یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
برقی نظام
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12133
مادے کے اندر تفکر کیا جاتا ہے تو مادی قوانین اور مادی خصوصیات معلوم ہوتی ہیں۔ جب ہمارا ذہن مادے کی گہرائی میں جستجو کرتا ہے تو ایسی دنیا کا پتہ چلتا ہے جو مادیت کی بنیاد ہے۔ اس کو ہم لہروں کی دنیا یا روشنی کی دنیا کہہ سکتے ہیں۔ سائنس دانوں نے مادے کے اجزائے ترکیبی تلاش کئے تو ایٹم اور ایٹم کے ذرات سامنے آئے۔ ایٹمی ذرات میں الیکٹران کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں کہ وہ دوہری خصوصیات کا مالک ہے۔ ایک طرف مادی ذرہ ہے تو دوسری طرف لہر ہے۔ ایٹم کے اندر موجود لہروں کا نظام روشنی کی دنیا کا سراغ دیتا ہے چنانچہ ہم اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتے ہیں۔ وہ ایک طرف مادی تشخص رکھتا ہے اور دوسری طرف روشنی کا ہیولا ہے۔ روشنی کے ہیولے میں جو تحریکات پیدا ہوتی ہیں۔ اسی کے مطابق مادی تشخص میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ سائنسی اصول کے مطابق اگر الیکٹران اور پروٹان کی تعداد میں تبدیلی کر دی جائے۔ تو ایٹم اپنی ماہیت تبدیل کر دیتا ہے۔ نیوکلیائی عمل میں یورینیم عمل انشقاق کے بعد پلوٹونیم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ گویا وہ ایٹمی ذرات جو لہروں کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں تبدیلی واقع ہو جائے تو عنصر شکل بدل لیتا ہے۔ روشنی کی دنیا میں تبدیلی واقع ہوتی ہے تو مادی تشخص میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ جس طرح ہر مادی وجود کے ساتھ برقی رو کا نظام کام کرتا ہے اسی طرح انسان کے اندر بھی برقی نظام کارفرما ہے۔ روحانی سائنس کے مطابق انسان محض گوشت پوست، ہڈیوں اور خون سے مرکب ایک پُتلا نہیں بلکہ خاکی وجود کے اندر نوری جوہر بھی ہے اور یہی نوری جوہر اس کی اصل ہے۔ جوہر برقی رو یا کرنٹ ہے۔
جنریٹر:
انسان کے اندربنیادی طور پر تین جنریٹر کام کرتے ہیں۔ یہ جنریٹر تین طرح کے کرنٹ پیدا کرتے ہیں۔ ان تینوں کرنٹ کے مجموعے کا نام انسان ہے۔
مثال:
شمع یا شمع کی لو تین اجزاء کا مرکب ہے۔
1۔ شعلے کا رنگ
2۔شعلے کا اجالا اور
3۔ گرمی جو شمع کے جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔
جب ہم لفظ شمع کہتے ہیں تو اس سے مراد تینوں اجزاء کی اجتماعی شکل و صورت ہوتی ہے۔ ان تینوں میں سے کسی ایک کو بھی شمع کے وجود سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
شمع کی طرح انسان کے حواس بھی تین برقی رو کے تابع ہیں۔ تمام خیالات، تصورات اور احساسات، چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی، ٹھوس ہوں یا لطیف، برقی رو کی مختلف ترکیبوں سے تشکیل پاتے ہیں۔
ان تینوں جنریٹروں کو ایک مرکزی پاور اسٹیشن کنٹرول کرتا ہے۔ جسے امر، روح یا تجلی کہتے ہیں۔
جنریٹر نمبر 1سے پیدا ہونے والا کرنٹ نہایت لطیف اور تیز رفتار ہے اس کی قوت (Potential) بھی ناقابل بیان حد تک زیادہ ہے۔ یہ اپنی تیز رفتاری کی بناء پر ذہن کو کائنات کے تمام گوشوں سے منسلک رکھتا ہے۔ رفتار کے تیز ہونے کی وجہ سے اس کرنٹ کا عکس انسانی دماغ کی اسکرین پر بہت دھندلا پڑتا ہے۔ اس عکس کو واہمہ کہتے ہیں۔ تمام احساسات اور تمام علوم کی ابتداء واہمہ سے ہوتی ہے۔ لطیف ترین خیال کا نام واہمہ ہے جسے صرف ادراک کی گہرائیوں میں محسوس کیا جاتا ہے۔ واہمہ گہرا ہو کر خیال بن جاتا ہے۔
جنریٹر نمبر 1سے پیدا ہونے والے کرنٹ کے دو حصے ہیں۔ ایک زیادہ طاقت کا حامل اور دوسرا کم طاقت رکھنے والا۔ ایک ہی برقی رو پہلے تیز رفتار ہوتی ہے او ربعد میں اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ طاقتور یا تیز رفتار کرنٹ کائنات کا شعور یا کائنات کا ریکارڈہے اور کم طاقت کا حامل کرنٹ واہمہ کہلاتا ہے۔
جنریٹر نمبر 2سے بھی دو طرح کی برقی رو پیدا ہوتی ہے ایک منفی اور دوسری مثبت۔ منفی لہر واہمہ میں داخل ہوتی ہے تو واہمہ خیال بن جاتا ہے۔ خیال واہمہ کی تفصیلی صورت ہے۔ لیکن یہ بھی نگاہ سے پوشیدہ رہتا ہے۔ خیال پر مثبت کرنٹ غالب آ جائے تو وہ تصور میں ڈھل جاتا ہے۔ خیال میں خدوخال پیدا ہو جائیں تو اسے تصور کہتے ہیں۔ تصور ایسا خاکہ ہے جسے نگاہ تو نہیں دیکھتی لیکن ذہن شکل و صورت کا احاطہ کر لیتا ہے۔
جنریٹر نمبر 3کی برقی رو کا کام احساسات کو گہرائی بخشناہے۔ یہ برقی رو موج کی شکل رکھتی ہے۔ یعنی اس کی ایک حرکت اوپر کی طرف اور دوسری نیچے کی جانب ہوتی ہے۔ باالفاظ دیگر یہ دو حرکات، دو طرح کے احساسات ذہن کو عطا کرتی ہیں۔ اوپر کے رخ حرکت یا صعودی حرکت احساسات میں رنگینی ہے۔ اس حرکت میں تصور اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ آدمی بے اختیار عمل کی طرف کھنچنے لگتا ہے۔ نزولی حرکت یا نیچے کی حرکت عمل یا مظاہرہ ہے۔
امر یا تجلی میں کائنات کا مجموعی علم ریکارڈ کی صورت میں موجود ہے۔ یہ ریکارڈ حرکت میں آ کر واہمہ بن جاتا ہے۔ اس حرکت کو کرنٹ نمبر1کہا گیا ہے۔
کرنٹ نمبر 2کی منفی لہر واہمہ کو خیال کی شکل و صورت عطا کرتی ہے اور خیال کے ذریعے تمام مخلوقات ایک رشتے میں بندھی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مخلوقات میں تقاضے مشترک ہیں مثلاً بھوک، پیاس، رنج، غصہ، بقائے نسل کا جذبہ وغیرہ۔
کرنٹ نمبر 2کی مثبت لہر انسان کو اپنی نوع کے تصورات سے آشنا کرتی ہے۔
کرنٹ نمبر 3کا نزولی رخ احساسات میں ٹھوس پن ہے اور صعودی رخ احساسات میں رنگینی ہے۔ صعودی رخ میں آدمی کے تمام احساسات جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر کے زمان و مکان سے آزا دہو جاتے ہیں۔ نزولی رخ میں آنکھ، کان، ناک، ہاتھ پاؤں کے ذریعے حواس کا مظاہرہ ہوتا ہے اور صعودی رخ میں بصارت، سماعت، گفتار اور لمس کی صلاحیتیں اعضاء کے بغیر کام کرتی ہیں۔
آدمی کے ذہن سے تینوں کرنٹ گزرتے ہیں اور وہ بیک وقت تینوں کیفیات میں سفر کرتا ہے لیکن جس کرنٹ کا عکس ذہن کی اسکرین پر گہرا ہوتا ہے، آدمی اسی کی خصوصیات میں خود کو متحرک دیکھتا ہے۔ اگر کرنٹ نمبر 3پر کرنٹ نمبر2یا کرنٹ نمبر1کا (Sensation) غالب آ جائے تو آدمی تصور، خیال اور واہمہ کی رفتار سے سفر کرنے لگتا ہے اور یہ تمام مخفی اطلاعات تصویری فلم کی صورت میں سامنے آجاتی ہیں۔
مراقبہ کی مشق سے کرنٹ نمبر 2اور کرنٹ نمبر3کی طاقت بڑھنے لگتی ہے۔ طاقت بڑھنے سے مراد یہ ہے کہ دماغ کا رسیور ان اطلاعات کو زیادہ بہتر وصول کرنے لگتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 57 تا 61
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔