بسمِ اللہِ الرّحمٰن الرّحیم
مکمل کتاب : لوح و قلم
مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=226
نوع انسانی میں زندگی کی سرگرمیوں کے پیش نظر طبائع کی مختلف ساخت ہوتی ہیں مثلاً ساخت الف، بے، پے، چے وغیرہ وغیرہ۔ یہاں زیر بحث وہ ساخت ہے جو قدم قدم چلا کر عرفان کی منزل تک پہنچاتی ہے۔
پہلے ہم ایک مادّی مثال دیتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مصوّر ہونا چاہے تو وہ تصویر کے خدوخال کو اپنی طبیعت میں رفتہ رفتہ جذب کرتا جاتا ہے۔ اس کے حافظے میں یہ بات محفوظ ہے کہ کانوں کی ساخت کے لئے پنسل کے ایک خاص وضع کے نشانات استعمال ہوں گے، آنکھوں کی ساخت کے لئے دوسری وضع کے، بالوں کی ساخت کے لئے تیسری وضع کے۔ مشق کرتے کرتے وہ انسانی جسم کے ہر عضو کی ساخت کو پنسل کے نقش کی صورت میں پوری طرح ظاہر کرنے پر قابو پا جاتا ہے۔ اب ہم اس کو مصوّر کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ کس طرح ہوا؟
اس کے ذہن میں انسانی خدوخال کا عکس موجود تھا۔ جب اس عکس کو نقل کرنے کے لئے اس نے پنسل استعمال کرنا چاہی تو وہ عکس جو اس کے ذہن میں موجود تھا بار بار اس کی راہ نمائی کرتا رہا۔ ساتھ ساتھ جس استاد نے اس کو مصوّری کا فن سکھایا وہ یہ بتلاتا گیا کہ پنسل اس طرح استعمال کی جاتی ہے اور کسی عضو کے نقش کو ترتیب دینا اس طرح عمل میں آتا ہے۔ استاد کا کام صرف اس ہی قدر تھا لیکن تصویر کا عکس استاد نے اس کے ذہن میں منتقل نہیں کیا۔ وہ اس کے باطن میں پہلے سے موجود تھا۔ دوسرے الفاظ میں ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس کی روح کے اندر نوع انسانی کے ہزار در ہزار خدوخال محفوظ تھے۔ جب اس نے ایک استاد کی رہنمائی میں ان خدوخال کو کاغذ پر نقش کرنا چاہا تو وہ تمام نُقوش جو ذہن میں موجود تھے کاغذ پر منتقل ہو گئے۔
علیٰ ہذالقیاس مادّی فنون کی اس قسم کی ہزار ہا مثالیں ہو سکتی ہیں جن سے ہم ایک ہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ انسان بالطّبع مصوّر، کاتب، درزی، لوہار، بڑھئی، فلسفی، طبیب وغیرہ وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اسے کسی خاص فن میں ایک خاص قسم کی مشق کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد اس کے مختلف نام رکھ لئے جاتے ہیں اور ہم اس طرح کہتے ہیں کہ فلاں شخص مصوّر ہو گیا، فلاں شخص فلسفی ہو گیا۔ فی الواقع وہ تمام صلاحیّتیں اور نُقوش اس کے ذہن میں موجود تھے۔ اس نے صرف ان کو بیدار کیا۔ استاد نے جتنا کام کیا وہ صرف صلاحیّت کے بیدار کرنے میں ایک امداد ہے۔
اب ہم اصل مقصد کی طرف آتے ہیں۔ جس طرح کوئی شخص مصوّر، کاتب یا فلسفی ہوتا ہے اس ہی طرح بالطّبع اپنی روح کے اندر ایک عارف، ایک روحانی انسان، ایک ولی، ایک خداشناس، ایک پیغمبر خاص قسم کے روحانی نُقوش اور خاص قسم کی روحانی صلاحیّتیں لئے ہوتا ہے (یہاں کوئی پیغمبر زیر بحث اس لئے نہیں کہ پیمبری ختم ہو چکی ہے۔ صرف روحانی انسان، اس کا نام کچھ بھی ہو، ہمارا مطمعِ نظر ہے)۔ اب ہم صلاحیّتوں کا ذکر الف سے شروع کرتے ہیں۔
الف: ایک انسان کیا ہے؟ ہم اس کو کس طرح پہچانتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں؟
ہمارے سامنے ایک مُجسّمہ ہے جو گوشت پوست سے مرتب ہے۔ طبی نقطۂِ نظر سے ہڈیوں کے ڈھانچے پر رگ پٹھوں کی بناوٹ کو ایک جسم کی شکل و صورت دی گئی ہے۔ ہم اس کا نام جسم رکھتے ہیں۔ اور اس کو اصل سمجھتے ہیں۔ اس کی حفاظت کے لئے ایک چیز اِختراع کی گئی ہے جس کا نام لباس ہے۔ یہ لباس سُوتی کپڑے کا، اُونی کپڑے کا یا کسی کھال وغیرہ کا ہوا کرتا ہے۔ اس لباس کا محلِ استعمال صرف گوشت پوست کے جسم کی حفاظت ہے۔ فی الحقیقت اس لباس میں اپنی کوئی زندگی یا اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے تو جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔ یعنی اس کی حرکت جسم سے منتقل ہو کر اس کو ملی۔ لیکن درحقیقت وہ جسم کے اعضاء کی حرکت ہے۔ جب ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں تو آستین بھی گوشت پوست کے ہاتھ کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ یہ آستین اس لباس کا ہاتھ ہے جو لباس جسم کی حفاظت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس لباس کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جب یہ لباس جسم پر ہے تو جسم کی حرکت اس کے اندر منتقل ہو جاتی ہے اور اگر اس لباس کو اتار کر چارپائی پر ڈال دیا جائے یا کھونٹی پر لٹکا دیا جائے تو اس کی تمام حرکتیں ساقِط ہو جاتی ہیں۔ اب ہم اس لباس کا جسم کے ساتھ مَوازانہ کرتے ہیں۔ اس کی کتنی ہی مثالیں ہو سکتی ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال دے کر صحیح مفہوم ذہن نشیں ہو سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مر گیا۔ مرنے کے بعد اس کے جسم کو کاٹ ڈالئے، ٹکڑے کر دیجئے، گھسیٹئے، کچھ کیجئے۔ جسم کی اپنی طرف سے کوئی مدافعت، کوئی حرکت عمل میں نہیں آئے گی۔ اس مُردہ جسم کو ایک طرف ڈال دیجئے تو اس میں زندگی کا کوئی شائبہ کسی لمحہ بھی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کو جس طرح ڈال دیا جائے گا، پڑا رہے گا۔ اس کے معانی یہ ہوئے کہ مرنے کے بعد جسم کی حیثیت صرف لباس کی رہ جاتی ہے۔ اصل انسان اس میں موجود نہیں رہتا۔ وہ اس لباس کو چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے۔ جب مشاہدات اور تجربات نے یہ فیصلہ کر دیا کہ گوشت پوست کا جسم لباس ہے، اصل انسان نہیں تو یہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا کہ اصل انسان کیا ہے اور کہاں چلا گیا؟
اگر یہ جسم اصل انسان ہوتا تو کسی نہ کسی نوعیت سے اس کے اندر زندگی کا کوئی شائبہ ضرور پایا جاتا لیکن نوعِ انسانی کی مکمل تاریخ ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتی کہ کسی مُردہ جسم نے کبھی کوئی حرکت کی ہو۔
اس صورت میں ہم اس انسان کا تجسّس کرنے پر مجبور ہیں جو جسم کے اس لباس کو چھوڑ کر کہیں رخصت ہو جاتا ہے۔ اس ہی انسان کا نام انبیاءِ کرامؑ کی زبان میں روح ہے اور وہی انسان کا اصلی جسم ہے۔ نیز یہی جسم ان تمام صلاحیّتوں کا مالک ہے جن کے مجموعے کو ہم زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
ذرا زندگی کے مختلف شعبوں اور زاویوں میں یہ تلاش کیجئے کہ وہ حالت جس کا نام موت یا مُردہ ہو جانا ہے ہمیں کہیں ملتی ہے یا نہیں۔ اگر یہ حالت قطعی طور پر زندگی کے کسی مرحلے میں انسان پر طاری نہیں ہوتی تو پھر یہ تلاش کرنا چاہئے کہ اس سے ملتی جلتی حالت کسی وقفہ میں طاری ہوتی ہے یا نہیں۔
اس کا جواب بہت آسان ہے۔ انسان روز سوتا ہے اور سونے کی حالت میں اس کا جسم ایک خاص وقفہ کے اندر بالکل لباس کی نوعیت اِختیار کر لیتا ہے۔ اس بات کی تشریح ہم اس طرح کر سکتے ہیں کہ ایک انسان جب گہری نیند میں ہوتا ہے، ایسی گہری نیند میں کہ وہ صرف سانس لے رہا ہے۔ سانس لینے کے علاوہ زندگی کا کوئی اثر اس میں نہیں پایا جاتا۔ نہ اس کے کسی عضو میں حرکت ہے، نہ اس کا دماغ کسی طرح کا ہوش رکھتا ہے۔ یہ حال چاہے دو منٹ کے لئے طاری ہو، دس منٹ کے لئے ہو یا ایک گھنٹہ کے لئے۔ کسی نہ کسی وقت ہوتا ضرور ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ انسان کا جسم سانس لے رہا ہے یعنی اس کے اندر زندگی کا ایک اثر باقی ہے مگر اور آثار زائل ہو چکے ہیں۔ اس حالت کو ہم کسی حد تک موت سے ملتی جلتی حالت کہہ سکتے ہیں۔
جس کو ہم خواب دیکھنا کہتے ہیں ہمیں روح اور روح کی صلاحیّتوں کا سُراغ دیتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہم سوئے ہوئے ہیں۔ تمام اعضا بالکل معطّل ہیں۔ صرف سانس کی آمد و شد جاری ہے لیکن خواب دیکھنے کی حالت میں ہم چل پھر رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں، سوچ رہے ہیں، غم زدہ اور خوش ہو رہے ہیں۔ کوئی کام ایسا نہیں ہے کہ جو ہم بیداری کی حالت میں کرتے ہیں اور خواب کی حالت میں نہیں کرتے۔
کوئی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ خواب دیکھنا صرف ایک خیالی چیز ہے اور خیالی حرکات ہیں، کیونکہ جب ہم جاگ اٹھتے ہیں تو کئے ہوئے اعمال کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ یہ بات بالکل لایعنی ہے۔ ہر شخص کو زندگی میں ایک ،دو،چار،دس،بیس ایسے خواب ضرور نظر آتے ہیں کہ جاگ اٹھنے کے بعد یا تو اسے نہانے اور غُسل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے یا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھنے کے بعد اس کا پورا خوف اور دہشت دل و دماغ پر مسلط ہو جاتا ہے یا جو کچھ خواب میں دیکھا ہے وہی چند گھنٹے، چند دن یا چند مہینے یا چند سال بعد مِن و عَن بیداری کی حالت میں پیش آتا ہے۔ ایک فردِ واحد بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنی زندگی میں اس طرح کا ایک خواب یا ایک سے زائد خواب نہ دیکھے ہوں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس بات کی تردید ہو جاتی ہے کہ خواب محض خیالی حیثیت رکھتا ہے۔ جب یہ مان لیا گیا کہ خواب محض خیال نہیں ہے تو خواب کی اہمیّت واضح ہو جاتی ہے۔
اب ہم بیداری کے اعمال اور واقعات نیز خواب کے اعمال اور واقعات کو سامنے رکھ کر دونوں کا موازنہ کرتے ہیں۔
یہ روزمرہ ہوتا ہے کہ ہم گھر سے چل کر بازار پہنچ گئے۔ کسی ایک خاص دکان پر کھڑے ہیں اور ایک سودا خرید رہے ہیں۔ اگر اس وقت کوئی شخص ہم سے یہ سوال کرے کہ دکان پر پہنچنے تک راستے میں آپ نے کیا کیا دیکھا تو ہم مجبوراً یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے کچھ خیال نہیں کیا۔ بات یہ معلوم ہوئی کہ بیداری کی حالت میں ہمارے ارد گرد جو کچھ ہوتا ہے اگر ہم پوری طرح متوجّہ نہ ہوں تو کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ کیا ہوا، کس طرح ہوا اور کب ہوا؟
اس مثال سے یہ تحقیق ہو جاتا ہے کہ بیداری ہو یا خواب، جب ہمارا ذہن کسی چیز کی طرف یا کسی کام کی طرف متوجّہ ہے تو اس کی اہمیّت ہے ورنہ بیداری اور خواب دونوں کی کوئی اہمیّت نہیں ہے۔ بیداری کا بڑے سے بڑا وقفہ بے خیالی میں گزرتا ہے۔ اور خواب کا بھی بہت سا حصّہ بے خبری میں گزر جاتا ہے۔ کتنی ہی مرتبہ خواب کی بڑی اہمیّت ہوتی ہے اور کتنی ہی مرتبہ بیداری کی بھی کوئی اہمیّت نہیں ہوتی۔ پھر کیونکر مناسب ہے کہ ہم خواب کی حالت اور خواب کے اَجزاء کو جو زندگی کا نصف حصّہ ہے نظر انداز کردیں۔
آیئے! خواب کے اَجزاء، خواب کی اہمیّت اور خواب کی حقیقت تلاش کریں۔
فرض کیجئے کہ ایک مضمون نگار مضمون لکھنے بیٹھتا ہے۔ اس کے ذہن میں صرف عنوان ہے۔ نہ مضمون کے اَجزاء ترتیبی ہیں، نہ تفصیل ہے مگر جس وقت قلم ہاتھ میں اٹھا کر وہ لکھنا شروع کرتا ہے تو مضمون کے اَجزاء بالتّرتیب اور بالتّفصیل ذہن میں آنے لگتے ہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبارت کا مفہوم لکھنے والے کے تحتِ لاشعور میں پہلے سے موجود تھا۔ وہاں سے یہ مفہوم لاشعور یعنی ذہن میں منتقل ہوا اور الفاظ کا لباس پہن کر کاغذ پر منتقل ہو گیا۔ یہ مضمون مفہوم کی حیثیت میں جہاں موجود تھا اس کا نام ثابِتہ ہے جس کو ماہرین تحتِ لاشعور کہہ سکتے ہیں۔ پھر یہی مفہوم منتقل ہو کر اَعیان میں آیا۔ یعنی لاشعور میں داخل ہوا۔ آخر میں یہی مفہوم عبارت کی شکل و صورت اِختیار کر لیتا ہے۔ ہم اِسی حالت کو جَویَّہ میں منتقل ہونا کہتے ہیں اور عام لوگ مفہوم کی اس منتقلی کو شعور میں آنے کا نام دیتےہیں۔
اب ہم ان صلاحیّتوں کا تذکرہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں جو خواب یعنی رُؤیا کے نام سے رُوشناس ہیں۔ چنانچہ عالم خواب میں انسان کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ روح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی حرکت کرتی اور چلتی پھرتی ہے۔ روح کی یہ صلاحیّت جو صرف رُؤیا میں کام کرتی ہے، ہم کسی خاص طریقے سے اس کا سُراغ لگا سکتے ہیں اور اس صلاحیّت کو بیداری میں استعمال کر سکتے ہیں۔ انبیاء علیھمُ السّلام کا علم یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اور یہی وہ علم ہے جس کے ذریعے انبیاءِ کرام نے اپنے شاگردوں کو یہ بتایا ہے کہ پہلے انسان کہاں تھا اور اس عالمِ ناسُوت کی زندگی پوری کرنے کے بعد وہ کہاں چلا جاتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 7 تا 14
لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔