یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
شاہ عبدالعزیز دہلویؒ
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12461
برصغیر پاک و ہند کے ایک معروف صاحب کمال بزرگ حضرت غوث علی شاہ قلندرؒ پانی پتی نے تذکرہ غوثیہ میں مندرجہ ذیل واقعہ بیان کیا ہے جو موت کے بعد کی زندگی، اعراف کے بارے میں نہایت حیرت انگیز معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ واقعہ ان دنوں پیش آیا جب حضرت غوث علی شاہؒ اپنے وقت کے ایک باکمال صاحبِ علم بزرگ حضرت شاہ عبدالعزیزؒ دہلوی سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
غوث علی شاہؒ صاحب فرماتے ہیں:
’’ایک شخص شاہ صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا لباس کے اعتبار سے وہ شاہی عہدیدار معلوم ہوتا تھا۔ اس نے شاہ صاحبؒ سے کہا۔’’حضرت میری سرگزشت اتنی عجیب و غریب ہے کہ کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ خود میری عقل بھی کام نہیں کرتی۔ حیران ہوں کہ کیا کہوں، کس سے کہوں، کیا کروں اور کہاں جاؤں؟ اب تھک ہار کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔‘‘
اس شخص نے اپنی سرگزشت بیان کرتے ہوئے کہا۔
’’میں لکھنؤ میں رہتا تھا برسر روزگار تھا۔ حالات اچھے گزر رہے تھے۔ قسمت نے پلٹا کھایا۔ معاشی حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ زیادہ وقت بیکاری میں گزرنے لگا۔ میں نے سوچا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کہ کسی دوسرے شہر میں حصولِ معاش کی کوشش کی جائے۔ تھوڑا سا زادِ راہ ساتھ لیا اور اُودے پور کی طرف روانہ ہو گیا راستے میں ریواڑی کے مقام پر قیام کیا اس زمانے میں وہ جگہ ویران تھی صرف ایک تکیہ اور ایک سرائے آباد تھی۔ سرائے میں کچھ کسبیاں رہتی تھیں۔ میں سرائے میں متفکر بیٹھا تھا کہ کیا کیا جائے۔ پیسے بھی ختم ہو گئے تھے۔ ایک کسبی آئی اور کہنے لگی میاں کس فکر میں بیٹھے ہو کھانا کیوں نہیں کھاتے؟ میں نے کہا ابھی سفر کی تھکان ہے۔ ذرا سستا لوں تھکن دور ہونے پر کھانا کھاؤں گا۔ یہ سن کر وہ چلی گئی۔ پھر کچھ دیر بعد آئی اور وہی سوال کیا۔ میں نے پھر وہی جواب دیا اور وہ چلی گئی۔ تیسری دفعہ آ کر پوچھا تو میں نے سب کچھ بتا دیا کہ میرے پاس جو کچھ تھا خرچ ہو چکا ہے اب ہتھیار اور گھوڑا بیچنے کی سوچ رہا ہوں۔ وہ اٹھ کر خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی اور دس روپے لا کر میرے حوالے کر دیئے۔ جب میں نے روپیہ لینے میں پس و پیش کیا تو اس نے کہا کہ میں نے یہ روپے چرخہ کات کر اپنے کفن دفن کے لئے جمع کئے ہیں، تکلّف کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ میں آپ کوقرضِ حسنہ دے رہی ہوں جب حالات درست ہو جائیں تو واپس کر دینا۔
میں نے روپے لئے اور خرچ کرتا ہوا اودے پور پہنچا۔ وہاں اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ فوراً ایک شاہی نوکری مل گئی۔ مالی اعتبار سے خوب ترقی ہوئی اور چند سالوں میں ریل پیل ہو گئی۔ انہی دنوں گھر سے خط آیا کہ لڑکا جوانی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے اور جہاں اس کی نسبت ٹھہرائی گئی تھی وہ لوگ شادی پر اصرار کر رہے ہیں۔ اس لئے جلد سے جلد آ کر اس فرض سے سبکدوش ہو جاؤ۔
رخصت منظور ہونے پر میں اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ ریواڑی پہنچا تو پرانے واقعات کی یاد ذہن میں تازہ ہو گئی۔ سرائے میں جا کر کسبی کے متعلق معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ سخت بیمار ہے اور کچھ لمحوں کی مہمان ہے۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ آخری سانس لے رہی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے اس کی روح پرواز کر گئی۔ میں نے تجہیز و تکفین کا سامان کیا، اسے خود قبر میں اتارا اور سرائے میں واپس آ کر سو گیا۔ آدھی رات کے وقت پیسوں کا خیال آیا۔ دیکھا تو جیب میں رکھی ہوئی پانچ ہزار کی ہنڈی غائب تھی تلاش کیا مگر نہیں ملی۔ خیال آیا کہ ہو نہ ہو دفن کرتے وقت قبر میں گر گئی ہے۔ افتاں و خیزاں قبرستان پہنچا اور ہمت کر کے قبر کو کھول دیا۔
قبر کے اندر اترا تو ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ وہاں میت تھی نہ ہنڈی۔ ایک طرف دروازہ نظر آ رہا تھا۔ ہمت کر کے دروازے کے اندر داخل ہوا تو ایک نئی دنیا سامنے تھی۔ چاروں طرف باغات کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا اور ہرے بھرے پھلدار درخت سر اٹھائے کھڑے تھے۔ باغ میں ایک طرف ایک عالی شان عمارت بنی ہوئی تھی۔ عمارت کے اندر قدم رکھا تو ایک حسین و جمیل عورت پر نظر پڑی۔ وہ شاہانہ لباس پہنے، بناؤ سنگھار کئے بیٹھی تھی۔ ارد گرد خدمت گار ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ عورت نے مجھے مخاطب کر کے کہا تم نے مجھے نہیں پہچانا۔ میں وہی ہوں جس نے تمہیں دس روپے دیئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو میرا یہ عمل پسند آیااور اس عمل کی بدولت یہ مرتبہ اور عروج مجھے عنایت فرمایا ہے۔ یہ تمہاری ہنڈی ہے جو قبر کے اندر گر گئی تھی۔ ہنڈی لو اور یہاں سے فوراً چلے جاؤ۔
میں نے کہا کہ میں یہاں کچھ دیر ٹھہر کر سیر کرنا چاہتا ہوں۔ حسین و جمیل عورت نے جواب دیا کہ تم قیامت تک بھی گھومتے پھرتے رہو تو یہاں کی سیر نہیں کر سکو گے۔ فوراً واپس ہو جاؤ۔ تمہیں نہیں معلوم کہ دنیا اس عرصے میں کہاں کی کہاں پہنچ چکی ہو گی۔ میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا اور قبر سے باہر آیا۔ تو اب وہاں سرائے تھی نہ تکیہ اور نہ ہی وہ پرانی آبادی تھی۔ بلکہ چاروں طرف شہری آبادی پھیلی ہوئی تھی۔ کچھ لوگوں سے سرائے اور تکیہ کے بارے میں پوچھا تو سب نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔ بعض لوگوں سے اپنی یہ روایت بیان کی لیکن سب نے مجھے مخبوط الحواس قرار دیا۔ آخر کار ایک آدمی نے کہا میں تمہیں ایک بزرگ کے پاس لئے چلتا ہوں۔ وہ بہت عمر رسیدہ ہیں شاید وہ کچھ بتا سکیں۔ اس بزرگ نے سارا حال سنا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے پڑدادا بتایا کرتے تھے کہ کسی زمانے میں یہاں صرف ایک سرائے اور تکیہ موجود تھا۔ سرائے میں ایک امیر آ کر ٹھہرا تھا اور ایک رات وہ پر اسرار طور پر غائب ہو گیا۔ پھر اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا کہ زمین نگل گئی یا آسمان نے اٹھا لیا۔ میں نے کہا میں ہی وہ امیر ہوں جو سرائے سے غائب ہوا تھا۔ یہ سن کر وہ بزرگ اور حاضرین محفل حیران اور ششدر رہ گئے اور حیران و پریشان ایک دوسرے کا منہ تکنےلگے‘‘۔
امیر یہ واقعہ سنا کر خاموش ہو گیا اور پھر شاہ عبدالعزیزؒ سے عرض کیا کہ آپ ہی فرمائیں میں کیا کروں، کہاں جاؤں؟ میرا گھر ہے نہ کوئی ٹھکانہ۔ دوسرے یہ کہ اس واقعہ نے مجھے مفلوج کر دیا ہے۔ شاہ صاحب نے کہا:
’’تم نے جو کچھ دیکھا ہے صحیح ہے۔ اس عالم اور اس عالم کے وقت کے پیمانے الگ الگ ہیں۔‘‘ شاہ صاحب نے اس شخص کو ہدایت کی کہ ’’اب تم بیت اللہ کو چلے جاؤ اور باقی زندگی یاد الٰہی میں گزار دو۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 291 تا 295
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔