حضرت ابو علی شفیق بلخیؒ
مکمل کتاب : رُوحانی حج و عُمرہ
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14362
فرماتے ہیں کہ میں۱۴۹ ھ میں حج کو جا رہا تھا۔ راستے میں قادسیہ میں اترا۔ لوگوں کا زبردست ہجوم تھا کہ میں نے ایک نوجوان کو دیکھا نہایت عمدہ لباس پہنے ہوئے تھا۔ پیر میں جوتا بھی تھا اور سب سے الگ ہو کر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ لڑکا راستے میں دوسروں کے لئے بوجھ بنے گا اور اسی خیال میں گم تھا۔ اس خیال سے میں اس کے قریب گیا۔ اس نے مجھ سے کہا ]’’اے شفیق بدگمانی سے بچو، بدگمانی گناہ ہے‘‘
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کون شخص ہے جس کو میرا نام معلوم ہے۔ میں جلدی جلدی اس کے پیچھے چلا۔ مگر وہ میری نظروں سے غائب ہو گیا۔ جب ہم واقصہ پہنچے تو دفعتاََ میں نے دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ آنسو بہہ رہے تھے۔ میں اس کی طرف بڑھا تا کہ اپنے گمان کی معافی کر پاؤں۔ مگر میں نے اس کی نماز سے فراغت کا انتظار کیا۔ جب وہ سلام پھیر کر بیٹھا تو میں اس کی طرف بڑھا۔ جب اس کی طرف معافی مانگنے کے لئے بڑھا تو اس نے قرآن کی آیت تلاوت کیں۔
’’بڑا بخشنے والا ہوں ایسے لوگوں کو جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور پھر سیدھے راستے پر قائم رہیں۔‘‘
یہ آیات پڑھ کر وہ پھر چلا گیا۔ میں نے خیال کیا کہ یہ شخص ابدال معلوم ہوتا ہے۔ دو مرتبہ مجھے متنبہ کر چکا ہے۔ پھر جب ہم زیالہ میں پہنچے تو دفعتاََ میری نظر اس جوان پر پڑی کہ وہ ایک کنویں پر کھڑا ہے۔ ایک بڑا سا پیالہ اس کے ہاتھ میں ہے اور کنویں سے پانی پینے کا ارادہ کر رہا تھا۔ کہ وہ پیالہ کنویں میں گر پڑا میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور یہ شعر پڑھا۔ جس کا ترجمہ ہے:
’’تو ہی میری پرورش کرنے والا ہے۔ جب میں پیاسا ہوں اور تو ہی میری روزی کا ذریعہ ہے۔ جب میں کھانے کا ارادہ کروں۔‘‘
اس کے بعد اس نے کہا۔ ” اے میرے اللہ تجھے معلوم ہے۔ اے میرے آقا اس پیالے کے سوا میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ پس اس پیالے سے مجھے محروم نہ کرنا
شفیقؒ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ کنویں کا پانی اوپر آ گیا۔ نوجوان نے ہاتھ بڑھایا اور پیالہ پانی سے بھر کر باہر نکال لیا۔ اس کے بعد ریت اکٹھا کر کے ایک ایک مٹھی اس پیالے میں ڈالتا جاتا تھا اور اس کو ہلا رہا تھا۔ میں اس کے قریب گیا اور سلام کیا۔ اس نے سلام کا جواب دیا۔
میں نے کہا۔ ’’ اللہ نے جو نعمت تم کو عطا کی ہے اس میں سے کچھ اس کا دیا ہوا مجھے بھی کھلا دیجئے‘‘
کہنے لگا ’’ شفیق اللہ جل شانہ کی ظاہری اور باطنی نعمتیں ہمیں مل رہی ہیں۔ اپنے رب کے ساتھ نیک گمان رکھو‘‘
یہ کہہ کر پیالہ مجھے دے دیا۔ جب میں نے پانی پیا تو اس میں ستو اور شکر گھلی ہوئی تھی۔ اس سے زیادہ خوش ذائقہ اور خوشبودار چیزیں میں نے آج تک نہیں کھائی۔ اس کے بعد مکہ مکرمہ داخل ہونے تک اسے نہیں دیکھا۔ جب ہمارا قافلہ مکہ مکرمہ پہنچ گیا تو میں نے قبتہ الشراب کے قریب ایک مرتبہ اسے آدھی رات کے قریب نماز پڑھتے دیکھا۔ بڑے خشوع سے نماز پڑھ رہا تھا۔ صبح صادق تک وہ اسی جگہ تسبیح پڑھتا رہا۔ اس کے بعد صبح کی نماز پڑھی اور پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ پھر وہ باہر جانے لگا تو میں اس کے پیچھے گیا۔ باہر جا کر دیکھا تو راستے میں جس حالت میں دیکھا تھا اس کے بالکل خلاف بڑے خدام اور غلام اس کے چاروں طرف موجود تھے۔ میں نے ایک شخص سے جو میرے قریب تھا دریافت کیا کہ یہ بزرگ کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ حضرت جعفر صادقؒ کے صاحبزادے موسیٰ بن جعفرؒ ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 132 تا 134
رُوحانی حج و عُمرہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔