یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
روح کا لباس
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12465
سمجھا یہ جاتا ہے کہ گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچے کا نام انسان ہے۔ حالانکہ تمام مذہبی کتابوں کی تعلیمات کی روشنی میں گوشت پوست سے بنا ہوا آدمی اصل انسان نہیں بلکہ روح کا لباس ہے۔ روح جب اپنے اس لباس سے رشتہ منقطع کر لیتی ہے تو لباس کی حیثیت کچھ نہیں رہتی۔ آپ اس کو جلا دیجئے، ٹکڑے ٹکڑے کر دیجئے یا گڑھے میں دفن کر دیجئے۔ اپنی طرف سے اس کی کوئی مدافعت نہیں ہو گی۔
روح کی ازلی صفت ہے کہ وہ ہر عالم میں اپنا لباس اختیار کر لیتی ہے جس طرح اس آب و گل کی دنیا میں وہ گوشت پوست کا لباس اختراع کرتی ہے اسی طرح مرنے کے بعد کی زندگی یعنی عالم اعراف میں بھی اپنا ایک لباس بناتی ہے اور اس لباس میں وہ تمام صفات اور صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں جو مرنے سے پہلے اس دنیا میں ہوتی ہیں۔ وہاں لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ خوشی اور رنج و غم کیا ہیں؟ یہ لوگ آپس میں جنتی اور دوزخی لوگوں میں امتیاز بھی کرتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ سورۃ اعراف میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’اور پکارا جنت والوں نے آگ والوں کو، کہ ہم پا چکے، جو ہم کو وعدہ دیا تھا ہمارے رب نے تحقیق، سو تم نے بھی پایا؟ جو تمہارے رب نے وعدہ دیا تھا تحقیق، بولے۔ ہاں، پھر پکارا ایک پکارنے والا ان کے بیچ میں کہ لعنت ہے اللہ کی بے انصافوں پر۔ جو روکتے ہیں اللہ کی راہ سے، اور ڈھونڈتے ہیں اس میں کجی اور وہ آخرت سے منکر ہیں۔‘‘
ان دونوں گروہ کے درمیان ایک اوٹ حائل ہو گی جس کی بلندیوں (اطراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گے۔ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے ’’سلامتی ہو تم پر۔۔۔‘‘ یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہونگے اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے:
’’اے رب! ہمیں ان ظالموں میں شامل نہ کیجیو۔‘‘
پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے:
’’دیکھ لیا تم نے، آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ ساز و سامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے اور کیا اہل جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ان کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ نہیں دے گا۔ آج انہیں سے کہا گیا کہ داخل ہو جاؤ جنت میں، تمہارے لئے نہ خوف ہے نہ رنج۔‘‘
اللہ کے ارشاد کے مطابق مرنے کے بعد نوع انسان اور نوع اجنّہ کے لئے دو طبقے ہیں۔ ایک علّیّین(اعلیٰ) دوسرا سجّین(اسفل)۔ اعلیٰ اور اسفل کی قرآن پاک میں اس طرح وضاحت ہوئی ہے۔
وما ادراک ما سجینoکتب مرقومo (مطففین آیت ۸۔۹)
وما ادراک ما علیونoکتب مرقومo (مطففین آیت ۱۹۔۲۰)
کتاب المرقوم(ریکارڈ) ہے۔ انسان دنیا میں جو کچھ کرتا ہے وہ سب کا سب فلم کی صورت میں ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ہمارا خیال، ہمارا ہر تصور، ہر حرکت اور عمل شکل و صورت رکھتا ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں ہمارے اپنے علم کے دائرے میں اس کی فلم بن جاتی ہے مذہبی نقطہ نگاہ سے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ فرض کیجئے ہم چوری کرتے ہیں اب فلم بننا شروع ہو جائے گی۔ پہلے اس بات کی فلم بنے گی کہ ہم چوری کی نیت کر رہے ہیں۔ اب ہم چوری کے لئے جا رہے ہیں۔ اب کسی جگہ چوری کر رہے ہیں، اس کی بھی فلم بنے گی کہ چور کے ذہن کا ردعمل کیا ہے۔ چوری شدہ مال اپنے تصرف میں لا رہے ہیں۔ ہمارے ذہن میں چوری کی سزا متعین ہے یعنی یہ کہ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے اس کی بھی فلم بن گئی۔ پوری فلم اس طرح بنی کہ زید چوری کے ارادے سے گھر سے نکلا، فلاں فلاں شخص کے ہاں چوری کی، پکڑا گیا، چوری کی سزا میں زید کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
اس طرح ہر عمل کی فلم بندی ہوتی رہتی ہے۔ مرنے کے بعد زید اس فلم کو دیکھے گا یا یوں کہیئے کہ ایک خاص انتظام کے ساتھ زید کو یہ فلم دکھائی جائے گی۔ اس مرحلے میں زید دو کیفیات سے گزرتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ میں فلم دیکھ رہا ہوں۔ فلم بینی کے دوران جس وقت ہاتھ کٹ جاتا ہے تو وہ ہاتھ کٹنے کی تکلیف بھی محسوس کرتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ہم فلم دیکھتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے، قہقہے لگاتے ہیں یا کسی منظر کو دیکھ کر بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں یا کوئی ڈراؤنا سین دیکھ کر خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔
فلم دیکھنے کے بعد دوسری کیفیت یہ ہوتی ہے کہ آئندہ ہمارے ساتھ یہ ہو گا اور ہم کو یہ جزا ملے گی پھر ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر ہم نے چوری نہ کی ہوتی یا رشوت نہ لی ہوتی تب بھی ہم زندہ رہ سکتے تھے۔ جن لوگوں (پسماندگان) کے لئے ہم نے یہ عمل کیا ہے وہ ہمیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔
سرمایہ دار اور دولت پرست کے تصورات، خیالات اور عمل کی فلم اس طرح تشکیل پائے گی۔ میں لوگوں کے حقوق تلف کر رہا ہوں۔ حق تلفی کی وجہ سے لوگ بھوکے، ضروریات زندگی سے محروم اور پریشان ہیں۔ افلاس زدہ ہونے کی بنا پر ان کا وجود ان کے لئے بار ہے۔ اس لئے کہ وسائل پر میرا قبضہ ہے۔ دولت پرست دیکھے گا کہ میں ایک سرمایہ دار ہوں۔ لوگوں کے اوپر زیادتی کر رہا ہوں۔ میں نے عوام کے اوپر زندگی وبال کر رکھی ہے۔ میری وجہ سے لوگ بھوک اور افلاس میں مبتلا ہیں۔ فی الواقع ان کی تمام تکالیف اور پریشانیوں کا ذمہ دار میں ہوں۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ جس طرح میں لوگوں کے لئے تکلیف اور پریشانی کا سبب بنا مجھے بھی اسی طرح پریشان ہونا چاہیۓ۔ جیسے ہی یہ خیال آئے گا وہ خود کو فلم میں مفلس، قلاش، پریشان حال ، مضطرب اور بے چین دیکھے گا۔ چیخے گا، چلائے گا، کربناک حالت میں ادھر سے ادھر چکر لگائے گا۔۔۔اور کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 296 تا 300
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔