خواب اور بیداری
مکمل کتاب : لوح و قلم
مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2881
روح کی ساخت مسلسل حرکت چاہتی ہے۔ بیداری کی طرح نیند میں بھی انسان کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔ لیکن وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے واقف نہیں ہوتا۔ صرف خواب کی حالت ایسی ہے جس کا اُسے علم ہوتا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ ہم خواب کے علاوہ نیند کی باقی حرکات سے کس طرح مُطّلع ہوں۔ انسان کی ذات نیند میں جو حرکات کرتی ہے اگر حافظہ کسی طرح اِس لائق ہو جائے کہ اُْس کو یاد رکھ سکے تو ہم باقاعدگی سے اس کا ایک ریکارڈ رکھ سکتے ہیں۔ حافظہ کسی نقش کو اُس وقت یاد رکھتا ہے جب وہ گہرا ہو۔ یہ مشاہدہ ہے کہ بیداری کی حالت میں ہم جس چیز کی طرف متوجّہ ہوتے ہیں اُس کو یاد رکھ سکتے ہیں اور جس کی طرف متوجّہ نہیں ہوتے اُسے بھول جاتے ہیں۔ قانونی طور پر جب ہم نیند کی تمام حرکات کو یاد رکھنا چاہیں تو دن رات میں ہمہ وقت نگاہ کو باخبر رکھنے کاہتمام کریں گے۔
یہ اہتمام صرف جاگنے سے ہی ہو سکتا ہے۔ طبیعت اس بات کی عادی ہے کہ آدمی کو سُلا کر ذات کو بیدار کر دیتی ہے۔ پھر ذات کی حرکات شروع ہو جاتی ہیں۔ پہلے پہل تو اس عادت کی خلاف ورزی کرنا طبیعت کے انقَباض کا باعث ہوتا ہے۔ کم سے کم دو دن و رات گزر جانے کے بعد طبیعت میں کچھ بَسط پیدا ہونے لگتا ہے اور ذات کی حرکات شروع ہو جاتی ہیں۔ اوّل اوّل آنکھیں بند کر کے ذات کی حرکات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مسلسل اِسی طرح کئی ہفتے یا کئی ماہ جاگنے کا اہتمام کرنے کے بعد آنکھیں کھول کر بھی ذات کی حرکات سامنے آنے لگتی ہیں۔ اہل تصوّف بند آنکھوں کی حالت کو وَرود اور کھلی آنکھوں کی حالت کو شُہود کہتے ہیں۔ وَرود یا شُہود میں نگاہ کے دیکھنے کا ذریعہ لطیفۂِ خَفی کا لینس LENS ہوتا ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے، جَویَّہ کے اِنطباعات ہوتے ہیں۔ یہ اِنطباعات ثابِتہ کی وہ تجلّیات ہیں جن کا عکس جَویَّہ میں شکل وصورت اور حرکات بن جاتا ہے۔ جب تک یہ تجلّیاں ثابِتہ میں ہیں، غیب ُ الغیب کہلاتی ہیں اور اُن کو علمِ الٰہی بھی کہا جاتا ہے۔ اُن تجلّیوں کے عکس کو اَعیان میں غیب یا اَحکام الٰہی کہتے ہیں۔ پھر ان ہی تجلّیوں کا عکس جَویَّہ کی حد میں داخل ہونے پر وَرود یا شُہود بن جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 46 تا 47
لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔