یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
توانائی کا ذخیرہ
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12345
ہمارا رابطہ ہر وقت کائناتی ذہن سے قائم رہتا ہے۔ مراقبے کے ذریعے کائناتی ذہن کی توانائی زیادہ سے زیادہ ذخیرہ ہونے لگتی ہے۔ اس توانائی کو محفوظ کر کے صحیح استعمال کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے ان تمام مشاغل اور ذہنی کیفیات سے بچنا چاہئے جن سے توانائی ضائع ہوتی ہے۔ یہ توانائی مراقبہ میں مدد دیتی ہے اور ان حواس کو متحرک کرتی ہے جن کا دروازہ روحانی دنیا میں کھلتا ہے۔
اگر ہم اپنی ذہنی کیفیات پر کنٹرول نہیں کریں گے توانائی کا رخ اعلیٰ کی بجائے اسفل کی طرف ہو جائے گا اور اسفل حواس میں عمل درآمد کر کے ضائع ہو جائے گی۔ چنانچہ ذہن کو کنٹرول کر کے ایک رخ پر قائم رکھنا چاہئے۔ شروع شروع میں بیزاری، الجھن اور چڑچڑے پن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، طبیعت گرانی محسوس کرتی ہے، لیکن بعد میں معمول پر آجاتی ہے۔
اعصابی کھنچاؤ اور ذہنی تناؤ کو کم سے کم کرنا بھی ضروری ہے۔ ذہن کو ارادے کی قوت سے اتنا یکسو اور غیر جانب دار رکھا جائے کہ وہ دماغی الجھنوں سے کم سے کم متاثر ہو۔ بہت سی اطلاعات صدمے کا باعث بنتی ہیں اور بہت سی اطلاعات خوشی کا پیغام ثابت ہوتی ہیں۔ دونوں حالتوں میں جذبات پر کنٹرول رکھنا چاہئے۔ ایسے اعمال کو کم کرنا چاہئے۔ جن سے اعصابی توانائی ضائع ہوتی ہے مثلاً بلند آواز سے گفتگو، چڑچڑاپن، غصہ، بیزاری، غیر ضروری فکر مندی، زیادہ جنسی رجحان وغیرہ۔ ان امور پر مکمل طور پر اعتدال ضروری ہے۔ تا کہ ذہنی رجحانات پر غلبہ حاصل ہو جائے۔ ذہن کی مختلف حرکات پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول سے ذہن ارادے کے تابع ہو جاتا ہے۔
ذہنی تحریکات غیر شعوری طور پر جاری رہتی ہیں اور ہم ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ جب ذہن مراقبے کا رنگ قبول کر لیتا ہے تو غیر شعوری طور پر ذہن یکسو رہتا ہے اس کیفیت کے حصول میں طرز فکر، ماحول کے اثرات اور پریشانیاں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ ماحول کے اثرات کو ایک حد سے زیادہ کنٹرول کرنا ممکن نہیں لیکن طرز فکر کو اس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ ذہنی یکسوئی متاثر نہ ہو۔ صبر، شکر، یقین، توکل اور استغناء وہ خصوصیات ہیں جو ذہن کو شک اور وسوسوں سے آزاد کر کے اعلیٰ مقامات تک پہنچاتی ہیں۔ اخلاق اور تواضع کی خصوصیات اپنانے سے ذہن اسفل کیفیات سے دور ہو جاتا ہے۔ قوت ارادی استعمال کر کے ذہن کو ناپسندیدہ اور فاسد خیالات سے علیٰحدہ رکھنا چاہئے۔ اگر آدمی خود ذہنی انتشار میں مبتلا ہو تو وہ ہر جگہ پریشان ہی رہتا ہے۔
روزانہ کے معمولات میں تقسیم کار ہونی چاہئے تا کہ بے کار رہنے کی وجہ سے ذہن ادھر ادھر نہ بھٹکے۔ فاضل اوقات کے لئے مثبت مشغولیت تلاش کی جائے تا کہ لایعنی مصروفیات کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی توانائی ضائع نہ ہو۔ اچھی اور معلوماتی کتب اور صحت مند ادب کا مطالعہ، مضمون نگاری، مصوری یا اسی طرح کی دوسری مصروفیات اختیار کی جائیں۔ کھیل کود اور مناسب جسمانی ورزش کا اہتمام کیا جائے۔ بے معنی گفتگو سے پرہیز علم میں اضافہ کرتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 221 تا 223
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔