تخلیق کا قانون
مکمل کتاب : لوح و قلم
مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2935
زمان اور مکان کو سمجھنے کے لئے کُن کی تشریح ضروری ہے۔ جب ہم لفظ قرآن کہتے ہیں تو ہماری مراد اس سے وہ افہام و تفہیم ہوتی ہے جو قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام پر نازل ہوئیں۔ ہماری مراد ‘‘ق ر’’ پیش قُر… زبر ‘‘آ’’… ‘‘ن’’ ساکن قُرآن(لفظ) ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر بات کے لئے ایک اسم(نام) یا علامت جسے جسم کہنا چاہئے ہوتا ہے لیکن کوئی علامت یا جسم اس شئے کی زندگی یا روح نہیں ہوتی۔ علامت یا جسم مفروضہ ہے، اس کے اندر بسنے والی روح یا زندگی حقیقت ہے۔ سننے والا لفظ کو سنتا اور حقیقت کو سمجھتا ہے۔ جب ہم قلم کہتے ہیں تو سننے والا ‘‘ق ل م’’ نہیں سمجھتا بلکہ اس کے ذہن میں ایک ایسی چیز آتی ہے جو لکھنے کا کام کرتی ہے۔ ساخت کا قانون یہاں سے واضح ہو جاتا ہے۔ اگر ہم کسی شئے کو اس شئے کی زندگی یا حرکت کہیں تو اس شئے کی حقیقت کا تذکرہ کریں گے۔ اب ہم مَوجودات کے اندر جس قدر نوعیں ہیں اور ان نوعوں میں جس قدر افراد ہیں ان میں سے ہرفرد کا نام ذرّہ رکھ لیتے ہیں۔ یہ ذرّہ دراصل حرکت ہے جس کے دو رخ ہیں۔ حرکت کا ایک رخ رنگین روشنی ہے جس کو اس ذرّہ کا مظہر یا جسم کہا جاتا ہے۔ حرکت کا دوسرا رخ بے رنگ روشنی ہے جس کو زندگی، فطرت، کردار یا حقیقت کہا جاتا ہے۔ حقیقت یا بے رنگ روشنی یا حرکت (نَسمہ) کا ایک رخ زمان کہلاتا ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی ایک حدیث شریف ہے۔
لاَ تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ
ترجمہ: زمانے کو برا نہ کہو، زمانہ اللہ ہے۔
حرکت کے اس رخ میں کوئی تغیّر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی رُو سے حرکت (نَسمہ) کے بھی دو رخ ہوتے ہیں۔ یہ دونوں رخ جیسا کہ قانون ہے، اَوصاف کی بنا پر ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ حرکت کے جس رخ میں تغیّر ہوتا ہے اس کو مکان کہتے ہیں۔ اور جس (متضاد) رخ میں تغیّر نہیں ہوتا اس کو زمان کہتے ہیں۔ وہ تمام صفات جو کسی ہستی، کردار یا زندگی کی اصلیں ہیں ان کا قیام زمان کے اندر ہے۔ ان اصلوں میں کوئی تغیّر واقع نہیں ہوتا ہے کہ اس کا مُستقَر یا مرکز زمان ہے جو غیر متغیّر ہے۔ حرکت کا وہ رخ جو زمان کے برعکس ہے مکان کہلاتا ہے۔ ہر قسم کا تغیّر اس ہی رخ میں ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (سورۃ ق – آیت نمبر 16)
ان الفاظ میں زمان کی وضاحت کی گئی ہے۔ معاذ اللہ! اللہ تعالیٰ کا کوئی کلام اور ارشاد عبث نہیں ہوتا۔ اس بات کی تصدیق حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی مذکورہ بالا حدیث سے ہوتی ہے، زمانے کو برا نہ کہو، زمانہ اللہ ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی دوسری حدیث میں بھی اس معنی کی تشریح کرتی ہے۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
نفس اس حقیقت کا نام ہے جس میں کوئی تغیّر نہیں ہوتا۔
زمان کو سمجھ لینے کے بعد خالقیّت اور مخلوقیت کی قدریں الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ هُوَ اللہُ أَحَدٌ (1) اللہُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (4)
ترجمہ: اللہ لاثانی ہے۔ اللہ لا احتیاج ہے۔ اللہ لا اولاد ہے۔ اللہ لاوالدین ہے۔ اللہ لا کفو ہے۔
یہ سب خالقیّت کی قدریں ہیں۔
ثانی ہونا، ذی احتیاج ہونا، ذی اولاد ہونا، ذی والدین ہونا، ذی خاندان ہونا، مخلوقیت کی قدریں ہیں۔ یہ قدریں مکان یعنی مظہر(Space) پر مشتمل ہیں۔ لیکن خالقیّت کی قدریں ان قدروں کے برعکس ہیں۔ مخلوقیت کی قدروں میں ابتدا، انتہا، اشتباہ، عکس رنگ(روشنی) کی درجہ بندی اور ہر قسم کا تغیّر ہوتا ہے اور مختلف نوعوں میں مختلف شکل و صورت، مختلف آثار و اَحوال پائے جاتے ہیں۔
زمان اور مکان کی بہت واضح مثال راستہ اور مسافر سے دی جا سکتی ہے۔ راستہ زمان ہے اور مسافر مکان۔ اگرچہ مسافر کا اِنہماک خود میں یعنی اپنے آثار و اَحوال میں ہوتا ہے تا ہم مسافر بغیر راستہ کے اپنی ہستی قائم نہیں رکھ سکتا۔ وہ راستہ سے کتنا ہی غافل رہے لیکن یہ ناممکن ہے کہ وہ راستہ سے لاتعلّق ہو جائے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ مسافر میں اور راستہ میں کمترین اور نازک ترین فصل بھی نہیں ہو سکتا۔ مسافر راستہ ہی کی تخلیق ہے۔ مسافر کی تمام حرکات و سکنات، سارا کردار، زندگی کی طرزیں اور فکریں راستہ کے حدود سے باہر نہیں جا سکتیں۔ وہ راستہ کی قدروں اور راستہ کے اُصولوں کا پابند ہے۔ انسانی زندگی میں راستہ لاشعور ہے اور مسافر شعور ہے۔ ہم شعور سے لاشعور کو پہچان سکتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا اِنہماک شعور میں زیادہ سے زیادہ ہے تو اس کی توجہ لاشعور میں کم سے کم ہے جس سے زندگی کے عمل اور اقدار کم رہ جاتی ہیں۔ شعور کا زیادہ سے زیادہ ہونا شعور کے زیادہ سے زیادہ حرکت میں رہنے کی دلیل ہے۔ اس لئے عمل کی مقدار کم سے کم رہ جاتی ہے جب انسان پیہم فکر کرتا ہے تو لاشعور کے حرکت میں آنے کا وقفہ کم سے کم رہ جاتا ہے اور صرف یہی وقفہ عمل کا وقفہ ہے کیونکہ سوچ بچار سے آزاد ہے۔
قانون یہ ہوا کہ جتنا زیادہ سے زیادہ وقت لاشعور کو دیا جائے گا، زندگی اتنے ہی عمل کے راستے طے کرے گی۔ دراصل لاشعور ہی نَسمہ کی حرکت کا وہ رخ ہے جو زندگی کی مکانیتوں یعنی زندگی کے اعمال کی تعمیر کرتا ہے۔ ہم پھر ایک بار تشریح کر دینا چاہتے ہیں کہ نقطۂِ وحدانی کے دو رخ ہیں۔ ایک عالم نور جو اصل زمان ہے، دوسرا عالمِ امَر جو اصل مکان ہے۔
عالمِ امَر یا اصلِ مکان میں زمان غالب اور مکان مغلوب ہے۔ عالم مکان یا خلق میں مکان غالب اور زمان مغلوب ہے۔ زمان اصلِ مکان میں بھی بساط (Base Line) ہے اور مکان میں بھی۔ اصل مکان نسمۂِ مُفرد ہے اور مکان نسمۂِ مرکّب۔ نسمۂِ مُفرد کی عام تعمیر عالمِ امَر کہلاتی ہے اور نسمۂِ مرکّب کی تمام تعمیر عالمِ خلق کہلاتی ہے۔ ان دونوں عالموں کے درمیان عالمِ مثال پردہ (برزخ) ہے۔ انسان عالمِ امَر میں پانچ قدم اٹھاتا ہے، پھر عالمِ خلق میں دو قدم۔۔۔۔۔۔پانچ قدم اخَفیٰ، خَفی، سِر، روح اور قلب ہیں۔ اور دو قدم احساس(نفس) اور قالب ہیں۔ یعنی پانچ قدم عالمِ امَر کے ہیں اور دو قدم عالمِ خلق کے۔
اخَفیٰ اور خَفی کی حرکت لاشعور میں رہتی ہے۔ یہ حرکتِ اُولیٰ ہے۔ سِر، روح اور قلب کی حرکات قالبِ انسانی میں وہم، خیال اور تصوّر کی نوعیت رکھتی ہیں۔ یہ حرکت ثانی ہے۔ نفس اور جسم کی حرکات قالبِ انسانی میں احساس اور عمل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ حرکتِ آخر ہے۔ اخَفیٰ بے رنگ حرکت ہے جس میں گریز پایا جاتا ہے۔ خَفی بے رنگ حرکت ہے جس میں کشش پائی جاتی ہے۔ سِریک رنگ حرکت ہے جس میں گریز پایا جاتا ہے۔ روح یک رنگ حرکت ہے جس میں کشش پائی جاتی ہے اور قلب کُل رنگ حرکت ہے جس میں گریز پایا جاتا ہے۔ نفس کُل رنگ حرکت ہے جس میں کشش پائی جاتی ہے۔ قالب ان حرکات کا مظاہرہ ہے۔
عالمِ امَر کی تمام حرکات مُفرد ہیں۔ دو حرکات ایسی ہیں جن میں کوئی رنگ نہیں جو لانفی کا بسط ہیں۔
نمبر۱۔ لاگریز اخَفیٰ عالمِ امرِ خاص۔
نمبر۲۔ لاکشش خَفی عالمِ امرِ عام۔
اخَفیٰ سے کشف ہوتا ہے لاگریز کا۔ اور خَفی سے کشف ہوتا ہے لاکشش کا۔ یہ دونوں لطائف مَوجودات کی اصلوں کے بسائط(Basic Points) ہیں۔ اخَفیٰ کسی نَوع کی وہ اصل ہے جس میں نَوع کا ایک ہیولیٰ تمام افراد نَوع کو محیط ہوتا ہے۔ اس کی مثال کائناتی شئے سے دی جا سکتی ہے مثلاً کسی درخت کا جو بیج سب سے پہلے اُگا تھا اس بیج کے اندر کائنات کی عمر تک پیدا ہونے والے تمام درخت موجود تھے۔ وہی ایک بیج اپنی تمام نَوع کا ہیولیٰ بنا۔ اس بیج کے ہیولیٰ میں ایسی حرکت پائی جاتی ہے جو اپنے آغاز(مبتداء) سے انجام(مظہر) کی طرف گریز کرنے والی ہے۔ نوعی ہیولیٰ کی حرکت کا یہ پہلا قدم ہے۔ دوسرا قدم خَفی ہے جو اپنے مظہر سے مبتداء کی طرف کھینچتا ہے۔ لا میں عالمِ امَر کے دو ابتدائی بساط پائے جاتے ہیں۔ یہ کُن کے دو ابتدائی قدم ہوئے۔ لام(ل) بسط ہے گریز کا اور الف(ا) بسط ہے کشش کا۔ یہ دونوں بسائط اخَفیٰ اور خَفی حیات کی اصل(لاشعور) ہیں۔ اگر ان دونوں بسائط کے مجموعہ کو نگاہ کا نام دیں تو اس نگاہ کو سطح اور عَمق دونوں رخوں پر تقسیم کریں گے۔ دونوں رخوں میں اخَفیٰ عَمق اور خَفی سطح۔ اخَفیٰ کی نگاہ ہمیشہ پردے کے پیچھے دیکھتی ہے اور خَفی کی نگاہ ہمیشہ پردے کے اوپر دیکھتی ہے۔ اخَفیٰ کی نگاہ پردے سے گزر جاتی ہے کیونکہ پردہ کشش ہے اور اخَفیٰ گریز۔ لیکن خَفی کی نگاہ کشش ہے۔ اس ہی لئے پردے پر رک جاتی ہے، گزر نہیں سکتی۔
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (1) لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (2) هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (3) هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللہ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (4) لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللہ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (5) (سورۃ الحدید)
ترجمہ: اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ زبردست حکمت والا ہے اس ہی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی، وہی حیات دیتا ہے وہی موت دیتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ وہی پہلے وہی پیچھے اور وہی ظاہر ہے اور وہی مَخفی ہے اور ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔ وہ ایسا ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا، پھر تخت پر قائم ہوا۔ وہ سب کچھ جانتا ہے جو چیز زمین کے اندر داخل ہوتی ہے اور جو چیز اس سےنکلتی ہے اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو چیزاس میں چڑھتی ہے اور وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے خواہ تم لوگ کہیں بھی ہو اور تمہارے سب اعمال کو بھی دیکھتا ہے۔ اس ہی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی اور اللہ ہی کی طرف سب اُمور لوٹ جائیں گے۔
نزول و صَعود
اخَفیٰ، خَفی، سِر، روح، قلب اور نفس یہ سب چھ لطائف ہوئے۔ دراصل یہ چھ حرکتوں کے نام ہیں۔ ان میں سے ہر ایک حرکت ہر نَوع میں ایک طول رکھتی ہے۔ ان چھ حرکات میں سے تین حرکات نزولی ہیں اور تین صَعودی۔ تین نزولی حرکات کے مقابل دوسرے رخ پر تین صَعودی حرکات بیک وقت وقوع میں آتی ہیں۔ ہر ایک نَوع میں پہلی حرکت اخَفیٰ، گریز یا نزول کی حرکت ہے۔ یہ حرکت عَمق سے سطح کی طرف ابھرتی ہے۔ یہ حرکت اپنا معیّن طول طے کرنے کے بعد جس سطح پر پہنچتی ہے اس کا نام سِرّ ہے۔ اخَفیٰ میں یہ حرکت بے رنگ تھی لیکن جب یہ سِر(عالمِ مثال) کے اندر قدم رکھتی ہے تو اس میں ایک رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ اخَفیٰ کی بے رنگی تمام رنگوں کی اصل تھی۔ اب سِرّ کی یک رنگی اپنے اندر تمام رنگوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ سِرّ کے بعد یہ حرکت ایک طول اور طے کرتی ہے۔ جیسے ہی یہ طول طے ہو چکتا ہے یک رنگی کے اندر جس قدر رنگ تھے سب بکھر جاتے ہیں۔ جن حدود میں یہ رنگ منتشر ہوئے ہیں ان حدود کا ایک رخ قلب یا تصوّر اور دوسرا رخ نفس یا احساس ہے۔ رنگوں کا یہی مجموعہ مظہر یا جسم ہے، خواہ کسی نَوع کا ہو۔ اب تک اس سفر میں لاشعور یعنی زمان سطح پر تھا اور مکان یعنی شعور عَمق میں۔ لیکن مظہر کی حدود میں قدم رکھنے کے بعد زمان عَمق میں چلا جاتا ہے اور مکان سطح پر آ گیا تو حرکت صَعودی ہو گئی۔ یہ حرکت مظہر(لطیفۂِ نفسی) سے روح کی طرف صَعود کرتی ہے اور روح سے خَفی کی طرف۔ اخَفیٰ لوحِ محفوظ ہے۔ سِرّ عالمِ مثال ۔لطیفۂِ روحی مذہب کی زبان میں اعراف یا برزخ کہلاتا ہے۔ خَفی کتابُ المرقوم، حشر و نشر کی منزل ہے۔
جیسا کہ ہم اوپر تذکرہ کر چکے ہیں انسانی زندگی کے یہ سات قدم ہوئے۔ ساتوں قدم سات عمریں ہیں۔ ان ساتوں عمروں کے دو مجموعی نام ہیں۔
ایک عالم رنگ یا عالمِ ناسُوت یعنی موجودہ دنیا۔ دوسرا حشر و نشر۔
ان دو منزلوں کے درمیان دو مرحلے اور پڑتے ہیں۔ لوحِ محفوظ اور عالمِ ناسُوت کا درمیانی مرحلہ عالمِ مثال کہلاتا ہے۔ عالمِ ناسُوت اور حشر و نشر کا درمیانی مرحلہ عالمِ برزخ کہلاتا ہے۔ یہ مرحلہ صَعودی حرکت میں پیش آتا ہے۔
تشریح:
قلم یعنی علمُ القلم اور لوح یعنی لوحِ محفوظ۔
یہ دونوں نقطۂِ وحدانی کے دو رخ ہیں۔ جو رخ ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف ہے، اُس کو علمُ القلم کہتے ہیں۔ یہی رخ تجلّیِٔ ذات بھی کہلاتا ہے۔ اور عام اِصطلاح میں وراءِ بے رنگ یا وراءِ لاشعور کہہ سکتے ہیں۔ قلم اور لوح کے تئیس شعبے ہیں ہم یہاں قلم (وراءِ بے رنگ) کے تئیس شعبوں کاتذکرہ نظر انداز کرتے ہیں۔ صرف لوح (بے رنگ) کے اس شعبہ کا تذکرہ کریں گے جس کا بیان مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ شعبہ لوح یا لاشعور کے اس نقطہ سے متعلّق ہے جس کی ایک سطح حافظہ اور دوسری سطح فکر ہے۔ یہ دونوں سطحیں ایک ہی حرکت کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ حافظہ کی سطح اور دوسرا رخ فکر کی سطح۔ حافظہ کی سطح خلاءِ نور ہے۔ یہ بسیط، عَمیق اور محیط ہے۔ فکر کی سطح محض نور ہے جو خلاءِ نور سے نور کی طرف یعنی لامحدودیت سے محدودیت کی طرف نزول کرتی ہے۔ اس ہی حرکت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کے پہلے جُزو میں کیا ہے۔
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ
چنانچہ ہر شئے لامحدودیت سے محدودیت میں آ کر اس بات کا تعارف کراتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک بے نقص اور غیر محدود ہے اور غیر محدودیت ہی اللہ تعالیٰ کی سبحانیت اور پاکی کا شعبہ ہے۔ اگر غیر متغیّر اور متغیّر کو الگ الگ سمجھنا چاہیں تو غیر متغیّر کا نام لامحدودیت اور تغیّر پذیر کا نام محدودیت رکھنا ہو گا۔ جب کسی شئے میں تغیّر پیدا ہوتا ہے تو پہلے حدود کا قیام عمل میں آتا ہے یعنی حد بندی کے بغیر کوئی شئے تغیّر کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔ تغیّر حرکت کا دوسرا نام ہے اور کسی شئے میں جب تک حدود کا تعیّن موجود نہ ہو حرکت واقع نہیں ہو سکتی۔ تغیّر سے پاک ہونا ہر قسم کی احتیاج ہر طرح کی پابندی اور ہر تعدد سے آزاد ہونا ہے۔ قرآنِ پاک میں لامحدودیت کو خالق اور محدودیت کو مخلوق قرار دیا گیا ہے۔
خارج۔ خارجی طور پر کائنات تین دائروں پر مشتمل ہے۔ یہ تین دائرے دراصل کائنات کے تین حصّے ہیں۔
پہلا دائرہ مادّیت کا ہے۔ دوسرا حیوانیت کا اور تیسرا انسانیت کا۔ خارجی عمل جس کو میکانکی عمل کہنا چاہئے، مادّیت کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس میکانکی عمل کے نتیجے میں جمادات، نباتات بنتے ہیں۔ دوسرے دائرے سے حیوانات اور پھر انسانی تعمیر کے خمیر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ تین معیّن دائرے خارج یا مظاہر کہلاتے ہیں لیکن تحلیل کی طرزیں ہماری نگاہ سے پوشیدہ ہیں اور یہ مَخفی طرزیں اللہ تعالیٰ کی زبردست حکمت کا ایک جُزو ہیں۔
وارِدات۔یہ منفی تحلیل نقطۂِ وحدانی کے ذہن سے عمل میں آتی ہے۔ نقطۂِ وحدانی کا ذہن اللہ تعالیٰ کا وہ ارادہ ہے جو کُن فرمانے سے ظُہور میں آیا۔ یہاں سے یہ بات مُنکشِف ہو جاتی ہے کہ لامحدودیت کا ارادہ اخَفیٰ کو خَفی کی صورت عطا کرتا ہے۔ یا خلاءِ نور کو نور کی شکل دیتا ہے۔ یہ ارادہ کسی سبب یا وسیلہ کی احتیاج نہیں رکھتا۔ کیونکہ خلاءِ نور میں وسائل یا اسباب کا کوئی قوام موجود نہیں ہے۔ یہ تبدیلی جس نے خلاءِ نور کو نور میں تبدیل کیا ہے صرف خالق کے ارادے سے عمل میں آئی ہے۔ اس حقیقت سے یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ خلاءِ نور اور خالق کا ارادہ دونوں ایک ہی حقیقت ہیں اور یہی حقیقت کائنات کی تعمیر کا بسط ہے۔ قرآنِ پاک میں اس حقیقت کو تدلّٰی کا نام دیا گیا ہے۔
عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ (5) ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ (6) وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ (7) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ (8) فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ (9)
(سورۂ نجم، پارہ ۲۷)
ترجمہ: ان کو تعلیم کرتا ہے جس کی طاقت زبردست ہے۔ اصلی صورت پر نمودار ہوا جب وہ افق پر تھا۔ نزدیک آیا۔ پھر اور نزدیک آیا۔ جھکا، دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ کم۔
ان آیات میں ان مشاہدات کا ذکر ہے جو حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کو خلاءِ نور سے متّصل ہونے میں پیش آئے تھے۔ اس حقیقت کا تعارف معرفتِ ذات کے اعلیٰ مراتب سے تعلّق رکھتا ہے۔ اس مرتبہ میں ذاتِ باری تعالیٰ کے کمالات کا انکشاف ہوتا ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے جو تعلیمات براہِ راست اللہ تعالیٰ سے حاصل کی تھیں۔ مذکورہ بالا آیات میں ان ہی تعلیمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ خلاءِ نور ان تجلّیات کا مجموعہ ہے جو علوم کے حقائق ہیں۔ ان ہی علوم کے حقائق کو علمُ القلم کہا جاتا ہے۔ یہ لوحِ محفوظ کے اَحکامات پر اوّلیت رکھتے ہیں۔ ان ہی علوم کی ثانویت کا نام لوحِ محفوظ کے اَحکام ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی ماثورہ دعاؤں میں کہیں کہیں ان علوم کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان میں سے ایک دعا یہ ہے:
یا اللہ! میں تجھے تیرے ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جن کو تو نے مجھ پر ظاہر کیا۔ یا مجھ سے پہلوں پر ظاہر کیا۔ اور میں تجھے تیرے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جن کو تو نے اپنے علم میں اپنے لئے محفوظ رکھا اور تجھے تیرے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جو تُو میرے بعد کسی پر ظاہر کرے گا۔
اس دعا میں خلاءِ نور یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات و کمالات، شعائر و عادات اور قوانین تجلّیات کو اللہ تعالیٰ کے اسماء قرار دیا گیا ہے۔ یہ علم اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد اور اِبداء سے پہلے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس مرتبہ کی معرفت بغیر وسائل و اسباب کے تخلیق و تکوین کی صلاحیّتیں عطا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہر نام میں لاشمار کمالات جمع ہیں۔ کمالات خلاءِ نور سے صادِر ہو کر لوحِ محفوظ کی زینت بنتے ہیں اور پھر لوحِ محفوظ سے عالمِ خلق میں ظاہر ہوتے ہیں۔
ہم نے پچھلے صفحات میں خلاءِ نور کو وراءِ بے رنگ کہا ہے۔ خلاءِ نور یا وراءِ بے رنگ سے نفی یا عدَم مراد نہیں ہے بلکہ عدَم نور مراد ہے، وہ عدَم نور جو قانونِ نورانیت کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک طرح کا لطیف ترین جلوہ ہے اور اس ہی جلوہ سے نور کی تخلیق ہوئی ہے۔ذاتِ باری تعالیٰ خلاءِ نور سے ماوراء ہے۔ خلاءِ نور وراءِ بے رنگ ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ وراء الوراء بے رنگ ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کی تشخیص میں فی الحقیقت الفاظ کو دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا بیان وہم، تصوّر، الفاظ ہر طرز فہم سے بالاتر ہے۔ محض فکرِ وِجدانی اللہ تعالیٰ کی قربت کو محسوس کر سکتی ہے۔ اور اس ہی فکرِ وِجدانی کی سعی انسان کو ایسے مقام پر پہنچا دیتی ہے جہاں وہ تجلّیِٔ ذات کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اس ہی مقام میں اللہ تعالیٰ سے گفتگو کے مواقع حاصل ہوتے ہیں یہ گفتگو براہِ راست ذات سے نہیں بلکہ تجلّیِٔ ذات کی معرفت ہوتی ہے۔
کائناتی نقطہ، فکر وِجدانی
شئے کا مشاہدہ ہی شئے کی فہم کا باعث بنتا ہے۔ شئے پہلے انسان کے مشاہدے میں داخل ہوتی ہے۔ پھر فہم یعنی شعور میں باریابی پاتی ہے لیکن یہ آخری منزل نہیں ہے، آخری منزل لاشعور یا وراءِ شعور ہے جہاں شئے اپنی حقیقت میں پیوست ہو جاتی ہے۔ یہ سطح شعور کی گہرائی میں واقع ہے۔ گزشتہ صفحات میں ہم نے اس سطح کو بے رنگ یا خَفی کہا ہے۔ یہ سطح شعور سے نیچے اور وراءِ بے رنگ سے اوپر واقع ہے۔جب ہم کسی چیز کا نام لیتے ہیں تو وہ سننے والے کے ذہن (روح) میں وارِد ہوتی ہے مثلاً جب سورج کہا جاتا ہے تو سننے والا اپنے داخل میں سورج کو محسوس کرتا ہے جو سورج خارج میں ہے اس سے داخلی سورج کا کوئی علاقہ نہیں ہے۔ یہ داخلی سورج ذہن یا روح کی وارِدات ہے۔ تمام دنیا میں جتنے انسان سورج کے بارے میں سوچتے یا سنتے ہیں ان سب کا نقطۂِ وارِدات ایک ہی سورج ہے۔ یہ ایک حقیقت ہوئی جس میں کوئی تغیّر نہیں ہوتا۔ گویا یہ ایک حقیقتِ ثابِتہ ہے۔جب ہم کسی ایسی شئے کا نام سنتے ہیں جس کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا تو وہ بھی اَن دیکھی شئے حقیقتِ ثابِتہ کی صورت میں ذہن کے اندر داخل ہوتی ہے مثلاً کسی شخص نے خدا کو نہیں دیکھا لیکن جب وہ خدا کا نام سنتا ہے تو اس کے داخل میں ایک حقیقت وارِد ہوتی ہے۔ ایسی حقیقت جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت کے وارِد ہونے کا ایک ہی کائناتی نقطہ ہے جس کے اندر صرف کائنات ہی نہیں بلکہ وراءِ کائنات بھی موجود ہے۔ یہی محسوس نقطہ جہاں تک کائنات کا احاطہ کرتا ہے لفظ جمع یا عین الیقین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن جب اس نقطے میں وراءِ کائنات بھی داخل ہو جاتا ہے تو حق الیقین یا جمع الجمع کہلاتا ہے۔
علم الیقین
مذکورہ وارِدات یا محسوسات سے پیش تر ذہنِ انسانی کی ایک خاص حالت ہوتی ہے جس کو علم الیقین کہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا مشاہدہ ہے۔
ایک حقیقت
ایک شخص آئینہ میں اپنا عکس دیکھ رہا ہے مگر آئینہ اُس سے پوشیدہ ہے۔ وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ میرے سامنے مجھ جیسا ایک انسان ہے تو یہ حالت علم الیقین کہلاتی ہے۔
عین الیقین
اگر دیکھنے والے کو یہ علم ہے کہ میں آئینہ میں اپنا عکس دیکھ رہا ہوں لیکن وہ اپنی، آئینہ کی اور عکس کی حقیقت سے ناواقف ہے تو یہ حالت عین الیقین کہلاتی ہے۔
حق الیقین
اگر دیکھنے والا اپنی، آئینہ کی اور عکس کی حقیقت جانتا ہے تو یہ حالت حق الیقین کہلاتی ہے۔
مزید تشریح:
روزمرّہ مشاہدات میں روشنی آئینہ کا قائم مقام ہے۔ شاہد اور مشہود کے درمیان یہی روشنی آئینہ کا کام دیتی ہے۔ ہم دیکھنے کے عمل کو چار دائروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ یہی چار دائرے تصوّف کی اِصطلاح میں چار بُعد کہلاتے ہیں۔ گزشتہ صفحات میں ان کا تذکرہ نہروں کے نام سے کیا جا چکا ہے۔ پہلے دائرے کا نام تسوید ہے۔ اس ہی دائرہ کو خلاءِ نور بھی کہتے ہیں۔ لامکان، زمان وقت وغیرہ اس ہی دائرہ کے نام ہیں۔ یہی دائرہ تجلّیِٔ ذات یا کائنات کی بنیاد ہے۔ اس ہی کو قرآنِ پاک میں تدلّٰی کہا گیا ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی دو حدیثوں میں ہے:
۱۔ لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ (وقت میں میرا اور اللہ کا ساتھ ہے)۔
۲۔ لاَ تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ (وقت کو برا نہ کہو، وقت اللہ ہے)۔
یہی دائرہ غیر متغیّر ہے۔ اس ہی دائرہ کی حدود ازل تا ابد ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد کُن اُس ہی دائرہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ میں اس ہی دائرہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہی دائرہ پہلا بُعد ہے اور ہم اپنی اِصطلاح میں اس کا نام نظر رکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد تینوں دائرے مکان(Space) ہیں جن کے نام بالتّرتیب تجرید، تشہید، تظہیر ہیں۔
بُعد نمبر۱۔ نظر
بُعد نمبر۲۔ نظارہ
بُعد نمبر۳۔ ناظر
بُعد نمبر۴۔ منظور
ان چاروں کے نام شُہود، مشاہدہ، شاہد اور مشہود بھی لئے جاتے ہیں۔ نظر یا شُہود یا تسوید یا زمان(Time) کائنات کی ساخت میں اصل یا بنیاد ہے۔ اس میں کبھی کوئی تغیّر واقع نہیں ہوا، نہ آئندہ ہو سکتا ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت کبریٰ ہے۔ اس ہی حقیقت کبریٰ پر تینوں مکانیتوں کی عمارت قائم ہے۔ یہی حقیقت کبریٰ ان تینوں مکانیتوں کی حقیقت ہے۔ یہ حقیقت کبریٰ لامکان ہے۔ اس کے بعد پہلی مکانیت جو تجرید کہلاتی ہے، مشاہدہ یا نظارہ کی نوعیت میں اپنا وُجود رکھتی ہے۔ دوسری مکانیت یا تشہید شاہد یا ناظر کی نوعیت رکھتی ہے۔ تیسری مکانیت تظہیر، مشہود یا منظور کہلاتی ہے۔ یہ مکانیت روشنی کا بحرِ ذخّار ہے۔
نُور و نار
تجرید یا پہلی مکانیت نور ہے۔ تشہید یا دوسری مکانیت نسمۂِ مُفرد ہے۔ یہی نسمۂِ مُفرد کائناتی شعاع یا کاسمک ریز (Cosmic Rays) کہلاتا ہے۔ نسمۂِ مرکّب یا تظہیر یعنی تیسری مکانیت، کائناتی شعاعوں کے علاوہ جتنی روشنیاں ہیں سب پر مشتمل ہیں۔ تظہیر کی شعاعوں کے ہُجوم ہی سے کائنات کے تمام جسم بنتے ہیں۔ تظہیر کی روشنیاں ایک طرح کا رنگین آئینہ ہیں۔
دراصل چاروں بُعد چار آئینے ہیں۔ پہلا غیر متحرّک اور غیر متغیّر آئینہ نظر یا لامکان ہے۔ دوسرا متحرّک یا متغیّر آئینہ نظارہ ہے۔ تیسرا متحرّک آئینہ ناظر ہے اور چوتھا متحرّک آئینہ منظور ہے۔
نظر
ہم نظر کو ایک طرح کا کائناتی شعور کہہ سکتے ہیں۔ یہ جس مقام پر جس نقطہ میں بھی جلوہ گر ہوتی ہے ایک ہی طرز رکھتی ہے۔ انسان میں جو نظر پانی کو پانی دیکھتی ہے وہ نظر ہر شئے کے اندر پانی کو پانی دیکھتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انسان نے پانی کو پانی دیکھا ہو اور شیر نے پانی کو دودھ دیکھا ہو۔ نظر کا کردار کائنات کے ہر ذرّہ اور نقطہ میں ایک ہے۔ جس طرح ہم لوہے کو سخت محسوس کرتے ہیں اِسی طرح چیونٹی بھی لوہے کو سخت محسوس کرتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ لوہا جس نگاہ سے انسان کو دیکھتا ہے اس ہی نگاہ سے چیونٹی کو دیکھتا ہے۔ کائنات میں پھیلے ہوئے تمام مناظر اس ہی قانون کے پابند ہیں۔ جب آدمی چاند کی طرف نظر اٹھاتا ہے تو چاند کو اِسی شکل و صورت میں دیکھتا ہے جس شکل وصورت میں چکور دیکھتا ہے۔ جب درخت کی جڑیں پانی حاصل کرتی ہیں تو پانی سمجھ کر حاصل کرتی ہیں بالکل اس ہی طرح جس طرح ایک جانور پانی کو پانی سمجھتا ہے۔ ایک سانپ بھی دودھ کو دودھ سمجھ کر پیتا ہے اور ایک بکری بھی دودھ سمجھ کر پیتی ہے۔
نتیجہ:ہم ان تمام مثالوں سے ایک ہی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تمام کائنات کے ہر ذرّہ میں ایک نظر کام کر رہی ہے۔ اس نظر کے کردار میں کہیں اختلاف نہیں۔ وہ ہر ذرّہ میں غیر متغیّر ہے۔ اس کا ایک معیّن اور مخصوص کردار ہے۔ نظر کے کردار میں ابتدائے آفرینش سے کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ یہ نظر مکانیت اور زمانیت دونوں کی نفی کرتی ہے کیونکہ اس کی روش میں نہ تو وقت کے تغیّر سے کوئی تغیّر ہوتا ہے اور نہ وقت کی تبدیلی سے کوئی تبدیلی۔ یہ نظر ازل سے ابد تک کسی لمحہ یا کسی ذرّہ کی گہرائی میں ایک ہی صفَت رکھتی ہے۔ یہی نظر وہ مقام ہے جس کو شعور کا مرکزی نقطہ یا کائنات کی حقیقت کہہ سکتے ہیں۔ یہ محض رنگ ہی سے ماوراء نہیں بلکہ بے رنگ سے بھی ماوراء ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔
عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
انسان کو علم سکھایا، وہ نہیں جانتا تھا۔
یہاں سکھانے کا مطلب وُدیعت کرنا یا لاشعور میں پیوست کرنا ہے۔ یعنی جس چیز سے کائنات کی سرشت اور جبلت عاری تھی اللہ تعالیٰ نے وہ چیز انسان کی فطرت میں بطور خاص وُدیعت کی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے آدم کے پُتلے میں روح پھونکی۔
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (سورۂ ص۔ آیت ۷۲)
ترجمہ: پس جس وقت کہ درست کروں اور پھونکوں اس کے بیچ اپنی روح میں سے پس گر پڑو واسطے اس کے سجدہ کرتے ہوئے۔
یہ بھی ارشاد کیا ہے کہ میں نے آدم کو علمُ الاسماء عطا کیا۔
عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا
یہ تمام ارشادات اس مطلب کی وضاحت کرتے ہیں کہ مَوجودات کے اندر جو چیز اصل ہے اس کا سمجھنا اور جاننا بجُز انسان کے اور کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ یہ خُصوصی علم اللہ تعالیٰ نے صرف آدم کو عطا کیا ہے۔ یہ خُصوصی علم لاشعور کا علم ہے۔
علمُ الاسماء
کائنات میں ہر مخلوق شعور رکھتی ہے۔ مثلاً درختوں اور جانوروں کو پیاس لگتی ہے اور پانی پی کر پیاس بجھانے کا شعور حاصل ہے۔ اِسی طرح ہوا کو پانی کے ننھے ننھے ذروں کا اور ان کو اپنے دوش پر اٹھا لینے کا شعور حاصل ہے۔ یہ عام سطح کا شعور ساری مَوجودات میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس بات کا سمجھنا کہ مَوجودات کو یہ وصف کہاں سے ملا صرف انسان کو میسر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کے پُتلے میں اپنی روح پھونک کر یہ علم اس کو بخشا ہے۔
قرآنِ پاک میں تینوں علوم کا تذکرہ ملتا ہے۔
۱۔ علمِ حُضوری
۲۔ علمِ حُصولی
۳۔ علم تدلّٰی یا علمِ نبوت
علمِ حُضوری
ہر ذی شعور کائنات کا محلِ وقوع جانتا ہے۔ وہ یہ ضرور سوچتا ہے کہ آخر یہ تمام کس جگہ قائم ہیں۔ کس سطح پر رُکی ہوئی ہیں۔ قرآنِ پاک میں جگہ جگہ اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ بار بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں علیم ہوں، میں خبیر ہوں، میں بصیر ہوں، میں محیط ہوں، میں قدیر ہوں، میں زمین و آسمان کا نور ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام عبارتوں سے لازماً یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ کائنات کا محلِ وقوع اللہ تعالیٰ کا علم ہے۔
کائنات اللہ تعالیٰ کے علم میں کس طرح واقع ہے؟ یہ بات سمجھنے کے لئے کائنات کے اَجزاء کی داخلی ساخت جاننا ضروری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر چیز اپنے مقام سے قدم قدم چل کر منزل کی طرف سفر کر رہی ہے۔ اس سفر کا نام ارتقاء ہے۔ اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ارتقا کیا ہے۔ اور کس طرح وقوع میں آ رہا ہے۔
ہم روشنی کے ذریعے دیکھتے یا سنتے، سمجھتے اور چھوتے ہیں۔ روشنی ہمیں حواس دیتی ہے۔ جن حواس کے ذریعے ہمیں کسی شئے کا علم حاصل ہوتا ہے وہ روشنی کے دیئے ہوئے ہیں۔ اگر روشنی درمیان سے حذف کر دی جائے تو ہمارے حواس بھی حذف ہو جائیں گے۔ اس وقت نہ تو خود ہم اپنے مشاہدہ میں باقی رہیں گے اور نہ کوئی دوسری شئے ہمارے مشاہدہ میں باقی رہے گی۔
مثال:
اگر کوئی مصوّر سفید کاغذ پر رنگ بھر کے درمیان میں ایک کبوتر کی جگہ خالی چھوڑ دے۔ پھر وہ کاغذ دکھا کے کسی شخص سے پوچھا جائے تمہیں کیا نظر آ تا ہے تو وہ کہے گا میں ایک سفید کبوتر دیکھ رہا ہوں۔
جس طرح یہ مثال پیش کی گئی بالکل اِسی طرح اللہ تعالیٰ کا علم کائنات کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ کائنات کا ہرذرّہ بصورت خلاء اللہ تعالیٰ کے نور میں واقع ہے۔ دیکھنے والے کو اللہ تعالیٰ کا نور نظر نہیں آتا، صرف کائنات کا خلاء نظر آتا ہے۔ جس کو وہ اشیاء چاند، سورج، زمین، آسمان، آدمی، جانور وغیرہ وغیرہ کہتا ہے۔
اخفاء یا ارتقاء
دنیا میں ہزاروں انسان بستے ہیں۔ ہر انسان دوسرے کی زندگی سے ناواقف ہے۔ یعنی ہر انسان کی زندگی راز ہے جس کو دوسرے نہیں جانتے۔ اس راز کی بدولت ہر انسان اپنی غلطیوں کو چھپاتے ہوئے خود کو بہتر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مثالی بننا چاہتا ہے۔ اگر اس کی غلطیاں لوگوں کے سامنے ہوتیں تو پھر وہ خود کو بہتر ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرتا اور زندگی کا ارتقاء عمل میں نہ آتا۔
علمِ حُصولی
انسانی زندگی کی ساخت میں کچھ ایسے عناصر استعمال ہوئے ہیں جو شعور کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں اور شعور کو مثالی یا اعلیٰ زندگی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ گویا اخفاء ایسی حقیقت ہے جس کو ارتقاء کا نام دے سکتے ہیں۔ انسانی ساخت کی یہی خُصوصیت اسے جانوروں کی ساخت سے ممتاز کرتی ہے۔ لیکن حیوانی زندگی کے عناصر حیوان کے شعور سے مَخفی نہیں۔ ہر ایک حیوان کے اعمال معیّن ہیں جن کو اس کا شعور پوری طرح جانتا ہے۔ اس ہی باعث ایک جانور خود کو دوسرے جانور سے بہتر ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔
انسانی ساخت کا یہ شعوری امتیاز ہی تمام علوم و فنون کا مَخرج ہے۔ انسان کا یہی شعوری امتیاز انسان کو اپنے لاشعور سے جدا کرتا ہے۔ یہیں سے انسان ایسی حد قائم کرتا ہے جو علمِ حُضوری کے اَجزاء سے ایک علم کی داغ بیل ڈال دیتی ہے۔ یہی علم تمام طبَعی علوم کا مجموعہ ہے۔ تصوّف کی اِصطلاح میں اس کو علمِ حُصولی کہتے ہیں۔ اس علم کے خدّوخال زیادہ ترقیاسات اور مفروضات پر مشتمل ہوتے ہیں۔
علمِ لدُنّی
یہ علم علمِ حُضوری اور علمِ حُصولی دونوں کی حدیں قائم کرتا ہے۔اور دونوں کو ایک دوسرے سے متعارف کراتا ہے۔ یہ ان حقائق پر مبنی ہے جو علمِ حُصولی کی گہرائیوں میں تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ اس علم کے خدّوخال آیاتِ الٰہی سے بنتے ہیں۔ آیات الٰہی سے مراد وہ نشانیاں ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآنِ پاک میں توجہ دلائی ہے۔ دراصل تمام طبَعی قوانین روحانی قوانین کا اتباع کرتے ہیں۔
طبَعی قوانین سے روحانی قوانین کا سُراغ لگانا اور ان کی حقیقت تک پہنچ کر علمِ حُضوری سے رُوشناس ہونا علمِ لدُنّی کا شعار ہے۔ جب یہ علم انبیاء کو حاصل ہوتا ہے توعلمِ نبوت کہلاتا ہے اور جب یہی علم اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے تو علمِ لدُنّی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وحی انبیاء کے لئے مخصوص ہے اور الہام اولیاء کیلئے۔
یہ علم انبیاء یا اولیاء کو کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ اس چیز کو ذیل کی سطور میں اَجمالاً بیان کیا گیا ہے کیونکہ تفصیل کی اس کتاب میں گنجائش نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا تو کسی دوسری کتاب میں اس کی تفصیل بیان کی جا سکے گی۔
کائنات کی ساخت چار بُعد یا چار دائروں پر مشتمل ہے۔ گزشتہ صفحات میں ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن وہاں ان کے اَوصاف صرف ایک زاویہ پر تذکرہ میں آئے ہیں۔ ان دائروں کا دوسرا زاویہ تصوّف کی اِصطلاح میں الگ الگ چار نام رکھتا ہے۔
۱۔ راح
۲۔ روح
۳۔ رُؤیا
۴۔ رؤیت
اس زاویہ کے یہ چار اَوصاف لاشعور سے تعلّق رکھتے ہیں۔ راح منفی لاشعور ہے اور روح مثبت لاشعور۔ اس ہی طرح رُؤیا منفی شعور ہے اور رؤیت مثبت شعور۔
راح یعنی منفی لاشعور میں کوئی تغیّر نہیں ہوتا۔ وہاں لامکان اور مکان یعنی زمانی اور مکانی دونوں فاصلے معدوم ہیں۔ ازل سے ابد تک کی تمام وارِدات ایک ہی نقطہ میں پائی جاتی ہیں۔ جب یہ نقطہ حرکت میں آتا ہے تو اس کا نام بدل جاتا ہے۔ پہلے یہ نقطہ راح کہلاتا تھا لیکن حرکت پیدا ہونے کے بعد یہی نقطہ روح کہلاتا ہے۔ اس نقطہ میں حرکت کی نمود ہی زمانی اور مکانی فاصلے پیدا کرتی ہے۔
پہلے صفحات میں کائناتی نظر کا بیان ہوا ہے۔ یہی کائناتی نظر، راح ہے۔ یہی نظر زمانی اور مکانی فاصلوں میں تقسیم ہونے کے بعد حقیقت وارِدہ یا روح کہلاتی ہے۔
اگر ہم کسی شخص کے سنانے کو سورج کا نام لیں تو آناً فاناً اس کے ذہن سے سورج کا عکس گزرتا چلا جائے گا۔ فی الواقع اس کے ذہن سے گزرنے والا وہ سورج ہے جس سے وہ خارج میں رُوشناس ہے۔ وہ اور کسی سورج کو نہیں جانتا۔ وہ فقط اس ہی سورج سے واقف ہے جو اس کے ذہن میں وارِد ہے۔ یہ حرکت روح کہلاتی ہے گویا روحِ انسانی ذہن سے ایک حقیقت وارِدہ کی صورت میں متعارف ہے۔ اور ساری مَوجودات میں یکساں طور پر جاری و ساری ہے۔ جب کوئی شخص اس حقیقت وارِدہ کو اپنے ذہن میں قائم کرتا ہے تو یہ تصوّر کی شکل اِختیار کر لیتی ہے یعنی روح شعور میں سما جانے کے بعد تصوّر بن جاتی ہے۔ اس ہی حالت کو رُؤیا کہتے ہیں لیکن جب یہ تصوّر
زاویۂ بصر کی سطح پر آ جاتا ہے تو رؤیت کہلاتا ہے۔ اس وقت کسی شخص کی بصارت شئے کو بالمقابل مجسم شکل میں دیکھتی ہے۔ نظر کا کردار اس منزل میں بھی وہی رہتا ہے جو راح، روح اور رُؤیا میں تھا۔ عام اِصطلاح میں پہلے دائرے کو لاشعور، دوسرے کو اِدراک، تیسرے کو تصوّر اور چوتھے کو شئے کہتے ہیں۔
لاشعور، اِدراک اور شعور کا فرق
مذکورہ بالا وضاحت کی روشنی میں کائنات یا فردِ کائنات کی چار سطحیں معیّن ہوتی ہیں۔ پہلی سطح وراءِ لاشعور ہے۔ اِسی کو وراءِ بے رنگ بھی کہا گیا ہے۔ یہ سطح کائنات یا فرد کے اندر بہت گہرائی میں واقع ہے۔ اس سطح کے اَوصاف کی تشخیص بہت کم ممکن ہے، تاہم ہو سکتی ہے۔ جب یہ سطح ایک حرکت کے ساتھ ابھرتی ہے تو نئے اَوصاف کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ اس مجموعہ کا نام لاشعور ہے۔ اس ہی کو بے رنگ کہا گیا ہے۔ اس سطح کے اَوصاف کی تشخیص بھی مشکل ہے۔ تا ہم وراءِ بے رنگ کی تشخیص کے مقابلے میں آسان ہے۔
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ حرکت دوسرے دائرے (لاشعور) میں شروع ہوئی تھی۔ جب یہی حرکت دوسرے دائرے سے ابھر کر تیسرے دائرے میں داخل ہوتی ہے تو فرد کا شعور اس کا احاطہ کر لیتا ہے۔ اس ہی احاطہ کا نام تصوّر ہے۔ پھر یہی تصوّر اپنی سطح سے ابھر کر رؤیت بن جاتا ہے اور فرد کا شعور اس رؤیت کو اپنے بالمقابل دیکھنے لگتا ہے۔ یہی وہ حالت ہے جس کو ہم وُجود کہتے ہیں۔ اور مختلف ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔
ہر شئے کو شعور کی ان چاروں سطحوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب تک کوئی شئے یہ چاروں مرحلے طے نہ کر لے موجود نہیں ہو سکتی۔ گویا کسی شئے کی موجودگی چوتھے مرحلے میں واقع ہوتی ہے اور پہلے تین مرحلوں میں اس شئے کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔
اس طرح شعور کے چار درجے ہوئے ہمارے ذہن کا ایک شعور کسی ایسی وسعت کو بھی جانتا ہے جو کائنات سے ماوراء ہے۔ یہی شعورِ اوّل ہے۔ ہم اس شعور کو وراءِ کائناتی شعور کہہ سکتے ہیں۔
شعور ِدوئم کل کائنات کا مجموعی شعور ہے۔ اس کو کائناتی شعور کا نام دے سکتے ہیں۔
شعورِ سوئم کسی ایک نَوع کا اجتماعی شعور ہے۔ اس کو نوعی شعور کے نام سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
شعورِ چہارم کسی نَوع کے فرد کا شعور ہے۔
ہمارا ذہن اور قوّتوں کے علاوہ ایک ایسی قوّت پرواز بھی رکھتا ہے جس کو عام اِصطلاح میں واہمہ کہتے ہیں۔ جب یہ قوّت پرواز کرتی ہے تو ان بلندیوں تک جا پہنچتی ہے جو کائنات کی حدوں سے باہر ہیں لیکن یہاں پہنچ کر اس طرح گم ہو جاتی ہیں کہ ہمارا ذہن اسے واپس نہیں لا سکتا اور نہ یہ سُراغ لگاسکتا ہے کہ پرواز کرنے والی قوّت کہاں گم ہو گئی اور گُمشدگی میں اسے کیا حادثات پیش آئے۔ جس عالم میں یہ قوّت گم ہوتی ہے، تصوّف میں اس عالم کو لاہُوت یا وراءِ بے رنگ کہتے ہیں۔ یہی عالم شعورِ اوّل ہے۔ اس عالم میں اللہ تعالیٰ کی لامُتناہی صفات جمع ہیں۔ یہ صفات ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں۔ اس ہی لئے ان کو قائم بالذّات کہتے ہیں۔ ان صفات کی وَحدت کا نام تجلّیِٔ ذات بھی ہے۔ اس ہی عالم کو راح کہا گیا ہے۔
قرآنِ پاک نے ہم کو تین ہستیوں سے متعارف کرایا ہے۔
اوّل: اللہ تعالیٰ کی ذات جو لامُتناہی اور وراءِ راح ہے۔
دوئم: اللہ تعالیٰ کی صفات جو قائم بالذّات ہیں۔ ان ہی کا نام وراءِ کائناتی شعور یا راح ہے۔
سوئم کائنات ہے۔
یہ تین ہستیاں ہوئیں۔ ذات، صفات اور کائنات۔ ذات صفات و کائنات کو محیط ہے۔ ذات خالق، صفات قائم بالذّات اور کائنات مخلوق ہے۔ ہر صفَت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات وابستہ ہے۔ انبیاءِ متقدمین (حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ ) کے نقش قدم پر چلنے والے انبیاء نے ذاتِ باری تعالیٰ کو رحمت کے نام سے جانا ہے۔ یہ رحمت ذات کی لامُتناہی صفات میں ہر صفَت کے ساتھ پیوست ہے۔ انبیاء نے رحمت کو دو ناموں سے متعارف کرایا ہے۔ یہ دونوں نام جمال اور جلال ہیں۔ انہوں نے جمال کا ایک وصف قائم کیا ہے جس کو احتساب کا نام دیا گیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی لامُتناہی صفات میں ہر صفَت کے ساتھ تین اَوصاف یعنی خالقیّت، ربوبیت اور احتسا ب لازمی طور پر پیوست ہیں۔ انسان کے اندر خالقیّت کی صفَت ہنر بن کر ظُہور میں آتی ہے۔ ربوبیت کی صفَت کا مظہر اخلاق ہے اور احتساب کے وصف کا مظاہرہ علم ہے۔ چنانچہ انسان ان ہی تین اَوصاف کی تمثیل ہے۔
ذات۔ وراءِ غیبُ الغیب، راح۔ غیبُ الغیب اور روح غیب ہے۔ روح کے بعد دو شعور رُؤیا اور رؤیت باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ دونوں اگرچہ روح میں پیوست ہیں لیکن حضور کہلاتے ہیں۔ رُؤیا شعورِ سوئم کا حضور ہے اور رؤیت شعورِ چہارم کا۔
وقفہ
وقفہ یا وقت ایسی مکانی حالت کا نام ہے جو طولانی سفر میں گردش کرتی ہے۔ مذکورہ بالا چاروں شعور جب طولانی سمت میں دَور کرتے ہیں تو اس دَور کا نام وقفہ یا وقت یا زمان(Time) ہے لیکن جب یہ چاروں شعور اپنے مرکزی سفر میں دَور کرتے ہیں تو اس دَور کو مکان(Space) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں حالتیں…. ایک طولانی سمت کی گردش، دوسرے محوری سمت کی گردش ایک ہی ساتھ واقع ہوتی ہیں۔ یہ دونوں گردشیں مل کر شعور کے اندر مسلسل حرکت کی تخلیق کرتی رہتی ہیں۔ ہم طولانی حرکت کو اپنے حواس میں سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، دن، ماہ و سال اور صدیوں کی شکل میں پہچانتے ہیں اور محوری حرکت کے سلسلے کو زمین، چاند، سورج، اجرام فلکی اور نظامِ شمسی کی صورت میں جانتے ہیں۔ یہ دونوں حالتیں مل کر وقفہ کہلاتی ہیں۔
دراصل ہمارے حواس کے اندر ایک تغیّر ہوتا رہتا ہے۔ یہ تغیّر وراءِ بے رنگ، بے رنگ، یک رنگ اور کل رنگ کا مجموعہ ہے۔ واہمہ سے اس تغیّر کی شروعات ہوتی ہے۔ پھر یہ تغیّر خیال اور تصوّر کی راہیں طے کر کے محسوسات کی صورت اِختیار کر لیتا ہے۔تغیّر پھر اس ہی زینہ سے واپس آتا ہے یعنی اُسے محسوسات سے تصوّر، خیال اور واہمہ تک پلٹنا پڑتا ہے۔ واہمہ، خیال اور تصوّر یہ تینوں حالتیں طولانی حرکت کی ایک ہی سمت میں واقع ہوتی ہیں اور محسوساتی حالت محوری حرکت کی اُس ہی سمت میں واقع ہوتی ہے جس سمت میں طولانی حرکت واقع ہوتی ہے۔ اس طرح محسوسات میں زمانی اور مکانی دونوں تغیّر ایک ہی نقطہ میں واقع ہوتے ہیں۔ اس ہی نقطہ کا نام وقفہ ہے۔ وقفہ کا سلسلہ ازل سے ابد تک جاری و ساری ہے۔ مذکورہ بالا چار شعوروں کی مرکزیّتیں الگ الگ چار زندگیاں رکھتی ہیں۔ محسوسات کی مرکزیّت عالمِ ناسُوت کہلاتی ہے۔ تصوّر کی مرکزیّت نزول میں عالمِ رُؤیا، عالم واقعہ یا عالمِ تَمثال اور صَعود میں عالم ارواح یا عالم برزخ(علیین و سجین) کہلاتی ہے۔ خیال کی مرکزیّت نزول میں مُبداء اور صَعود میں حشر و نشر(جنت و دوزخ) کہلاتی ہے۔
شعور کا پہلا شعبہ جس کا نام ‘‘راح’’ لیا گیا ہے واجبُ الوجود کہلاتا ہے۔ باقی تین شعبے وجودکہلاتے ہیں۔ واجبُ الوجود میں تغیّر نہیں ہوتا لیکن وُجود میں طولانی اور محوری گردش مل کر وقفہ یا وُجود کہلاتی ہے۔ دونوں گردشوں میں پہلی گردش کائنات کے ذرّہ ذرّہ کا باہمی ربط ہے۔ اس گردش میں کائنات کا قیام اور کائناتی شعور کی کیفیات کا قیام واقع ہوا ہے۔ محوری گردش فرد کی گردش ہے۔ اس گردش کے اندر فرد کا قیام اور فرد کی کیفیات کا قیام ہے۔ لیکن فرد کی تمام کیفیات کائنات کی مجموعی کیفیات کا ایک عنصر ہوتی ہے۔ اگر ہم کسی ذرّہ کے اندر سفر کریں تو سب سے پہلے نسمۂِ مرکّب کی مکانیت(Space) ملے گی۔ یہ مکانیت محسوسات کی دنیا ہے۔ اس مکانیت کی حدوں میں فرد کا شعور رؤیت کے حواس میں ڈوبا رہتا ہے۔ گویا رؤیت بذاتِ خود حواس کا مجموعہ ہے۔ رؤیت کی مکانیت کے اندر ایک دوسری مکانیت ہے جس کو رُؤیا کہتے ہیں۔ یہ نسمۂِ مُفرد کی مکانیت فرد کی ذات کا اندرونی جسم ہے یعنی رُؤیا ایک ایسی مکانیت ہے جس کو فرد کا اندرونی جسم کہہ سکتے ہیں۔ رُؤیا کی مکانیت کے اندر بھی ایک اور مکانیت پائی جاتی ہے۔ یہ مکانیت نورِ متغیّر کا جسم ہے اور پھر اس مکانیت کے اندر غیر متغیّر نور بستا ہے۔ غیر متغیّر نور واجبُ الوجود یا صفاتِ الٰہیہ یا تجلّیِٔ ذات یا لامکان ہے۔ اس کی وسعتیں کائنات کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہیں لیکن ذاتِ باری تعالیٰ اس سے ماوراء ہے۔ البتہ جیسا کہ اوپر تذکرہ کیا جا چکا ہے یہ ذاتِ باری تعالیٰ کا وصف ہے اور قائم بالذّات ہے۔
نسمۂِ مرکّب، نسمۂِ مُفرد، نور متغیّر اور نور غیر متغیّر کے حواس الگ الگ ہیں۔ عالمِ ناسُوت میں رؤیت کے حواس غالب اور باقی حواس مغلوب رہتے ہیں۔ جس وقت فرد رُؤیا میں رہتا ہے تو اس کی توجہ رؤیت سے ہٹ کر رُؤیا میں مرکوز ہوتی ہے۔ گویا رُؤیا کے حواس غالب اور باقی شعبوں کے حواس مغلوب رہتے ہیں۔ ازل سے عالمِ ناسُوت کی پیدائش تک رُؤیا کے حواس فرد کے باقی تمام شعوروں پر غالب تھے لیکن عالمِ ناسُوت میں یہ حواس صرف نیند کی حالت میں عَوّد کرتے ہیں۔ اور بیدار ہونے کے بعد رُؤیا کے حواس مغلوب ہو جاتے ہیں۔ موت کے بعد برزخ یا اعراف میں یہ حواس ایک مرتبہ پھر باقی تمام حواس پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ شعبۂِ روح کے حواس عالم واقعہ میں بھی مغلوب تھے۔ عالم رؤیت میں بھی مغلوب ہیں اور عالمِ برزخ میں بھی مغلوب رہیں گے لیکن قیامت کے دن شعبۂ روح کے حواس باقی تمام حواس کو مغلوب کر دیں گے اور پھر مستقلاً یہی حواس غالب رہیں گے۔
رؤیت کے حواس
رؤیت کے حواس کا سب سے اہم کردار یہ ہے کہ وہ فرد کے اندر محدود رہتے ہیں۔ یہ حواس دوسرے افراد کے آثار و اَحوال معلوم نہیں کر سکتے۔ حواس کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں علیین اور سجین دو کرداروں میں بیان فرمایا ہے۔ علیین اعلیٰ کردار ہے اور سجین اسفل۔ حواس میں یہ دونوں کردار ریکارڈ ہوتے رہتے ہیں۔ عالمِ ناسُوت میں ان کرداروں کا ریکارڈ نگاہوں کے سامنے نہیں رہتا بلکہ حواس کے اندر مَخفی رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں ریکارڈوں کو کتابُ المرقوم فرمایا ہے۔ جیسے ہی انسان عالمِ ناسُوت سے منقطع ہوتا ہے، رؤیت کے حواس مغلوب ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی روح کے حواس کا غلبہ ہو جاتا ہے اور رؤیت کے ریکارڈوں میں سے ان تقاضوں کا ریکارڈ مَخفی رہتا ہے جن کا مُلکہ پیدا نہیں کیا گیا تھا۔ قیامت کے دن جب کائنات کا پہلا سفر طے ہو جائے گا تو انسان اور جنّات جو کائنات کا حاصل سفر ہیں اس لئے جمع کئے جائیں گے کہ کائنات کے دوسرے سفر کا آغاز ہو۔ اس دن ان تقاضوں کا ریکارڈ تلف کر دیا جائے گا جن کا مُلکہ پیدا نہیں کیا گیا تھا۔
حواس
ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ شعور کا ایک کردار غیر متغیّر ہے۔ یہ کردار اپنی حدوں میں ایک ہی طرز پر دیکھتا، سوچتا ، سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔ اس کردار میں کسی کائناتی ذرّہ یا فرد کے لئے کوئی امتیاز نہیں پایا جاتا۔ یہ شعور ہر ذرّہ میں ایک ہی زاویہ رکھتا ہے۔ اس ہی لامکانی شعور سے دوسرا شعور تخلیق پاتا ہے۔ ہم نے اس کو کسی جگہ حقیقتِ وارِدہ کا نام دیا ہے۔ اس شعور کی حرکت اگرچہ بہت ٹھوس ہوتی ہے تا ہم اس کا سفر خیال سے کروڑوں گنا زیادہ تیز رفتار ہے۔ لیکن جب یہ شعور ابھر کر تیسرے شعور کی سطح پر وارِد ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت کم ہو جاتی ہے۔ یہ رفتار پھر بھی روشنی کی رفتار سے لاکھوں گُنی ہے۔ یہ شعور بھی ایک نمایاں سطح کی طرف جدوجہد کرتا ہے اور اس نمایاں سطح میں داخل ہونے کے بعد عالمِ ناسُوت کے عناصر میں منتقل ہو جاتا ہے۔ عناصر کا یہ مجموعہ فرد کا چوتھا شعور ہے جو بالکل سطحی کردار رکھتا ہے۔ اس ہی لئے اس کا ٹھہراؤ اور ٹھوس پن بہت ہی کم وقفہ پر مشتمل ہے۔ یہی شعور بأعتبارِ حواس سب سے زیادہ ناقص ہے۔ اس شعور کے حواس اگرچہ ایسے تقاضوں کا مجموعہ ہیں جو زیادہ سے زیادہ جمال کی طرف مِیلان رکھتے ہیں مگر جمال کے مدارج سے کامل طور پر آگاہ نہیں۔ اس ہی واسطے اِن میں پیہم اور مسلسل خلاء پائے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی خلاؤں کو پُر کرنے کے لئے ان حواس میں ایسے تقاضے بھی موجود ہیں جن کو ضمیر کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان ہی خلاؤں کو پُر کرنے کے لئے انبیاء کے ذریعے شریعتیں نافذ کی ہیں۔ نَوعِ انسانی کی تخلیق کے پیش نظر جمال کا مُنتہیٰ صرف ایک ہو سکتا ہے اس ہی کو توحید باری تعالیٰ کہا گیا ہے۔ انبیاءِ کرام پر مُنتہیٰ وحی کے ذریعے مُنکشِف ہوتا ہے۔ انبیاء کو نہ ماننے والے فرقے توحید کو ہمیشہ اپنے قیاس میں تلاش کرتے رہے۔ چنانچہ ان کے قیاس نے غلط رہنمائی کر کے ان کے سامنے غیر توحیدی نظریات رکھے ہیں اور یہ نظریات کہیں کہیں دوسرے فرقوں کے غلط نظریات سے متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ضرور ساتھ دیتا ہے مگر پھر ناکام ہو جاتا ہے۔ توحیدی نقطۂِ فکر کے علاوہ نَوعِ انسانی کو ایک ہی طرزِ فکر پر مجتمع کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ لوگوں نے بزُعمِ خود جتنے طریقے وضع کئے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی مرحلہ میں غلط ثابت ہو کر رہ گئے ہیں۔ توحید کے علاوہ آج تک جتنے نظامہائے حکمت بنائے گئے وہ تمام یا تو اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً تمام پرانے نظامہائے فکر یا تو فنا ہو چکے ہیں یا ردّ و بدل کے ساتھ اور نئے ناموں کا لباس پہن کر فنا کے راستے پر سرگرم سفر ہیں۔ اگرچہ ان کے ماننے والے ہزار کوششیں کر رہے ہیں کہ تمام نَوعِ انسانی کے لئے روشنی بن سکیں۔ لیکن ان کی ساری کوششیں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔
آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہونگی۔ نتیجہ میں نَوعِ انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطۂِ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ تو بجُز اس نقطہ کے نَوعِ انسانی کسی ایک مرکز پر کبھی جمع نہیں ہو سکے گی۔ موجودہ دور کے مفکر کو چاہئے کہ وہ وحی کی طرزِ فکر کو سمجھے اور نَوعِ انسانی کی غلط رہنمائی سے دست کش ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے جسمانی وظیفے جداگانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام نَوعِ انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے۔ اب صرف روحانی وظائف باقی رہتے ہیں۔ جن کا مَخرج توحید اور صرف توحید ہے۔ اگر دنیا کے مفکرین جدوجہد کر کے ان وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کر سکے تو وہ اقوامِ عالم کو وظیفۂِ روحانی کے ایک ہی دائرہ میں اکٹھا کر سکتے ہیں اور وہ روحانی دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔ اس معاملہ میں تعصبات کو بالائے طاق رکھنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ مستقبل کے خوفناک تصادم، چاہے وہ معاشی ہوں یا نظریاتی،
نَوعِ انسانی کو مجبور کر دیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت لگا کر اپنی بقا تلاش کرے اور بقا کے ذرائع قرآنی توحید کے سوا کسی نظامِ حکمت سے نہیں مل سکتے۔
ہم نے یہ تذکرہ شعورِ چہارم کے ضمن میں ضروری سمجھ کر کیا ہے۔ دراصل ہمارا مدعا یہ ہے کہ رؤیت کے حواس وحی کی رہنمائی کے بغیر صحیح قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اگر ہم بقیہ تین شعوروں کو اَجمالی طور پر سمجھ لیں تو وحی کی مرکزیّت تک پہنچ سکتے ہیں۔ جب ہم علمِ نبوت کے اَجمال کو معلوم کر لیں گے تو ہماری اپنی فکر علمِ نبوت کے مقابلے میں تمام قیاِسی علوم کو مسترد کرنے پر مجبور ہو گی۔
چار شعور
کسی نہ کسی طرح انسان کو اس نظریہ پر مجتمع ہونا پڑے گا کہ یہ محسوس کائنات ہرگز ہرگز مادّی ذرّات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ صرف شعور کا ہیولیٰ ہے۔ مذکورہ بالا عبارت میں کائنات کو چار شعوروں کا مرکّب بتایا گیا ہے۔
① پہلا شعور نورِ مُفرد سے تعمیر ہوا ہے
② دوسرا شعور نورِ مرکّب سے۔
③ تیسرا شعور نسمۂِ مُفرد کی ترکیب ہے، اور
④ چوتھا شعور نسمۂِ مرکّب کی۔
ان چاروں شعوروں میں فقط چوتھا شعور عوام سے متعارف ہے۔ عوام صرف اس ہی شعور کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ بقیہ تین شعور عامتہ الناس کے تعارف سے بالاتر ہیں۔ اب تک نفسیات کے ماہرین نے شعورِ چہارم سے ہٹ کر جس چیز کا سُراغ لگایا ہے وہ شعورِ سوئم ہے جس کو یہ حضرات اپنی اِصطلاح میں لاشعور کا نام دیتے ہیں لیکن قرآنِ پاک شعورِ اوّل اور شعورِ دوئم کا تعارف بھی کراتا ہے۔ چنانچہ ان دونوں شعوروں کو بھی ہم لاشعورہی شمار کریں گے۔
اس طرح کائنات کی ساخت میں تین لاشعور پائے جاتے ہیں:
① پہلا لاشعور شعورِ اوّل،
② دوسرا لاشعور شعورِ دوئم،
③ تیسرا لاشعور شعورِ سوئم ہے۔
ان چاروں شعوروں میں اوّل شعور لامکان ہے اور باقی تین شعور مکان ہیں۔ اوّل شعور کو غیر متغیّر ہونے کی وجہ سے ‘‘لامکان’’ کہا گیا ہے۔
پہلے کائنات کے اندر موجود کسی چیز کی محوری گردش کو سمجھنا ہے اور پھر طولانی گردش کو۔
مثال:
ہم اپنی آنکھوں کے سامنے شیشہ کا ایک گلاس رکھ کر غور کریں تو گلاس کی محوری گردش کا تجزیہ حسب ذیل الفاظ میں کر سکتے ہیں۔
جب گلاس پر ہماری نگاہ پڑتی ہے تو نزول اور صَعود کے چھ دائرے طے کر جاتی ہے۔ ہمارے حواس کے اندر پہلے گلاس واہمہ کی صورت میں داخل ہوتا ہے۔ پھر یہ ہی واہمہ گلاس کا خیال بن جاتا ہے۔ بعدہٗ یہی خیال تصوّر کی شکل اِختیار کر کے احساس کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ پھر فوراً ہی احساس تصوّر میں، تصوّر خیال میں اور خیال واہمہ کے اندر منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ سارا عمل تقریباً ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصّہ میں واقع ہوتا ہے اور بار بار دَور کرتا رہتا ہے۔ اس دَور کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ ہم ہر ایک چیز کو اپنی آنکھوں کے سامنے ساکِت محسوس کرتے ہیں۔
واہمہ سے شروع ہو کر خیال، تصوّر، احساس۔۔۔ پھر تصوّر اور خیال تک نزول اور صَعود کے چھ قدم ہوتے ہیں۔ ان ہی چھ مسافتوں کو لطائف سِتّہ کہا جاتا ہے لیکن واہمہ سے احساس تک بُعد صرف چار ہوتے ہیں۔ ان چار بُعد یا چار شعوروں میں ایک شعور ہے اور تین لاشعور ہیں۔ سب سے اوّل ہمیں واہمہ سے رابطہ قائم رکھنا پڑتا ہے، پھر خیال اور تصوّر سے۔ البتہ یہ تینوں حالتیں ہمارے شعور سے بالاتر ہیں۔ فقط چوتھی حالت جس کو رؤیت کہا جاتا ہے، ہم سے متعارف ہے۔
رؤیت کا شعور باقی تین لاشعور کا مجموعہ ہے۔ ہم اوّل وراءِ کائناتی شعور سے جوغیر متغیّر ہے اپنی حیات کی ابتداء کرتے ہیں۔ یعنی:
صفاتِ الٰہیہ میں ایک فوارہ پھوٹتا ہے اور وہ فوارہ تیسرے قدم پر فرد بن جاتا ہے۔
① پہلے قدم پر فوارہ کا ہیولیٰ کائنات کی شکل میں ہوتا ہے،
② دوسرے قدم پر وہ کائنات کی کسی ایک نَوع کا ہیولیٰ بنتا ہے، اور
③ تیسرے قدم پر وہ فرد بن کر رُونما ہو جاتا ہے۔
فرد کی حالت میں لاشمار رنگوں کا ایک فوارہ وُجود میں آتا ہے۔ ان لاشمار رنگوں کی ترتیب کو احساس میں قائم رکھنا تقریباً مُحال ہے۔ اس ہی لئے شعورِ چہارم کے حواس کبھی بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔ اس ترتیب کو اکثر قیاس کے ذریعے قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ کوشش قریب قریب ناکام رہتی ہے۔ اس ہی واسطے روحانی علوم میں شعورِ چہارم پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ شعورِ سوئم میں کائنات کے ہر ذرّہ کا ربط فرد کے ذہن سے منسلک ہوتا ہے۔ کائنات میں جو کچھ تغیّرات ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں وہ فرد کے شعورِ دوئم میں مجتمع ہوتے ہیں۔ شعورِ دوئم کا ہیولیٰ ازل سے ابد تک کی کُل کائناتی فعّالیت کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ اس شعور میں وہ تمام اَجزاء پائے جاتے ہیں جو کُل مَوجودات کی اصل ہیں۔ روحانیت میں سب سے اہم ذریعۂِ اعتماد شعورِ اوّل ہے کیونکہ شعورِ اوّل میں مشئیّتِ الٰہی بے نقاب ہوتی ہے۔ تصوّف کی اِصطلاح میں حقیقتُ الحقائق اس ہی شعور کا نام ہے۔ اس ہی کو حقیقتِ محمدیہ کہتے ہیں۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام سے پیشتر کسی نبی نے اس شعور کے بارے میں تبصرہ نہیں کیا۔ درسِ عیسوی کی ابتدائیں بھی شعورِ دوئم سے ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے اس شعور کی تحقیق حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے کی ہے۔ اس ہی باعث قرآنی متصوّفین اس کو حقیقتِ محمدیہ کے نام سے پکارتے ہیں۔
انبیاءِ مرسلین کی وحی کا مُنتہیٰ شعورِ دوئم اور انبیاء کی وحی کا مُنتہیٰ شعورِ سوئم ہے۔ صرف حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام وہ نبی مرسل ہیں جن کی وحی کا مُنتہیٰ شعورِ اوّل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ‘‘اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کرتا تو کائنات کو نہ بناتا۔’’ اس ہی وجہ سے
قرآنِ پاک میں شعورِ اوّل کو علمُ القلم کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے ایک دعائے ماثورہ میں فرمایا ہے:
أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اِسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ؛ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَداً مِنْ خَلْقِكَ؛ أَوِ اسْتَأَثَرْتَ بِهٖ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ ۔
ترجمہ: میں تیری جناب میں ہر ایک ایسے اسم کا واسطہ لاتا ہوں جو تیرے اسمِ مقدس ہیں اور اُس کو تُو نے اپنے لئے مقرّر فرمایا ہے یا اُس کو تُو نے اپنی کتاب مجید میں نازل فرمایا ہے یا اپنی مخلوق سے کسی کو اس کا علم دیا یا اپنے علم میں اس کا جاننا اپنے لئے مخصوص فرمایا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 179 تا 213
لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔