عملِ اِسترخاء
مکمل کتاب : لوح و قلم
مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2905
لطیفۂِ نفسی کی روشنی میں عملِ اِسترخاء کا پہلا قدم سماعت کا حرکت میں آ جانا ہے۔ یہ قدم انسان یا کسی ذی روح کے اندر کے خیالات کو آواز بنا کر صاحبِ شُہود کی سماعت تک پہنچا دیتا ہے۔ تفہیم کے سبق میں اس شُہود کو تقویت پہنچانے کے لئے کئی مادّی چیزیں بھی استعمال کی جاتی ہیں جن میں سے ایک سیاہ مرچ کا سفوف ہے۔ اس سفوف کو پانی کے ایک دو قطروں کے ذریعے روئی کے چھوٹے سے پھوئے پر لپیٹ کر کانوں کے سوراخوں میں رکھ لیتے ہیں۔ مراقبہ کے وقت بھی اور استرخاء کے وقت بھی۔
عملِ اِسترخاء کا دوسرا قدم یہ ہے کہ لطیفۂِ نفسی کی روشنیاں شامّہ اور لامِسہ کو ترتیب دے سکتی ہیں اور صاحبِ شُہود کسی چیز کو خواہ اس کا فاصلہ لاکھوں برس کی روشنی کے سالوں کا ہو، سونگھ سکتا ہے اور چھو سکتا ہے۔ روشنی کی رفتار فی سیکنڈ دو لاکھ میل سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ لطیفۂِ نفسی کی روشنیاں بڑھانے میں کئی طرح کی فکریں خاص طور سے کام میں لائی جاتی ہیں۔ شغل اور فکر کی دو ایک مثالیں دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
نمبر۱:
الف انوار جن کے تذکرے پر یہ تمام باب مشتمل ہے، اللہ تعالیٰ کی ایک صفَت ہے، ایسی صفَت جس کا تجزیہ ہم ذات انسانی میں کر سکتے ہیں۔ یہی صفَت انسان کا لاشعور ہے۔ عَمومی طرزوں میں لاشعور اعمال کی ایسی بنیادوں کو قرار دیا جاتا ہے جن کا علم عقلِ انسانی کو نہیں ہوتا۔ اگر ہم کسی ایسی بنیاد کی طرف پورے غور و فکر سے مائل ہو جائیں جس کو ہم یا تو نہیں سمجھتےہیں یا سمجھتے ہیں تو اس کی معنویّت اور مفہوم ہمارے ذہن میں صرف ‘‘لا’’ کی ہوتی ہے یعنی ہم اس کو صرف نفی تصوّر کرتے ہیں۔
ہر ابتداء کا قانون لوحِ محفوظ کی عبارتوں میں ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جب ابتداء کی معنویّت سے بحث کرتے ہیں یا اپنے ذہنی مفہوم میں کسی چیز کی ابتداء کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس وقت ہمارے تصوّر کی گہرائیوں میں صرف ‘‘لا’’ کا مفہوم ہوتا ہے یعنی ہم ابتداء کے پہلے مرحلے میں صرف نفی سے متعارف ہوتے ہیں حالانکہ عقل کی عام قدروں نے اس معانی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ لیکن لوحِ محفوظ کا قانون ہمیں اس حقیقت کو پوری طرح سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس ‘‘لا’’ کا تجزیہ کئے بغیر ہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ہر وہ حقیقت جس سے ہم کسی طرح، چاہے توہماتی طور پر یا خیالاتی طرزوں پر یا تصوّراتی طرز پر رُوشناس ہیں ایک ہستی رکھتی ہے، خواہ وہ ہستی ‘‘لا’’(نفی) یا إثبات ہو۔ جب ہم لوحِ محفوظ کے قانون کی طرزوں کو سمجھ چکے ہوں تو کسی حقیقت کو خواہ وہ نفی ہو یا إثبات ہو ایک ہی تصوّر کی روشنی میں دیکھیں گے۔ جب ہم إثبات کو ‘‘ہے’’ کہتے ہیں یعنی اس کو ایک ہستی سمجھتے ہیں تو نفی کو ‘‘نہیں ہے’’ کہتے ہیں یعنی اس کو بھی ایسی ہستی قرار دیتے ہیں جس کے ہونے کا علم ہمیں حاصل نہیں۔ گویا ہم لاعلمی کا نام نفی رکھتے ہیں اور علم کا نام إثبات۔ جس کا نام ہم إثبات یا علم رکھتے ہیں وہ، بغیر اس کے کہ ہم لاعلمی سے واقفیّت رکھتے ہوں، ہماری شناخت میں نہیں آ سکتا۔ بالفاظ دیگر پہلے ہم نے لاعلمی کو پہچانا، پھر علم کو۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 75 تا 76
لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔