زمانیت اور مکانیت کا راز

مکمل کتاب : لوح و قلم

مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2921

قرآنِ پاک کے ان الفاظ ‘‘وَمِنْ کُلِ شَیْءٍ خَلَقْنَازَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ’’ میں اللہ تعالیٰ نے مکانیت اور زمانیت کا راز بیان فرمایاہے۔
کسی چیز کے وُجود میں تین طرزیں ہوا کرتی ہیں۔ ایک طرز اَحوال، دوسری طرز آثار اور تیسری طرز ان دونوں طرزوں کا مجموعہ ہے جس کو اَحکام کہتے ہیں۔ کسی چیز کے دو قسم ہونے سے مراد اس کے دو رخ ہیں۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے کے متضاد ہوتے ہیں۔ یہ دونوں رخ متضاد ہونے کے ساتھ ایک دوسرے سے بالکل متّصل بھی ہوتے ہیں۔ اگرچہ ایک دوسرے سے متضاد ہونے کا سبب صفَت کا امتیاز (فاعل مفعول یا جاعل مجعول ہونا) ان دونوں رخوں کو ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ کر دیتا ہے، تا ہم ان دونوں رخوں کا مجموعہ ہی وُجود شئے کہلاتا ہے۔ بالفاظ دیگر جب یہ دونوں رخ ایک جگہ ہوتے ہیں تو ان ہی کی اجتماعیت محسوس شئے بن جاتی ہے۔ شئے کا ایک رخ محسوس کرنے والا یعنی احساس ہوتا ہے اور شئے کا دوسرا رخ وہ ہے جو محسوس کیا جاتا ہے۔ شئے میں جو رخ حسّاس ہے اس کو تصوّف میں اَحوال کہتے ہیں۔ شئے کا دوسرا رخ محسوس ہے اس کو تصوّف میں آثار کہتے ہیں۔ ان دونوں کا مجموعی نام اَحکام ہے۔ مذہب کی زبان میں اس ہی کو امرِ ربّی کہا جاتا ہے چنانچہ امرِ ربّی کے دو رخ یا دو اَجزاء ہوئے۔ ایک رخ اَحوال جو صفَت اور صلاحیّت کا جاننے والا یا استعمال کرنے والا ہے اور دوسرا رخ جس کو آثار کہتے ہیں صفَت اور صلاحیّت ہے۔ یہ دونوں اَجزاء مل کر ایک امرِ ربّی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں اَجزاء متّصل ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ دراصل یہی علیحدگی وہ فعل ہے جو تنزّل کے بعد ایک اعتبار سے زمان اور دوسرے اعتبار سے مکان کہلاتے ہیں۔ جب یہ فعل حِس کے حدودِ ذہن کے اطراف میں واقع ہوتا ہے تو اس کا نام زمان ہے اور جب یہ فعل حِس کی شکل وصورت کے اطراف میں واقع ہوتا ہے تو اس کا نام مکان ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ وُجود اشیاء کو جوڑے جوڑے نہ بناتے تو یہ درمیانی فصل جو زمان و مکان بنتا ہے، پیدا نہ ہوتا۔ یہ فعل اس وقت تخلیق پاتا ہے جب وُجود شئے میں إبعاد واقع ہو جاتے ہیں۔ اور إبعاد کا وقوع عالمِ مثال میں ہوتا ہے، عالم ارواح میں نہیں ہوتا۔ اس ہی لئے عالمِ ارواح میں زمان اور مکان نہیں ہوتے۔ وہاں وُجود شئے صرف امرِ ملکّ ہوتا ہے، امرِ متحرّک نہیں ہوتا۔ چنانچہ نَسمہ کی دنیا وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے حرکت کا آغاز ہوتا ہے۔

تمثیل:

مثلاً نماز پڑھنے والے کے ذہن میں جب نماز کی حِس پیدا ہوتی ہے تو اس کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک رخ خود نماز کی ہیئیّت اور دوسرا رخ نماز کا احساس کرنے والا ذہن۔
اگر اوپر بیان کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فرمان کی ذرا اور تشریح کی جائے تو حِس کے بہت سے دو دو رخوں کا تذکرہ کرنا پڑے گا۔ ان میں سے ایک رخ عَمومی اور دوسرا رخ خُصوصی ہے۔ خُصوصی رخ جس کا تذکرہ ہم کر چکے ہیں، اس کے مقابل حِس کا عَمومی رخ وہ ہے جو غالب کا درجہ رکھتا ہے۔ اس موقع پر شخصِ اکبر کا تذکرہ کر دینا ضروری ہے۔ گویا ‘‘شخص’’ کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک شخصِ اکبر، دوسرا شخصِ اصغر۔ شخصِ اکبر کی نوعیت غالب کی ہے اور شخصِ اصغر کی حیثیت مغلوب کی ہے۔ ایک طرح ہم ان دونوں کو نَوع اور فرد کا نام بھی دے سکتے ہیں جس میں ایک مَصدر ہے اور دوسرا مَشتق۔ اب اگر ہم عَمومی حِس کا بیان کریں تو اس حِس کو شخصِ اکبر کی حِس شمار کریں گے۔
گزشتہ صفحات میں شخصِ اکبر کا تذکرہ ہُوا ہے۔ یہاں اس کے بارے میں مختصر بتا دینا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّھَا
ترجمہ: اور علم دیا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو (ان کو پیدا کر کے) سب چیزوں کے اسماء کا (مع ان چیزوں کے خواص و آثار کے)۔

غرض تمام مَوجودات روئے زمین کے اسماء اور خواص کا علم دے دیا۔ لوحِ محفوظ کی اِصطلاح میں اسماء مُرّادف ہے چیزوں کے عنوان اور ان کی خاصیتوں اور ماہیتوں کے بیان کا۔
اس رکوع کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے آدم کے نائب بنانے کا تذکرہ کیا ہے اور دوسری آیت میں یہ بتا دیا ہے کہ میں نے آدم کو علمُ الاسماء دیا ہے۔ اب حکمتِ تکوین کی روشنی میں ان دونوں کا رابطہ تلاش کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نیابت کا تعلّق علمُ الاسماء سے بہت ہی گہرا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 111 تا 113

لوح و قلم کے مضامین :

0.01 - انتساب 0.02 - عرضِ احوال 1 - بسمِ اللہِ الرّحمٰن الرّحیم 2 - عالمِ رُؤیا سے انسان کا تعلق 3 - رُؤیا کی صلاحیّتوں کے مَدارِج 4 - لوحِ اوّل یا لوحِ محفوظ 5 - لوحِ دوئم 6 - عالمِ جُو 7 - کثرت کا اَجمال 8 - ‘‘جُو’’ کا واسطہ 9 - احساس کی درجہ بندی 10 - وَحدتُ الوُجود اور وَحدتُ الشُہود 11 - روحِ اعظم، روحِ انسانی، روحِ حیوانی اور لطائفِ ستّہ 12 - اسماءِ الٰہیہ 13 - اسماءِ الٰہیہ کی تعداد گیارہ ہزار ہے 14 - خواب اور بیداری 15 - لوحِ محفوظ اور مراقبہ 16 - تدلّٰی 17 - کُن فیَکون 18 - علمِ لدُنّی 19 - ہر اسم تین تجلّیوں کا مجموعہ ہے 20 - اسمِ ذات 21 - روح کی مرکزیّتیں اور تحریکات 22 - لطیفۂِ نفسی کی حرکت 23 - باصرہ اور شُہود نفسی 24 - عملِ اِسترخاء 25 - علم ‘‘لا’’ اور علم ‘‘اِلّا’’ 26 - ‘‘لا’’ کا مراقبہ 27 - قوّتِ اَلقاء 28 - سالک مجذوب، مجذوب سالک 29 - نسبت کا بیان 30 - ٹائم اسپیس کا قانون 31 - زمانیت اور مکانیت کا راز 32 - کائنات کی ساخت 33 - نیابت کیا ہے؟ 34 - لوحِ محفوظ کا قانون 35 - اَنا یا انسانی ذہن کی ساخت 36 - علمُ الیقین، عینُ الیقین، حقُ الیقین 37 - تخلیق کا قانون 38 - انبیاء کے مقامات 39 - تخلیق کا فارمولا 40 - ماضی اور مستقبل 41 - زمان و مکان کی حقیقت 42 - اِدراک کیا ہے؟
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)