.8 - توجہ الی اللہ 12.9 - نماز اور مراقبہ 12.10 - ذکر و فکر 12.11 - مذاہب عالم 13.1 - مراقبہ کے فوائد 13.2 - شیزو فرینیا 13.3 - مینیا 14.1 - مدارج 14.2 - غنود 14.3 - رنگین خواب 14.4 - بیماریوں سے متعلق خواب 14.5 - مشورے 14.6 - نشاندہی 14.7 - مستقبل سے متعلق خواب 15.1 - لطیف احساسات 15.2 - ادراک 15.3 - ورود 15.4 - الہام 15.5 - وحی کی حقیقت 15.6 - کشف 16 - سیر 17 - فتح 18.1 - مراقبہ کی اقسام 18.2 - وضاحت 18.3 - عملی پروگرام 18.4 - اندازِ نشست 18.5 - جگہ اور اوقات 18.6 - مادی امداد 18.7 - تصور 18.8 - گریز 18.9 - مراقبہ اور نیند 18.10 - توانائی کا ذخیرہ 19.1 - معاون مشقیں 19.2 - سانس 19.3 - استغراق 20.1 - چار مہینے 20.2 - قوتِ مدافعت 20.3 - دماغی کمزوری 21 - روحانی نظریہ علاج 22.1 - رنگ روشنی کا مراقبہ 22.2 - نیلی روشنی 22.3 - زرد روشنی 22.4 - نارنجی روشنی 22.5 - سبز روشنی 22.6 - سرخ روشنی 22.7 - جامنی روشنی 22.8 - گلابی روشنی 23 - مرتبہ احسان 24 - غیب کی دنیا 25.1 - مراقبہ موت 25.2 - اعراف 25.3 - عظیم الشان شہر 25.4 - کاروبار 25.5 - علمائے سوء 25.6 - لگائی بجھائی 25.7 - غیبت 25.8 - اونچی اونچی بلڈنگیں 25.9 - ملک الموت 25.10 - مراقبہ نور 26.1 - کشف القبور 26.2 - شاہ عبدالعزیز دہلویؒ 27 - روح کا لباس 28.1 - ہاتف غیبی 28.2 - تفہیم 28.3 - روحانی سیر 28.4 - مراقبہ قلب 28.5 - مراقبہ وحدت 28.6 - ’’لا‘‘ کا مراقبہ 28.7 - مراقبہ عدم 28.8 - فنا کا مراقبہ 28.9 - مراقبہ، اللہ کے نام 28.10 - اسم ذات 29 - تصورشیخ 30 - تصور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام 31 - ذات الٰہی
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)