یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
تصور
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12333
عام طور پر لوگ اس الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ تصور کیا ہے یا تصور کس طرح کیا جاتا ہے۔ تصور کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے کسی چیز کو دیکھا جائے مثلاً اگر کوئی شخص روحانی استاد کا تصور(تصور شیخ) کرتا ہے تو وہ بند آنکھوں سے استاد کے جسمانی خدوخال یا چہرے کے نقوش دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
کوئی شخص روشنیوں کا مراقبہ کرتا ہے تو بند آنکھوں سے روشنیوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ عمل تصور کی تعریف میں نہیں آتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک شخص بند آنکھوں سے کسی چیز کو دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے یعنی دیکھنے کا عمل ساقط نہیں ہوا۔ چونکہ دیکھنے کا عمل ساقط نہیں ہوا اس لئے تصور قائم نہیں ہو گا۔
تصور سے مراد یہ ہے کہ آدمی ہر طرف سے ذہن ہٹا کر کسی ایک خیال میں بے خیال ہو جائے۔ اس خیال میں کسی قسم کے معانی نہ پہنائے اور نہ ہی کچھ دیکھنے کی کوشش کرے۔ مثال کے طور پر اگر روحانی استاد کا تصور کیا جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی آنکھیں بند کر کے اس خیال میں بیٹھ جائے کہ میں شیخ کی طرف متوجہ ہوں یا میری توجہ کا مرکز شیخ کی ذات ہے۔ شیخ کے جسمانی خدوخال یا چہرے کے نقوش کو دیکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اسی طرح روشنیوں کا مراقبہ کرتے ہوئے محسوس کیا جائے کہ میرے اوپر روشنیاں برس رہی ہیں۔ روشنی کیا ہے اور روشنی کا رنگ کس طرح کا ہے اس طرف ذہن نہ لگایا جائے۔
مبتدی کو اس وقت شدید ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب اسے مراقبہ میں اِدھر اُدھر کے خیالات آتے ہیں۔ مراقبہ شروع کرتے ہی خیالات کا ہجوم ہو جاتا ہے۔ ذہن کو جتنا پر سکون کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خیالات زیادہ آنے لگتے ہیں یہاں تک کہ اعصابی تھکن اور بیزاری طاری ہو جاتی ہے۔ کبھی خیالات اتنی شدت اختیار کر لیتے ہیں کہ آدمی مراقبہ ترک کر دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے اندر مراقبہ کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ جبکہ یہ بات ایک وسوسے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
ذہن کا کردارگھوڑے جیسا ہوتا ہے۔ جب گھوڑے کو سدھانا شروع کرتے ہیں تو وہ سخت مزاحمت کرتا ہے۔ لیکن مسلسل محنت کے بعد کامیابی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ذہن کو کنٹرول کرنے کے لئے مسلسل محنت ضروری ہے۔ اصول و ضوابط کے ساتھ وقت کی پابندی سے مراقبہ کیا جائے تو قوت ارادی حرکت میں آ جاتی ہے اور ذہن کا سرکش گھوڑا بالآخر رام ہو جاتا ہے۔
ہماری شعوری زندگی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں توجہ تمام خیالات کے باوجود، زیادہ وقفہ تک کسی ایک نقطہ پر مرکوز رہتی ہے۔ ایسی چند مثالیں دے کر ہم واضح کریں گے کہ مراقبہ میں ’’تصور قائم‘‘ ہونے کے کیا معنی ہیں۔
مثال نمبر 1:
دو افراد کے درمیان جذبہ الفت و محبت ہے۔ جب دو افراد کے درمیان پسندیدگی کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو دونوں کے ذہنوں میں زیادہ سے زیادہ وقت ایک دوسرے کا خیال موجود رہتا ہے۔ دونوں کے خیالات ایک دوسرے کے ساتھ رد و بدل ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن خیالات کے اس تبادلے میں زندگی کے معاملات متاثر نہیں ہوتے۔
مثال نمبر 2:
ایک بیٹا کئی دنوں تک ماں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اس وقت ماں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ہمہ وقت بیٹے کا خیال اس کے دل و دماغ پر مسلط رہتا ہے۔ اگرچہ وہ ضروریات کے تمام کام انجام دیتی ہے۔ لیکن بیٹے کا خیال اس کےذہن سے الگ نہیں ہوتا۔
مثال نمبر 3:
مصنف مضمون لکھتے ہوئے تمام تر ذہنی صلاحیتوں کا رخ مضمون کی طرف کر دیتا ہے۔ مضمون کی تفصیلات، جملوں کی نشست و برخاست اس کے پیش نظر ہوتی ہے۔ حواس کئی سمتوں میں کام کرتے ہیں، نظریں کاغذ کو دیکھتی ہیں، ہاتھ قلم کو پکڑتے ہیں، کان آوازیں سنتے ہیں، قوت لامسہ میز کرسی کو محسوس کرتی ہے اور قوتِ شامہ ماحول میں رچی ہوئی خوشبو کا ادراک کرتی ہے۔ اس کے باوجو دذہن مضمون اور اس کی تفصیلات سے نہیں ہٹتا اور بالآخر مضمون کاغذپر منتقل ہو جاتا ہے۔
مثال نمبر 4:
بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس حالت میں اگرچہ ہم زندگی کے کم وبیش سارے اعمال انجام دیتے ہیں۔ لیکن ذہن کے اندر پریشانی کا خیال دستک دیتا رہتا ہے۔ اس خیال میں پریشانی کی شدت گہرائی پر منحصر ہوتی ہے۔ ہم چلتے پھرتے بھی ہیں، کھاتے پیتے بھی ہیں، بات چیت بھی کرتے ہیں، سوتے جاگتے بھی ہیں لیکن ذہنی حالت کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ذہن کے اندر پریشانی کا خیال متواتر حرکت میں ہے۔ کبھی کبھی پریشانی کا خیال ذہن پر اس قدر غالب آ جاتا ہے کہ ہم ماحول سے اپنا رشتہ منقطع کر بیٹھتے ہیں، اور گم سم ہو جاتے ہیں۔
جس طرح اوپر بیان کی گئی مثالوں میں تمام جسمانی افعال اور خیالات کے ساتھ ذہن کسی ایک طرف متوجہ رہتا ہے اسی طرح مراقبہ میں خیالات کے باوجود ذہن کو مسلسل ایک تصور پر قائم رکھا جاتا ہے۔ مراقبہ کرتے وقت مختلف خیالات ارادے اور اختیار کے بغیر ذہن میں آتے ہیں۔ لیکن مراقبہ کرنے والے کو چاہئے کہ خیالات پر توجہ دیئے بغیر اپنے تصور کو جاری رکھے۔
بے ربط خیالات آنے کی بڑی وجہ شعور کی مزاحمت ہوتی ہے۔ شعور کسی ایسے عمل کو آسانی سے قبول نہیں کرتا جو اس کی عادت کے خلاف ہو۔ اگر آدمی شعور کی مزاحمت کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو صراط مستقیم سے بھٹک جاتا ہے۔ اگر وہ شعوری مزاحمت کی پرواہ کئے بغیر مراقبہ جاری رکھتا ہے تو رفتہ رفتہ خیالات کی رو مدہم پڑ جاتی ہے اور طبیعت میں الجھن اور بیزاری ختم ہو جاتی ہے۔ مراقبہ میں کامیاب ہونے کا آسان راستہ یہ ہے کہ خیالات کو رد کرنے یا جھٹکنے سے گریز کیا جائے۔ خیالات آئیں گے اور گزر جائیں گے۔ اگر خیالات کو بار بار رد کیا جائے تو یہ خیالات کی تکرار بن جاتی ہے اور بار بار کسی خیال کی تکرار سے ذہن پر خیال کا نقش گہرا ہو جاتا ہے۔
مثال نمبر 5:
آپ گھر سے کسی باغ کی سیر کو نکلتے ہیں۔ آپ کے ارادے میں یہ بات متواترموجود رہتی ہے کہ آپ باغ کی سیر کو جا رہے ہیں۔ اگر یہ خیال ذہن سے حذف ہو جائے تو آپ کبھی باغ تک نہیں پہنچ سکتے۔ راستے میں خوشنما سڑکیں اور مکانات دکھائی دیتے ہیں اور کسی جگہ گندگی کا ڈھیر بھی نظر آ جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں کو دیکھنے کے باوجود قدم منزل کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ اگر آپ کسی خوبصورت عمارت کو دیکھنے کے لئے رک جائیں یا گندگی کے پاس ٹھہر کر کراہت کا اظہار کرنے لگیں تو آپ رک جائیں گے اور باغ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اگر خوبصورت عمارت کا خیال یا گندگی کا تصور ذہن پر مسلط ہو جائے تو باغ تک پہنچنے کے بعد بھی باغ کی سیر سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔
اس مثال سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اگر مراقبہ میں کوئی شخص کسی خیال کو رد کرنے یا تصور کی تصویر کشی میں مصروف ہو جائے تو اس کا ذہن ثانوی باتوں میں الجھ جاتا ہے اور ذہنی مرکزیت حاصل نہیں کر سکتا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 212 تا 217
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔