عالمِ رُؤیا سے انسان کا تعلق
مکمل کتاب : لوح و قلم
مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=238
یہ دیکھا جاتا ہے کہ انسان اپنے ذہن میں کائنات کی ہر چیز سے رُوشناس ہے۔ ہم جس چیز کو حافظہ کہتے ہیں وہ ہر دیکھی ہوئی چیز کو اور ہر سُنی ہوئی بات کو یاد رکھتا ہے۔ جن چیزوں سے ہم واقف نہیں ہیں ہمارے ذہن میں ان چیزوں سے واقفیّت پیدا کرنے کا تجسّس موجود ہے، اگر اس تجسّس کا تجزیہ کیا جائے تو کئی روحانی صلاحیّتوں کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ یہی تجسّس وہ صلاحیّت ہے جس کے ذریعے ہم کائنات کے ہر ذرّے سے رُوشناسی حاصل کرتے ہیں۔ اس قوّت کی صلاحیّتیں اس قدر ہیں کہ جب ان سے کام لیا جائے تو وہ کائنات کی تمام ایسی مَوجودات سے جو پہلے کبھی تھیں یا اب ہیں یا آئندہ ہوں گی، واقف ہو جاتی ہیں۔ واقفیّت حاصل کرنے کے لئے ہمارا ذہن تجسّس کرتا ہے۔ تجسّس ایک ایسی حرکت کا نام ہے جو پوری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ قرآنِ پاک میں اَلَا اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْ ءٍ مُّحِیْط اللہ تعالیٰ کی ہر چیز کو احاطہ کرنے والی صفَت کا تذکرہ ہے۔ اس صفَت کا عکس انسان کی روح میں پایا جاتا ہے۔ اس ہی عکس کے ذریعے انسان کا تحتِ لاشعور عالمِ رُؤیا کائنات کی ہر چیز سے واقف ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 14 تا 14
لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔