یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
اپنا عرفان
مکمل کتاب : تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=5295
عرفان نفس ، معرفت الہٰیہ کا دروازہ انسان پر کھول دیتا ہے اور عرفان نفس کے حصول کے سلسلے میں اہل روحانیت کو جس مدارج سے گزرنا پڑتا ہے ان میں سب سے پہلا درجہ ’’لا‘‘ ہے۔ یعنی سب سے پہلے انسان کو اپنی روایتی معلومات اور شعوری علم کی نفی کرنی پڑتی ہے اور پھر اس کے بعد روحانیت کے اسی راستے پر چلتے ہوئے انسان ایسے درجے پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس پر اپنی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے ۔ یعنی نفس کا عرفان حاصل ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے سالک کو ایک معیّنہ اور مقررہ راستے پر سفر کرنے کے لئے شیخ یا مرشد کی رہنمائی لازمی ہے۔ ذیل میں اسی مضمون سے متعلق شیخ طریقت ، مخزن علم و آگاہی حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کا ارشاد رقم کیا جارہا ہے۔
صحیح بات سمجھنے کے لئے جو کچھ ہمارے ذہن میں پہلے سے موجود ہے اس کو آئندہ کے لئے بالکل بھلا دیا جائے۔ بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ انسان کیا ہے؟ انسان صرف خیالات کی لہریں ایک ترتیب میں جمع ہوجانے کا نام ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ایک دریا بہہ رہا ہے۔ اس کا پانی جب تک دونوں کناروں کے بیچ میں بہتا رہتا ہے، اس وقت تک انسانی احساس کو یہ نہیں معلوم ہو تاکہ پانی کی لہروں میں کیا کیا چیزیں بہتی چلی جارہی ہیں ۔ایک حالت میں دریا کے اندر طوفان آجاتا ہے پانی کناروں سے باہر اچھلنے لگتا ہے ۔ اب انسانی احساس کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ کچھ خیالات پر اگندہ قسم کے ابتر، بے ترتیب اور تقریباً بے معنی ادھر سے یورش کرتے چلے آرہے ہیں ۔ انسان ان تمام خیالات کے معنی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ بلکہ گزرتا رہتا ہے۔ گزرنے کی وجہ خاص طور سے یہ ہوتی ہے کہ وہ ان خیالات میں ترتیب قائم نہیں کرسکتا۔
خیالات کی دوسری قسم ایک اور بھی ہے۔ وہ قسم یہ ہے کہ انسانی احساس دریا کے پانی میں بہتی ہوئی چند چیزیں اٹھا تا رہتا ہے ۔ اور ان کو ایک خاص پیرائے میں مرتب کرلیتا ہے۔ اس ترتیب سے جو مفہوم نکلتا ہے اس کو وہ اپنی تصنیف قرار دے دیتا ہے ۔ یہی وہ کام ہے جس کو دنیا کے ذہین اور ذی ہوش انسان کسی خاص علم یااختراع کا نام دیتے ہیں ۔
خیالات کی اور قسموں سے یہاں بحث کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس لئے ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔انسان کے اندر دوقسم کے خیالات کام کررہے ہیں ۔
۱۔ وہ خیالات جو دریا کے طوفانی ہونے سے کناروں سے باہر اچھل جاتے ہیں ۔
۲۔ وہ خیالات جن کو انسانی شعور اپنی مطلب برآری کے لئے انتخاب کرتا ہے ۔
دریا کا ماخذ کیا ہے؟ دریا میں طوفان کیوں آتا ہے ؟ انسانی شعور بہتی ہوئی چیزوں میں سے کچھ نہ کچھ چیزیں جو ا س کے ہاتھ آتی رہتی ہیں کیوں اٹھاتا رہتا ہے؟ انسانی سائنس کے علوم اب تک اس بات سے واقف نہیں ہوسکے ہیں حالاں کہ وہ کئی صدیوں سے نفسیات کے میدان میں اس قسم کی تلاش کررہے ہیں ۔ جو سوالات اوپر کئے گئے ہیں ان کے جوابات آسمانی صحائف میں تلاش کئے جاسکتے ہیں ۔جب انسان دوحصوں میں تقسیم ہوگیا تو اس کو دو یونٹ کی حیثیت دی جائیگی۔ ایک یونٹ وسیع تریونٹ ہے اور اسی یونٹ کی رسائی دریا کے مخرج تک ہے۔ دوسرا یونٹ محدود تر ہے ۔ اس یونٹ کا تمام کارنامہ ماضی کے متعلق جاننا اور ماضی کو حافظے میں رکھنا ہے۔
یہی یونٹ انسانی شعور کی ساری حدود کا احاطہ کرتا ہے۔
مندرجہ بالا سطور میں حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے لاشعور کو وسیع تر یونٹ اور شعور کو محدود تر یونٹ کا نام دیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ لاشعور کی رسائی دریا کے ماخذ تک ہے۔ یہی وہ منبع اور ماخذ ہے جہاں سے ہر لمحہ اور ہر آن پوری کائنات کو زندگی کی تحریکات ملتی ہیں۔ اسی منبع کی بنیاد (BASE) اَمِرربانی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 88 تا 90
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔