رُؤیا کی صلاحیّتوں کے مَدارِج
مکمل کتاب : لوح و قلم
مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=240
نمبر۱ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ الجُو
نمبر۲ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ الاَحقہ
نمبر۳ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ المَنام
نمبر۴ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ الملَکُوت
نمبر۵ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ الکلیات
نمبر۶ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ الوُجوب
کشفُ الجُو وہ صلاحیّت ہے جس سے ہر انسان نسبتِ وَحدت کے تحت رُوشناس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تشکیل کا نام کائنات ہے۔
اس ہی حکم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی احاطہ کرنے کی صفَت کلیات کو منتقل ہوئی ہے۔
کلیات کے تمام اَجزاء آپس میں ایک دوسرے کا شعور رکھتے ہیں۔ چاہے فرد کے علم میں یہ بات نہ ہو لیکن فرد کی حیثیت کلیات میں ایک مقام رکھتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان چاند، ستاروں اور اپنی زمین سے الگ ماحول سے رُوشناس نہ ہو سکتا۔ اس کی نگاہ تمام اجرام سماوی کو دیکھتی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر انسان کی حِس زمین سے باہر کے ماحول کو بھی پہچانتی ہے۔ یہی پہچاننا تصوّف کی زبان میں صفاتِ الٰہیہ کی معرفت کہلاتا ہے۔ اب ہم اس طرح کہیں گے کہ انسانی شعور کی نگاہ کائنات کے ظاہر کو دیکھتی ہے اور انسانی لاشعور کی نگاہ کائنات کے باطن کو دیکھتی ہے۔ بالفاظ دیگر انسان کا لاشعور اچھی طرح جانتا ہے کہ کائنات کے ہر ذرّے کی شکل وصورت، حرکات اور باطنی حسّیات کیا ہیں۔ وہ ان تمام حرکات کو صرف اس لئے نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے لاشعور کا مطالعہ کرنا نہیں آتا۔ یہ مطالعہ رُؤیا کی صلاحیّتیں بیدار کرنے کے بعد ممکن ہے۔
پہلے ہم رُؤیا کی اُس صلاحیّت کو بیدار کرنے کا تذکرہ کرتے ہیں جس کا نام تصوّف کی زبان میں کشفُ الجُو لیا جاتا ہے۔
مضمون نگار کی مثال سے ظاہر ہے کہ مضمون کا مفہوم پہلے سے کلیات کے شعور میں یعنی مضمون نگار کے تحتِ لا شعور میں موجود تھا۔
وہیں سے منتقل ہو کر مضمون نگار کے ذہن تک پہنچا۔ اب اگر کوئی شخص اس مضمون کو تحتِ لاشعور میں مطالعہ کرنا چاہے تو رُؤیا کی اس صلاحیّت کے ذریعے جس کو کشفُ الجُو کہا گیا ہے، مطالعہ کر سکتا ہے۔ خواہ یہ مضمون دس ہزار سال بعد لکھا جانے والا ہو۔ یا دس ہزار سال پہلے لکھا جا چکا ہو۔
جس وقت اللہ تعالیٰ نے لفظ ‘‘کُن’’ کہا تو ازل سے ابد تک جو کچھ جس طرح اور جس ترتیب کے ساتھ وقوع میں آنا تھا، آ گیا۔ ازل سے ابد تک ہر ذرّہ، اس کی تمام حرکات و سکنات موجود ہو گئیں۔ کسی زمانہ میں بھی انہی حرکات کا مظاہرہ ممکن ہے کیونکہ کوئی غیر موجود، موجود نہیں ہو سکتا۔ یعنی کائنات میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہو سکتی جو پہلے سے وجود نہ رکھتی ہو۔
انسان جب کسی زاویہ کو صحیح طور پر سمجھنا چاہتا ہے تو اس کی حیثیت غیر جانبدار یا عدالت کی ہوتی ہے اور وہ بحیثیتِ عدالت کبھی فریق نہیں ہوتا۔ عدالت کو مدعی اور مدعا علیہ کے معاملات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے عدالت ہی کا طرزِ ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک طرزِ ذہن فریق کا ہے اور ایک طرزِ ذہن عدالت کا ہے۔
ہر شخص کو طرز فکر کے دو زاویے حاصل ہیں۔ ایک زاویہ بحیثیت اہلِ معاملہ اور دوسرا زاویہ بحیثیت غیر جانبدار۔ جب انسان بحیثیت غیر جانبدار تجسّس کرتا ہے تو اس پر حقائق مُنکشِف ہو جاتے ہیں۔ تجسّس کی یہ صلاحیّت ہر فرد کو وُدیعت کی گئی ہے تا کہ دنیا کا کوئی طبقہ معاملات کی تفہیم اور صحیح فیصلوں سے محروم نہ رہ جائے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 15 تا 17
لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔