حضرت ذوالنون مصریؒ
مکمل کتاب : رُوحانی حج و عُمرہ
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14390
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک نوجوان کو کعبہ شریف کے پاس دیکھا کہ دمادم رکوع سجدے کر رہا ہے۔ میں نے کہا بڑی کثرت سے نمازیں پڑھ رہے ہو۔ کہنے لگا واپس جانے کی اجازت مانگ رہا ہوں۔ اتنے میں، میں نے دیکھا کہ ایک کاغذ کا پرچہ اوپر سے گرا ہے۔ اس میں لکھا ہوا تھا کہ اللہ جل شانہ جو بڑی عزت والا ہے اور بڑی مغفرت والا ہے کی طرف سے اپنے سچے شکر گزار بندے کی طرف۔ اس کے پیچھے لکھا تھا۔ تو واپس چلا جا تیرے گناہ بخش دیئے گئے ہیں۔
حضرت ذوالنونؒ مصری فرماتے ہیں کہ میں ایک دن بیت اللہ شریف کا طواف کر رہا تھا۔ لوگوں کی آنکھیں بیت اللہ پر مرکوز تھیں۔ سب کو سکون مل رہا تھا کہ دفعتاً ایک شخص بیت اللہ کے قریب آیا اور یہ دعا کرنے لگا۔ ’’اے اللہ میں تجھ سے وہ چیز مانگتا ہوں جو سب چیزوں سے زیادہ قریب ہو اور وہ عبادت مانگتا ہوں جو سب سے زیادہ تجھے محبوب ہو۔ اے اللہ! میں تیرے برگزیدہ بندوں کے طفیل اور تیرے انبیاء کے وسیلے سے یہ مانگتا ہوں کہ اپنی محبت کی شراب کا ایک پیالہ مجھے پلا دے اور میرے دل پر سے اپنی معرفت سے جہل کے پردے ہٹا دے تا کہ میں اڑ کر تجھ تک پہنچ جاؤں اور عرفان کے باغوں میں تیرے ساتھ سرگوشیاں کروں۔‘‘ اس کے بعد وہ شخص اتنا رویا کہ زمین پر ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ پھر وہ بندہ ہنسا اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔ ذوالنون فرماتے ہیں کہ میں ان کے پیچھے چل دیا۔ اور میں اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ شخص یا تو بڑا کامل ہے یا پاگل ہے۔ وہ مسجد سے نکل کر ایک ویرانے کی طرف چل دیا۔ میں پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ وہ کہنے لگے تجھے کیا ہوا۔ کیوں چلے آ رہے ہو اپنا کام کرو۔ میں نے پوچھا۔ اللہ تم پر رحم کرے۔ تمہارا کیا نام ہے۔ کہنے لگے عبداللہ۔ میں نے پوچھا۔ آپ کے والد کا کیا نام ہے۔ بتایا عبداللہ۔ میں نے کہا یہ توظاہر ہے کہ سب اللہ کے بندے ہیں اور اللہ کے بندوں کی اولاد ہیں۔ تمہارا کیا نام ہے۔ کہنے لگے میرے باپ نے میرا نام سعدون رکھاتھا۔ میں نے کہا جو سعدون مجنون کے نام سے مشہور ہے۔ کہنے لگے۔ ہاں۔ میں وہی ہوں۔ میں نے پوچھا۔ وہ کون برگزیدہ لوگ ہیں جن کے وسیلے سے تو نے دعا کی۔ وہ لوگ اللہ کے وہ بندے ہیں جنہوں نے عشق کو اپنا لیا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 137 تا 138
رُوحانی حج و عُمرہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔