دربارِ رسالتﷺ کی فضیلت
مکمل کتاب : رُوحانی حج و عُمرہ
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14122
اللہ کے مقدس گھر خانہ کعبہ کے دیدار سے مشرف ہو کر حج کے مبارک فریضہ سے سکبدوش ہونے کے بعد زندگی کی ایک سب سے بڑی سب سے عظیم الشان سعادت سرور کائناتﷺ کے روضہ اقدسﷺ کے لئے مدینہ منورہ کی جانب روانگی ہے۔ اس مبارک دربار رسالت مآبﷺ کی برکتوں اور فضیلتوں کا کیا کہنا۔ اس مقام مقدس پر اگر ہم سر کے بل جائیں تو بھی گنہگار غلام اپنے اشتیاق کو کم نہیں کر سکتے۔ اس کی گلیوں میں اولیاء کرام نے مدتوں تک جوتے نہیں پہنے۔ اس کی زمین کا چپہ چپہ بابرکت ہے۔
مدینہ منورہ کا سفر
مدینہ منورہ کے سفر کے لئے آپ کی باری کا وقت آپ کا معلم آپ کو بتائے گا۔ آپ اپنا پورا سامان لے کر چلیں(اگر حج کے بعد جا رہے ہیں) کیونکہ یہ باری ایسے حساب سے آئے گی کہ مدینہ منورہ سے سیدھے آپ جدہ جائیں گے، جہاں آپ کو وطن واپسی کے لئے اسی دن یا دوسرے دن ہوائی جہاز تیار ملے گا۔
(اگر حج سے پہلے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ آ رہے ہوں تو حالت احرام میں داخل ہونا واجب ہے)۔
مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کا فاصلہ ۲۷۷ میل ہے جس کی مسافت طے کرنے میں کم و بیش سات آٹھ گھنٹے لگتے ہیں۔ راستے بھر یہ تصور کریں کہ سلطانِ دو عالم کے دربار میں حاضر ہونا ہے۔ دھیان اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف رکھیں۔ سلام اور درود کا ورد راستہ بھر کرتے جائیں۔ اس سفر کے دوران ذہن پھر ایک بار چودہ سو سال پیچھے چلا جاتا ہے۔ ہم خیالوں میں دیکھتے ہیں کہ آفتاب رسالتﷺ مکہ مکرمہ میں طلوع ہوا اس کی کرنیں مدینہ منورہ کے افق سے کچھ اس طرح چمکیں کہ کُل کائنات اس نور سے منور ہو گئی۔ حضورﷺ جس دعوت حق کے علمبردار، جس امانت الٰہی کے امین اور جس دین حنیف کے پیغمبر تھے ۔ اس کا یہی تقاضا تو تھا کہ عرب، عجم، گورے اور کالے، شاہ و گدا غرض یہ کہ دنیا کے ہر فرد و بشر کو حق و صداقت، امن و محبت، اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی اس کائنات پر حاکمیت کے پیغام کی لازوال دولت سے مالا مال کیا جائے لیکن مکہ معظمہ کی فضا اس وقت ان صداؤں کو سننے کے لئے سازگار نہ تھی۔ اس وقت دعوت حق کے جواب میں ہر طرف تلوار کی جھنکار سنائی دے رہی تھی حتیٰ کہ جب کفار قریش نے حضورﷺ کے درِ دولت کا محاصرہ کر لیا تو اللہ کے حکم سے حضور اکرمﷺ نے حسرت بھری نگاہوں سے مکہ معظمہ کو الوداع کہا۔ اپنے رفیق حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ رات کی تاریکی میں اس سفر با سعادت کا آغاز فرماتے ہیں اور جب کعبۃ اللہ پر نظر پڑتی ہے تو فرماتے ہیں۔
’’مکہ تو مجھے ساری دنیا سے عزیز ہے مگر تیرے فرزند مجھے یہاں نہیں رہنے دیتے۔‘‘
اور مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرماتے ہیں۔ جبل ثور کی چوٹی پر غار ثور میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کی رفاقت میں تین دن تک قیام فرما کر کشاں کشاں منزل بمنزل سُوئے مدینہ گامزن ہوتے ہیں۔
پھر نظروں کے سامنے ایک منظر وہ آتا ہے جب لوگ حضور اکرمﷺ کی آمد کا مدینہ منورہ میں انتظار کر رہے ہیں۔
مدینہ منورہ میں حضورﷺ کی آمد
مدینہ منورہ کے در و دیوار اس خبر سے گونج رہے تھے کہ رحمتہ للعالمین حضرت محمدﷺ مدینہ منورہ تشریف لا رہے ہیں۔ مدینہ کے پیرو جوان، صغیر و کبیر، عورتیں اور بچے سب کی آنکھیں فرش راہ ہیں۔ معصوم بچے فخر و انبساط اور فرحت و سرور میں نغمہ سرائی کر رہے ہیں کہ رحمت کائنات کی آمد آمد ہے۔
سرکار دو عالم اپنے جاں نثار اور رفیق خاص حضرت ابو بکر صدیقؓ کی معیت میں مدینہ منورہ کے افق پر بدر منیر بن کر طلوع ہوئے۔ تمام شہر تکبیر کی روح پرور صدا سے گونج اٹھا۔ انصار ہتھیار سجا سجا کر بے تابانہ گھروں سے رحمت کائنات سرکار دو عالمﷺ کے استقبال کو پہنچے۔ انصار کی معصوم بچیاں نہایت خوش الحانی سے طربیہ ترانے الاپ رہی ہیں۔ آج ہر قبیلہ دل و جان سے آپ پر نثار تھا۔ اسلام کا ہر شیدائی اس بات کا آرزو مند تھا کہ آپﷺ کی میزبانی کا شرف اس کو نصیب ہو۔ ہر ایک حضور اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر کہتا ’’حضور یہ گھر، یہ در، یہ مال و زر اور یہ جان عزیز سب کچھ نثار ہے۔‘‘ مگر آپ یہی ارشاد فرماتے، ’’میری اونٹنی قصویٰ کو چھوڑ دو جہاں رب العزت کا حکم ہو گا وہیں ٹھہرے گی۔‘‘ قصویٰ چلتے چلتے حضرت ایوب انصاریؓ کے مکان کے دروازے پر آ کر بیٹھ گئی۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ دوڑتے ہوئے خدمت نبویﷺ میں حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں:
’’یا رسول اللہﷺ! یہ سعادت میری قسمت میں لکھی ہے کہ آپﷺ کی میزبانی کا شرف میں حاصل کروں۔ یہاں سے قریب تر میرا ہی گھر ہے۔‘‘
حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے کجاوہ اٹھا لیا اور اپنے دو منزلہ مکان میں سرکار دو عالمﷺ کو لے گئے۔ جہاں آپﷺ تقریباً سات ماہ تک فروکش رہے۔
مدینہ منورہ کے سفر میں مدینہ منورہ سے کوئی ۱۰، ۱۲ میل پہلے ایک مقام بئرعلی آئے گا جہاں آپ کا سیارہ(گاڑی) ٹھہر سکتی ہے۔ یہ بڑا بابرکت مقام ہے یہاں سے آپﷺ نے حج کا احرام باندھا تھا۔ خوب دعائیں مانگیں۔ اگر وقت اجازت دے اور مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نفل ادا کریں اور حاضری روضہ اقدس کے لئے خود کو تیار کر لیں۔
جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچ جائیں تو اپنے شوق دیدار کو اور زیادہ کریں اور جب مسجد نبوی کا گنبد خضراء نظر آئے تو اور کثرت سے درود شریف کا ورد رکھیں۔ شہر میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھیں۔
دعا بوقت داخلہ مدینہ منورہ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
اللّٰھم انت السلام و منک السلام و الیک یرجع السلام فحینا ربنا بالسلام و ادخلنا دارالسلام۔ تبارکت ربنا و تعالیت یا ذوالجلال والاکرام۔
وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَسُلْطَانًانَّصِيرًا۔وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ۔وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَاھُوَ شِفَائٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔ وَلَا یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا
ترجمہ: شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
الٰہی! تو سلامتی والا ہے اور تیری طرف لوٹتی ہے سلامتی پس زندہ رکھ ہمیں اے ہمارے رب سلامتی کے ساتھ اور داخل فرما ہمیں اپنے گھر میں جو سلامتی والا ہے بابرکت ہے تو اے ہمارے رب اور عالیشان اے عظمت اور بزرگی والے پروردگار داخل فرما مجھے (مدینہ میں) داخل فرمانا سچا اور نکال مجھے مدینہ سے سچا اور عطا کر مجھ کو اپنی جناب سے غلبہ یا فتح و نصرت اور کہہ دیجئے آ گیا حق اور مٹ گیا باطل بلاشبہ تھا باطل مٹنے ہی والا اور ہم اتارتے ہیں قرآن جو کہ شفا اور رحمت ہے ایمان والوں کیلئے اور نہیں بڑھتے ظالم مگر خسارے میں۔
حضرت ابوالحسن نوریؒ :
حضرت ابو الحسن نوریؒ نے دوران طواف دعا مانگی کہ:
’’اے اللہ! مجھے وہ انعام اور وصف عطا کر جس میں کبھی تغیر نہ ہو۔‘‘
چنانچہ بیت اللہ میں سے ندا آئی کہ:
’’اے ابوالحسن! تو ہمارے برابری کرنا چاہتا ہے۔ یہ وصف تو ہمارا ہے کہ ہماری صفات میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ ہم نے بندوں میں اس لئے تغیر و تبدل رکھا ہے کہ ہماری عبودیت اور ربوبیت کا اظہار ہوتا رہے۔‘‘
* قربانی میں جب ساری مخلوق قربانیوں میں مصروف تھی میں نے ایک نوجوان کو دیکھا وہ سب سے الگ تھلگ چپ چاپ اندوہگیں بیٹھا تھا۔ میں ٹکٹکی لگا کر اس کی طرف دیکھتا رہا۔ تجسس یہ تھا کہ یہ نوجوان کیا کرتا ہے وہ دیر تک اسی طرح گم سم بیٹھا رہا پھر اس نے آسمان کی طرف نگاہ کر کے دعا شروع کی۔ وہ کہہ رہا تھا۔
’’اے پروردگار! ساری مخلوق قربانی کرنے میں مشغول ہے میں تیری بارگاہ میں اپنے نفس کی قربانی پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اسے شرف قبولیت سے نواز۔‘‘
اتنا کہہ کر اس نے اپنی انگشت شہادت اپنے حلقوم کی طرف اٹھائی اور فوراً بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ میں نے قریب جا کر دیکھا تو اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔
* حضرت عباس بن سلمیؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے عرفہ کی شام کو امت مسلمہ کی مغفرت کی دعا مانگی۔ دعا قبول ہوئی اور ارشاد ربانی ہوا:
’’میں نے سب کی مغفرت کر دی سوائے باہمی حقوق اور ظالم کے کہ ان کا بدلہ لے کر حق دار اور مظلوم کو دیا جائے گا۔‘‘
رسول اللہﷺ نے پھر دعا مانگی اور عرض کیا:
’’خدایا تو اس پر بھی قادر ہے کہ ظالم کو معاف کر دے اور مظلوم کو اپنے پاس سے بہتر معاوضہ دے کر خوش کر دے۔‘‘
لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ رسول اللہﷺ نے اگلے دن مزدلفہ میں معشر الحرام پر پھر یہی دعا مانگی اور بارگاہ خداوندی میں بار بار التجا کی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضورﷺ نے تبسم فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا:
’’خدا آپ کو شاداں رکھے۔ آپﷺ نے کس وجہ سے تبسم فرمایا۔‘‘
ارشاد فرمایا۔
’’خدا کے دشمن ابلیس نے جب دیکھا کہ حق تعالیٰ شانہ نے میری دعا قبول فرما لی اور ظالموں کے مظالم کو بھی معاف فرما دیا تو وہ واویلا اور آہ و فریاد کرنے لگا اور خاک میں لوٹنے لگا اس کی اس حالت پر مجھ کو ہنسی آ گئی۔‘‘
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 108 تا 113
رُوحانی حج و عُمرہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔