اِدراک کیا ہے؟
مکمل کتاب : لوح و قلم
مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2947
اللہ تعالیٰ کا عرش پر متمکن ہونا اور رگِ جاں سے قریب ہونا….. دونوں ارشادات میں مشترک مفہوم تلاش کرنا پڑے گا۔ فی الواقع یہ اِدراک ہی کے دو اندازے ہیں۔ پہنائی میں اِدراک کرنا تو انسانی تصوّر کو لاتناہیت کے بُعد میں لے جاتا ہے۔ اس ہی بُعد کو اللہ تعالیٰ نے عرش فرمایا ہے۔ گہرائی میں اِدراک کرنا انسانی شعور کے قرب میں پہنچاتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے رگِ جاں سے اقرب فرمایا ہے۔ یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ لاتناہیت کا بُعد اور لاتناہیت کا قرب ہم معنی اور مترادف مفہوم پیدا کرتے ہیں۔ یہ دونوں مقامات دراصل ایک ہیں۔ صرف اِدراک کے اندازے الگ الگ ہیں۔ اِدراک ایک طرف پہنائی میں سفر کر کے عرش تک پہنچاتا ہے، دوسری طرف گہرائی کی مسافتیں طے کر کے رگِ جاں کے اقرب میں جذب ہو جاتا ہے۔ دونوں طرح اللہ تک پہنچنا ہے۔ پہلا اِدراک تسوید اور دوسرا اِدراک تظہیر ہے۔ اب دو اِدراک تجرید اور تشہید باقی رہے۔ تجرید تسوید کا دوسرا رخ ہے۔ ہر بلندی کی ایک پستی ہے اور ہر پستی کی ایک بلندی۔ چنانچہ تسوید کا پست رخ تجرید ہے اور تظہیر کا بلند رخ تشہید ہے۔ یہ دونوں رخ کائنات کی ان حدوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو ماوراءِ کائنات سے جا ملتی ہیں۔ اس مفہوم کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
‘‘اللہ بلندیوں اور پستیوں کا نور ہے۔ جیسے طاق، اس میں قندیل اور قندیل کے اندر چراغ رکھا ہو۔ یہ مقدس تیل کا چراغ بغیر کسی ظاہری روشنی کے روشن ہے، جس کی روشنی نور اندر نور ہر سمت سے آزاد ہے۔’’
جب پہنائی تلاش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی صفات نور در نور ملیں گی۔ ان ہی چار اِدراک کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔ سیاہ نقطہ کا تذکرہ آ چکا ہے۔ اس ہی نقطہ سے چاروں اِدراک کا سرچشمہ ابلتا ہے۔ اس مقام پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ آخر اِدراک ہے کیا؟ اِدراک زمان ہے۔ یہی اِدراک سیکنڈ کی کم سے کم کسر ہے۔ ہم سمجھنے کے لئے کھربواں حصّہ کہہ سکتے ہیں یا اس سے بھی کوئی چھوٹا حصّہ جو ہمارے خیال میں آ سکتا ہو۔ دوسری طرف طویل سے طویل وقفہ جسے نَوعِ انسانی کی ذہنی پرواز شمار کر سکتی ہو۔ یہ دونوں اِدراک ہیں اور سیاہ نقطہ کی صفات ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے وقفوں کی مشاہداتی مثال ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم کا حادثہ ہے۔
ایک سیکنڈ کی فنا کھربوں سال کی بقاء
وہ پہاڑیاں جو ماہرین ارضیات کے بقول کھربوں سال میں بنی تھیں، ایک سیکنڈ کے اندر اس طرح فنا ہو گئیں کہ اس کے آثار تک ختم ہو گئے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ایک سیکنڈ کی فنا نے کھربوں سال کی بقا کو اپنے اندر جذب کر لیا۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ ایک سیکنڈ نے کھربوں سال کا احاطہ کر لیا۔ کھربوں سال کا روپ وہ پہاڑیاں تھیں اور ایک سیکنڈ کا روپ ان پہاڑیوں کا خاتمہ۔
اِسی طرح سیاہ نقطہ کے ایک سیکنڈ کا کھربواں حصّہ ازل سے ابد تک محیط ہے۔ لیکن ہم جس اِدراک کو استعمال کرنے کے عادی ہیں وہ سیکنڈ کے کھربویں حصّہ کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ جو اِدراک سیکنڈ کے کھربویں حصّہ کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اس کا تذکرہ سورۂ قدر میں ہے۔
ترجمہ: ہم نے اتارا شب قدر میں اور تو کیا بوجھا ہے شب قدر؟ شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے سے۔ اترتے ہیں فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ امان ہے وہ رات صبح کے نکلنے تک۔
شب قدر وہ رات ہے جس میں سیاہ نقطہ کے اِدراک کا نزول ہوتا ہے۔ یہ اِدراک عام شعور سے ستر ہزار گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ ایک رات کو ایک ہزار مہینے سے ستر ہزار گنے کی مناسبت ہے۔ اس اِدراک سے انسان کائناتی روح کا،فرشتوں کا اور ان امور کا جو تخلیق کے راز ہیں مشاہدہ کرتا ہے۔
تصوّف میں اس اِدراک کو فتح کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ فتح میں انسان ازل سے ابد تک معاملات کو بیداری کی حالت میں چل پھر کر دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ کائنات کے بعید ترین فاصلوں میں اجرام سماوی کو بنتا اور عمر طبَعی کو پہنچ کر فنا ہوتے دیکھتا ہے۔ لاشمار کہکشانی نظام اس کی آنکھوں کے سامنے تخلیق پاتے ہیں۔ اور لاحساب دَورِ زمانی گزار کر فنا ہوتے نظر آتے ہیں۔ فتح کا ایک سیکنڈ بعض اوقات ازل تا ابد کے وقفے کا محیط بن جاتا ہے۔
اِدراک کیا ہے؟
زید کہتا ہے کہ میں نے اخبار پڑھا، میں نے خط لکھا، میں نے کھانا کھایا۔ اخبار کس نے پڑھا، خط کس نے لکھا، کھانا کس نے کھایا؟ زید نے۔ یہ سب کچھ زید نے کِیا۔ مگر یہ سب کچھ بیان کرنے والا، سمجھنے والا زید کا ذہن ہے۔ زید نے کیا کِیا اس کا جاننے والا صرف زید کا ذہن ہے۔ جاننے کی نوعیت اطّلاع سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اخبار پڑھنا، خط لکھنا وغیرہ وغیرہ اطّلاعات ہیں۔ جب ہم ان اطّلاعات سے قطع نظر کرتے ہیں تو زید کون ہے، زید نے کیا کِیا ہے سب بے معنی ہے ۔ حقیقت اتنی ہے کہ زید کے ذہن کو اطّلاعات موصول ہوئیں۔ یہاں دو ایجنسیاں قابل ذکر ہیں۔ اطّلاعات اور ذہن۔ اطّلاع دینے والا بھی ذہن ہے۔ اور اطّلاعات وصول کرنیوالا بھی۔
ایک ہی یونٹ ہے جس کے دو رخ ہیں۔ ذہن کہتا ہے فنا ہونے والی پہاڑیوں کی عمر دو کھرب سال ہے۔ یہ ایک اطّلاع ہے۔ اگر ایک سال کو ایک یونٹ قرار دیا جائے تو دو کھرب سال کو دو کھرب یونٹ کہا جائے گا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اِدراک نے ایک احساس کو دو کھرب حصّوں پر تقسیم کر دیا۔ یہ ایک اطّلاع ہے لیکن اس کی طوالت دو کھرب سال کا زمانہ ہے۔ جب یہ اطّلاع ملی تو سننے والے ذہن نے عملاً دو کھرب سال کی طوالت کا احساس کیا۔ گویا اِدراک کے ایک سیکنڈ میں دو کھرب سال کا پیمانہ موجود ہے۔ دو کھرب سال کب گزرے، کس نے گزارے، کس طرح گزرے یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔ یہ محض اطّلاع ہے۔ ایسی اطّلاع جس کے اِدراک کی طوالت ایک سیکنڈ سے زیادہ نہیں۔ ہمارے علم میں صرف ذہن ہی ایک ایجنسی ہے جس کو کائنات کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا:
’’God Said Light and There Was Light‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا روشنی اور روشنی ہو گئی۔ قرآنِ پاک کے الفاظ میں کُنْ فَیَکُوْن ہو جا اور ہو گیا۔ جب ہماری نظر کسی کتاب کے الفاظ پر پڑتی ہے تو گویا روشنی پڑتی ہے۔ کیونکہ ہم روشنی کے علاوہ کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔ جب ہم کتاب پڑھتے ہیں تو روشنی پڑھتے ہیں اور جو کچھ سمجھتے ہیں روشنی سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جب ہم روشنی پڑھیں گے تو روشنی سمجھیں گے۔ اور جو کچھ ہم سمجھ رہے ہیں وہ محض اطّلاع ہے۔ اب کہنا پڑے گا کہ روشنی اور اطّلاع ایک ہی چیز ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اطّلاع کا محلِ وقوع کیا ہے۔ اگر ہم محلِ وقوع کا پتہ چلا سکیں تو زمان و مکان (Time and Space) کو سمجھ لیں گے۔ ماہر فلکیات کہتے ہیں کہ ہمارے نظامِ شمسی سے الگ کوئی نظام ایسا نہیں جس کی روشنی ہم تک چار برس سے کم عرصہ میں پہنچتی ہو۔ وہ ایسے ستارے بھی بتاتے ہیں جن کی روشنی ہم تک ایک کروڑ سال میں پہنچتی ہے۔ تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم اس سیکنڈ میں جس ستارے کو دیکھ رہے ہیں وہ ایک کروڑ سال پہلے کی ہیئیّت ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ موجودہ لمحہ ایک کروڑ سال پہلے کا لمحہ ہے۔ یہ غور طلب ہے کہ ان دونوں لمحوں کے درمیان جو ایک اوربالکل ایک ہیں، ایک کروڑ سال کا وقفہ ہے۔ یہ ایک کروڑ سال کہاں گئے؟ معلوم ہوا کہ یہ ایک کروڑ سال فقط طرز اِدراک ہیں۔ طرز اِدراک نے صرف ایک لمحہ کو ایک کروڑ سال پر تقسیم کر دیا ہے جس طرح طرز اِدراک گزشتہ ایک کروڑ سال کو موجودہ لمحہ کے اندر دیکھتی ہے، اس ہی طرح طرز اِدراک آئندہ ایک کروڑ سال کو موجودہ لمحہ کے اندر دیکھ سکتی ہے۔ اس طرح یہ تحقیق ہو جاتا ہے کہ ازل سے ابد تک تمام وقفہ فقط ایک لمحہ ہے جس کو طرز اِدراک نے ازل سے ابد تک کے مراحل پر تقسیم کر دیا ہے۔ ہم اس ہی تقسیم کو مکان (Space) کہتے ہیں۔ گویا ازل سے ابد تک کا تمام وقفہ مکان ہے اور جتنے حوادث کائنات نے دیکھے ہیں وہ سب ایک لمحہ کی تقسیم کے اندر مُقیّد ہیں۔ یہ اِدراک کا اعجاز ہے جس نے ایک لمحہ کو ازل تا ابد کا روپ عطا کر دیا ہے۔
اِدراک کہاں سے آیا؟
اوپر تذکرہ آ چکا ہے کہ وہ صرف اطّلاع ہے۔ یہ اطّلاع کہاں سے ملی ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سماعت میں نے دی ہے، بصارت میں نے دی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ اطّلاع میں نے دی ہے۔ ہم عام حالات میں جس قدر اطّلاعات وصول کرتے ہیں، ان کی نسبت تمام دی گئی اطّلاعات کے مقابلے میں کیا ہیں؟ شاید صفر سے ملتی جلتی ہو۔ وصول ہونے والی اطّلاعات اتنی محدود ہیں جن کو ناقابل ذکر کہیں گے۔ اگر ہم وسیع تر اطّلاعات حاصل کرنا چاہیں تو اس کا ذریعہ بجُز علومِ روحانی کے کچھ نہیں ہے اور علومِ روحانی کے لئے ہمیں قرآنِ پاک سے رجوع کرنا پڑے گا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 270 تا 270
لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔