یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
تفکر
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12161
تمام الہامی کتابوں میں عموماًاور قرآن پاک میں خصوصاً تفکر یا غور و فکر کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور جگہ جگہ تفکر کا حکم دیا گیا ہے کہیں حکم ہے کہ آسمانوں پر غور کرو۔ زمین پر غور کرو، کہیں بارش برسنے اور نباتات اگنے پر توجہ دلائی گئی ہے۔ کسی جگہ مخلوقات کی پیدائش اور انسان کی تخلیق پر فکر کرنے کا ارشاد ہے۔ اسلوب بیان کے مختلف طریقوں سے تفکر کو سوچ کا حصہ بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق اہل علم اور خاصان خدا کا یہ وصف ہے کہ ان کے ذہنوں پر تفکر کا رنگ چڑھ جاتا ہے۔
فرمان الٰہی ہے!
’’آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں دانش مندوں کے لئے نشانیاں ہیں جو اللہ کو یاد رکھتے ہیں۔ کھڑے، بیٹھے اور لیٹے اور تفکر کرتے ہیں۔ آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر اور نتیجہ میں کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! آپ نے یہ سب کچھ بلا وجہ پیدا نہیں کیا۔‘‘ (آل عمران)
اسی طرح قرآن مجید نے کائنات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں مطلع فرمایا ہے۔ کہیں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ:
“تم جدھر بھی منہ کرو، وہاں اللہ کا چہرہ ہے”
کہیں یہ فرمایا گیا ہے کہ
’’یہ بات جان لو، یقین کر لو، کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
فرمان الٰہی ہے کہ
’’اللہ ہر شئے پر محیط ہے۔‘‘
قرآن میں ہے!
’’کیا نہیں دیکھا اس شخص کو جو گزرا ایک بستی پردرآں حالیکہ وہ گری پڑی تھی اپنی چھتوں کے بل۔ کہنے لگا کیوں کر زندہ کرے گا اسے اللہ اس کے ہلاک ہونے کے بعد۔ سو مردہ رکھا اسے اللہ نے سو سال تک۔ پھر زندہ کیا اسے۔ فرمایا کتنی مدت تو یہاں ٹھہرا رہا۔ اس نے عرض کی کہ میں ٹھہرا ہوں گا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ اللہ نے فرمایا نہیں۔ بلکہ ٹھہرا رہا ہے تو سو سال۔ اب دیکھ اپنے کھانے اور اپنے پینے کے سامان کی طرف یہ باسی نہیں ہوا۔ اور دیکھ اپنے گدھے کو اوریہ سب اس لیے کہ ہم بتائیں تجھے نشان لوگوں کے لئے اور دیکھ ان ہڈیوں کو کہ ہم کیسے جوڑتے ہیں انہیں۔ پھر ہم پہناتے ہیں انہیں گوشت۔ پھر جب حقیقت روشن ہو گئی اس کے لئے۔ تو اس نے کہا میں جان گیا ہوں کہ بے شک اللہ ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘ (البقرہ)
سورۃ الشوری میں ارشاد ہے۔
’’اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ کلام کرے اس کے ساتھ اللہ (براہ راست )مگر وحی کے طور پر یا پس پردہ یا بھیجے کوئی پیغامبر اور وہ وحی کرے اس کے حکم سے جو اللہ چاہے۔ بلاشبہ وہ اونچی شان والا بہت دانا ہے۔ اور اسی طرح ہم نے بذریعہ وحی بھیجا آپ کی طرف ایک جانفزا کلام اپنے حکم سے۔ نہ آپ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔ لیکن ہم نے بنا دیا اس کتاب کو نور، ہم ہدایت دیتے ہیں جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں سے۔‘‘
سورۃ ملک میں ہے۔
’’جس نے بنائے سات آسمان اوپر نیچے تمہیں نظر نہیں آئے گا۔ رحمٰن کی آفرینش میں کوئی خلل۔ ذرا پھر نگاہ اٹھا کر دیکھ۔ کیا تجھے کوئی رخنہ دکھائی دیتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال۔ لوٹ آئے گی تیری طرف نگاہ ناکام ہو کر دراں حالیکہ وہ تھکی ماندی ہو گی۔‘‘
قرآن میں ہے:
’’بلکہ وہ روشن آیتیں ہیں۔ جو ان کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ جنہیں علم دیا گیا اور ظالموں کے بغیر ہماری آیتوں کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔‘‘ (العنکبوت)
قرآن میں ہے:
’’نہیں تنازعہ کیا کرتے اللہ کی آیتوں میں مگر کافر۔ پس نہ دھوکے میں ڈالے تمہیں ان لوگوں کا آنا جانا مختلف شہروں میں۔‘‘ (المومن)
فرمان الٰہی ہے۔
’’پس میں قسم کھاتا ہوں ان جگہوں کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔ بے شک یہ قرآن ہے بڑی عزت والا۔ ایک کتاب میں جو محفوظ ہے۔ اس کو نہیں چھوتے مگر وہی جو پاک ہیں۔ یہ اتارا گیا رب العالمین کی طرف سے کیا تم اس قرآن کے بارے میں کوتاہی کرتے ہو اور تم نے اپنا یہی نصیب بنا لیا ہے کہ تم اس کو جھٹلاتے رہو گے۔ پس تم کیوں لوٹا نہیں دیتے جب روح حلق تک پہنچ جاتی ہے اور تم اس وقت پاس بیٹھے دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم تم سے زیادہ مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں۔ البتہ تم دیکھ نہیں سکتے۔‘‘
سورۃ الرحمٰن میں دعوت فکر ہے۔
’’اے گروہ جن و انس! اگر تم میں طاقت ہے کہ تم نکل بھاگو آسمانوں اور زمین کی سرحدوں سے تو نکل کر بھاگ جاؤ۔ تم نہیں نکل سکتے۔ بجز سلطان(روحانی صلاحیتوں) کے پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
سورۃ البقرہ میں فرمان ہے۔
’’اسلام کے پیروکار ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی جو کوئی بھی ایمان لائے اللہ پر اور دن قیامت پر اور نیک عمل کرے۔ تو ان کے لئے ان کا اجر ہے ان کے رب کے ہاں اور نہیں کوئی اندیشہ ان کے لئے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
ان تمام آیات میں جو امور غیب سے متعلق بیان ہوئے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ آدمی ان حقائق کو اپنے شعور میں اس طرح راسخ کرلے۔۔۔کہ ذرہ بھر بھی شک باقی نہ رہے اور آدمی یقین کے درجے میں پہنچ جائے۔ یہی یقین آدمی کو مشاہدے تک پہنچا دیتا ہے۔ اولیاء اللہ کے نزدیک یہی مرتبہ زبانی اقرار کے بعد قلب کی تصدیق ہے یعنی آدمی اپنے قلب کی آنکھ سے ان باتوں کا مشاہدہ حاصل کر لے جو اس کا ایمان ہیں۔
یقین کی کیفیت کو شعور کا جزو بنانے کے لئے اہل اللہ نے اپنے شاگردوں کو مراقبہ تعلیم کیا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے کسی حقیقت کو قلب پر اس طرح محیط کیا جاتا ہے کہ روح کی آنکھ کھل جائے اور آدمی حقیقت کو اپنے سامنے مجسم و متشکل دیکھ لے۔
تفکر کا تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تفکر ایک ذہنی عمل ہے جس میں انسان اپنے تمام تر تواہمات اور خیالات سے دست بردار ہو کر کسی خیال کسی نقطہ یا کسی مشاہدے کی گہرائی میں سفر کرتا ہے۔ اہل تصوف اور روحانیت نے جب تفکر کو ایک مشق کی صورت دی اور اس کے لئے مختلف قاعدے اور آداب مقرر کئے تو اس کا اصطلاحی نام مراقبہ ہو گیا۔
فکر انسانی میں ایسی روشنی موجود ہے جو کسی ظاہر کے باطن کا، کسی حضور کے غیب کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ اور غیب کا مشاہدہ ظاہر میں موجود کسی چیز کی تحلیل میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ باالفاظ دیگر ہم کسی چیز کے باطن کو دیکھ لیں تو پھر اس کے ظاہر کا پوشیدہ رہنا ممکن نہیں۔ اس طرح ظاہر کی وسعتیں ذہن انسانی پر منکشف ہو جاتی ہیں اور یہ جاننے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ظاہر کی ابتداء کہاں سے ہوئی ہے۔
یہ انبیائے ربانی کا طریق ہے کہ وہ باطن سے ظاہر کو تلاش کرتے ہیں۔ باطن میں تفکر کرنے سے بالآخر ذہن اس روشنی سے منور ہو جاتا ہے۔ جس سے مخفی حقائق مشاہدے میں آتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس روشنی کو نور فراست کہا ہے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی مقام ہے:
’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘
فکر کا ارتکاز ظاہری و باطنی دونوں علوم میں ضروری ہے۔ جب تک فکر میں ذوق، شوق، تجسس اور گہرائی کی قوتیں پیدا نہیں ہوتیں۔ ہم کسی بھی علم کو نہیں سیکھ سکتے۔ اسی طرح روح کے علم کو حاصل کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ آدمی اپنی فکری صلاحیتوں کو ایک نقطہ پر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جب کوئی شخص ارادے اور عمل کی پاکیزگی کے ساتھ تفکر کرتا ہے تو نقطہ نظر کھل جاتا ہے اور اس کی معنویت یا اس کا باطن سامنے آ جاتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ نے جگہ جگہ اپنی نشانیوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان پر تفکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ نشانی دراصل ظاہری حرکات یا مظہر کا نام ہے اور غور و فکر کرنے کی طرف توجہ دلانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پس پردہ ایسے عوامل موجود ہیں جن کو سمجھ کر آدمی حقیقت کا علم حاصل کر سکتا ہے۔ دراصل تمام طبعی علوم اور مادی مظاہر روحانی قوانین پر قائم ہیں۔ توجہ اور تفکر کے ذریعے ان قوانین کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔
محمد الرّسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا ارشاد گرامی ہے۔’’جس نے اپنے نفس کا عرفان حاصل کر لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔‘‘
انسانی نفس، انا یا روح ایسی صفات کا مجموعہ ہے جو پوری کائنات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسی لیے انسان کو خلاصہ موجودات بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں فرماتے ہیں۔
’’ہم تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہیں۔‘‘
جب کوئی شخص اپنی روح کی صلاحیتوں اور صفات کو تلاش کرتا ہے تو اس پر تخلیق کے راز منکشف ہو جاتے ہیں۔ عرفان نفس بالآخر ذہن میں ایسی روشنی پیدا کر دیتا ہے جو خالق کی پہچان کا باعث بن جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’وہ تمہارے نفسوں کے اندر ہے۔ تم دیکھتے کیوں نہیں۔‘‘
یہ بھی بشارت دی گئی ہے کہ
’’ہم عنقریب انہیں آفاق اور انفس میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں گے۔‘‘
عرفان نفس کا راستہ نبیوں اور رسولوں سے نوع انسانی کو منتقل ہوا ہے۔ نور نبوت سے فیض یافتہ حضرات نے جن طرزوں پر چل کر نفس کا عرفان حاصل کیا اس میں مراقبہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
مراقبہ ایک قلبی عمل ہے، جو لفظ رقیب سے ماخوذ ہے۔ رقیب اسمائے الٰہی میں سے ایک اسم ہے جس کے معنی نگہبان، پاسبان ،کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ذہن کی اس طرح نگہبانی کی جائے کہ وہ معکوس خیالات، پریشان افکار سے قطعی الگ ہو کر اللہ کی طرف یا اللہ کی کسی صفت کی طرف یا اللہ کی کسی نشانی کی طرف متوجہ ہو جائے۔ رقیب کے دوسرے معنی منتظر کے بھی ہیں اس معنی میں مراقبہ کی تعریف یہ ہے کہ آدمی ظاہری حواس کو ایک مرکز پر جمع کر کے اپنی روح یا باطن کی طرف متوجہ ہو جائے تا کہ اس کے اوپر روحانی دنیا کے معانی و اسرار روشن ہو جائیں۔
مراقبہ کے اصطلاحی معنی غور و فکر اور تصور کے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھا ہے کہ:
’’مراقبہ کی حقیقت یہ ہے کہ قوت ادراک کو کسی چیز کی طرف متوجہ کر دیا جائے چاہے حق تعالیٰ کی صفات کی طرف یا جسم سے روح کے جدا ہونے کی حالت کی طرف یا اسی طرح کسی دوسری چیز کی جانب۔ یہ توجہ اس طرح ہو کہ عقل، وہم، خیال اور سارے حواس اس توجہ کے تابع ہو جائیں اور جو چیز محسوس نہ ہو وہ بجائے محسوس ہونے کے معلوم ہو جائے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ انسانی حواس میں جو علوم و حقائق عقل و شعور سے ماورا ء ہیں اور حصۂ روح ہیں، مراقبہ کے ذریعے ادراک اور محسوسات کی حدوں کو عبور کر کے مشاہدہ و معائنہ میں داخل ہو جائیں۔
حضرت غوث علی شاہؒ کے حوالے سے تعلیم غوثیہ میں یوں لکھا ہے:
’’مراقبہ کی ایک حالت یہ ہے کہ ہر وقت مراقبہ کرنے والے کی توجہ قلب کی طرف رہتی ہے۔ وہ ہمیشہ قلبی کیفیات میں مشغول و متوجہ رہتا ہے۔ دوسری حالت یہ ہے کہ اسمائے الٰہی میں سے کسی اسم پر یا قرآنی آیت کے معنی پر اپنی تمام تر توجہ مبذول رکھے۔ اور مرکزیت اتنی زیادہ ہو جائے کہ مراقبہ کرنے والا خود معانی بن جائے اور اسے اپنی خبر نہ رہے۔ یا درہے کہ مراقبہ قلبی کیفیات پر منحصر ہے۔ جب دل متوجہ الی اللہ یا غیر اللہ ہوتا ہے تو سب اعضاء بھی اسی کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ سب دل کے تابع ہیں اور نتیجہ مراقبہ یہ ہے کہ تصورمحبوب میں ایسا مستغرق ہو کہ پھر کسی کی بھی خبر نہ رہے۔‘‘
حضرت ابن مبارکؒ نے ایک شخص سے فرمایا۔
’’راقب اللہ، تو اس نے اس کے معنی دریافت کئے آپ نے فرمایا کہ ہمیشہ اس طرح زندہ رہ کہ تو خدا کو دیکھتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے:
’’ترجمہ: ’’اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اس کو دیکھتا ہے۔پس اگر تجھ کو یہ بات میسر نہ ہو کہ تو اس کو دیکھ سکے تو یہ محسوس کر کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
اس حدیث میں پہلا مقام مشاہدہ ہے اور دوسرا مقام مراقبہ ہے۔
امام غزالیؒ اپنی کتاب کیمیائے سعادت میں لکھتے ہیں:
’’اے دوست! یہ نہ سمجھ کہ عالم روحانی کی طرف قلب کا دروازہ موت سے قبل نہیں کھلتا۔ یہ خیال غلط ہے۔ اگر کوئی شخص عالم بیداری میں عبادت کرے اور خود کو برے اخلاق سے بچائے، تنہائی اختیار کرے۔ ظاہری آنکھیں بند کر دے اور ظاہری حواس معطل کر دینے کے بعد اپنے دل کو معرفت الٰہی کی طرف رجوع کرے۔ زبان کی بجائے دل سے ’’اللہ‘‘ کے نام کا ورد کرتے ہوئے خود کو محو کر دے اور دنیا کی ہر شئے سے بے نیاز ہو جائے تو اس درجہ پر پہنچنے کے بعد انسان کے قلب کا دروازہ عالم بیداری میں بھی کھل جاتا ہے۔ دوسرے لوگ جو خواب میں دیکھتے ہیں وہ عالم بیداری میں دیکھنے لگتا ہے۔ اس کو فرشتے نظر آتے ہیں، وہ انبیاء کرام کا دیدار کرتا ہے اور ان سے فیوض حاصل کرتا ہے۔ ملائکہ، زمین و آسمان اس کو دکھائی دینے لگتے ہیں۔‘‘
غیبی کوائف کا مشاہدہ کرنے کے لئے تمام برگزیدہ ہستیوں، انبیاء اور رسولوں نے تفکر سے کام لیا ہے ۔ اور چند ماہ یا چند سال اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ مراقبے میں گزارے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ مرتبہ پیغمبری کوشش سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اللہ کا خصوصی فضل ہے جو وہ کسی بندے پر کرتے ہیں۔ سلسلہ رسالت و نبوت ختم ہو گیا ہے لیکن الہام اور روشن ضمیری کا فیضان جاری ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 84 تا 94
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔