انبیاء کے مقامات
مکمل کتاب : لوح و قلم
مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2938
انبیاء کے بارے میں مراتب کا جو تعیّن کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں نبی کا مقام وہ آسمان ہے اور فلاں نبی کا مقام وہ آسمان ہے، یہ لاشعور ہی کے متعارف مراتب کا تذکرہ ہے۔ تمام آسمانی حدیں کسی فصل یا کسی سمت کی بنا پر متعیّن نہیں ہیں بلکہ لاشعور کی بنا پر متعیّن ہیں۔ جب ہم اجرام فلکی(ستاروں، سیاروں) کو نگاہ کی زد میں دیکھتے ہیں تو اس وقت ہمارے شعور اور لاشعور کی حدیں متّصل ہوتی ہیں۔
اجرام سماوی کا ایک ہیولیٰ ہمارے شعور(حواس) کو چھو دیتا ہے لیکن ان کرّوں کے تفصیلی اجزا کیا ہیں اور ان کے بیرونی اور اندرونی آثار و اَحوال کیوں کر واقع ہوئے ہیں۔ یہ بات ہمارے شعور سے مَخفی اور لاشعور پر واضح ہوتی ہے۔ جب کسی نبی یا ولی کا لاشعور شعور بن جاتا ہے تو اس کے حواس اس مذکورہ اجرام کے اندرونی اور بیرونی آثار و اَحوال کو پوری طرح دیکھتے، جانتے، سنتے اور چھوتے ہیں۔ ان اجرام کے تمام آثار و اَحوال کسی نبی یا ولی سے کرۂ ارضی کے آثار و اَحوال کی طرح قریب ہوتے ہیں۔ خود کرۂ ارضی کے آثار و اَحوال کی قربت کسی فردِ واحد کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا شعور توانا اور مرتّب نہ ہو۔ جس طرح شعور کی توانائی اور ترتیب کے مدارج مختلف ہیں اِسی طرح لاشعور کی ترتیب و توانائی یعنی لاشعور کے شعور کی حدوں میں داخل ہونے کی طرزیں بھی مختلف ہیں۔ ایک زیادہ توانا اور زیادہ مرتّب شعور رکھنے والا انسان کرۂ ارضی کے حالات سے زیادہ باخبر ہوتا ہے اور ان پر بہت تبصرہ کر سکتا ہے لیکن ایک ناقص اور نامرتّب شعور رکھنے والا انسان کرۂ ارضی کے معمولی مسائل کو جاننے اور سمجھنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔
درحقیقت کسی فرد کا لاشعور اس کی تمام نَوع کے شعور کا مجموعہ ہوتا ہے۔ تمام نَوع سے مراد ابتدائے آفرینش سے ثانیۂِ حاضر تک کے وُجود میں آنے والے سارے افراد ہیں۔ کسی فرد کے تمام نَوع کے سارے محسوسات کا اجتماع اس کے شعور میں نہیں بلکہ لاشعور میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فرد اپنی نَوع کے تمام مروّجہ علوم سیکھنے کی صلاحیّت رکھتا ہے یعنی جب وہ نوعی شعور کے کسی جُزو کو جو بذاتہٖ اس کا لاشعور ہے، شعور میں منتقل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ یہ صلاحیّتیں عوام الناس کی ہیں لیکن ایک نبی یا ولی کی صلاحیّتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ جب ایک نبی یا ولی اپنی نَوع کے لاشعور یعنی کائناتی شعور کو بیدار کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی کوششوں میں کم تر یا بیش تر اِسی طرح کامیاب ہو جاتا ہے جس طرح ایک فرد اپنے نوعی شعور سے متعارف ہونے میں کامیاب ہے۔
اندھیرا بھی روشنی ہے
مذکورہ چاروں شعور ہر فرد کی ذات میں موجود ہیں۔ ان کی موجودگی کا علم شعور کہلاتا ہے۔ اور لا علمی لاشعور سمجھی جاتی ہے۔ یعنی ان چاروں شعوروں میں عامتہ الناس صرف چوتھے شعور سے باخبر ہیں۔ اگر ہم اس باخبری کی اصلیت تلاش کریں تو بالآخر روشنی ہی کو وجہ شعور قرار دیں گے۔ یہاں لفظ روشنی سے مراد وہ روشنی نہیں ہے جس کو عوام روشنی کا نام دیتے ہیں بلکہ وہ روشنی مراد ہے جو آنکھ کے لئے دیکھنے کا ذریعہ بنتی ہے خواہ وہ اندھیرا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی جان دار اندھیرے میں دیکھنے کا عادی ہے تو اس کے لئے اندھیرا ہی روشنی کا مریادف سمجھا جائے گا۔ کتنے ہی حشرات الارض اور درندے رات کے وقت اندھیرے میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔
فرض کیجئے کہ ہم کسی چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر وہ روشنی جو اس چیز اور ہمارے درمیان موجود ہے نکال دی جائے تو وہ چیز ہمارے شعور کی حدوں سے نکل جائے گی۔ اس مثال سے ہم فقط ایک ہی نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔ یعنی روشنی شعور ہے یا شعور روشنی ہے۔ اگر کسی وجہ سے روشنی کے خدّوخال میں تبدیلی واقع ہو جائے تو شعور کے خدّوخال میں بھی تبدیلی ہو جائے گی۔
عام حالات میں اس چیز کو جانچنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر پانی بھرے ٹب میں ایک پیالہ ڈبو دیا جائے تو اس کی گہرائی، قطر اور وزن میں تغیّر ہو جائے گا۔ یہ تغیّر یا تو شعور کا تغیّر ہے یا روشنی کا۔ دونوں صورتوں میں ہم ایک کلیہ قائم کر سکتے ہیں کہ جو چیز خارج میں روشنی ہے، وہی چیز داخل میں شعور ہے۔ گویا شعور اور روشنی ایک ہی چیز ہے۔ جب وہ انسان کے محسوسات میں واقع ہوئی تو اس کو شعور کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور جب وہ خارج میں آنکھ کے سامنے ہوتی ہے تو اسے روشنی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
قانون:
اگر ہم کسی طرح اپنی داخلی روشنی (شعور) میں تبدیلی پیدا کر لیں تو آنکھ کے سامنے پھیلی ہوئی روشنی میں بھی تبدیلی پیدا ہو جائے گی۔ روشنی کا یہی سلسلہ کائنات کی حد بسیط تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی ایک نقطہ میں روشنی کے خدّوخال تبدیل ہو جائیں اور کائنات کی باقی روشنیوں میں تبدیلی نہ ہو۔ روحانیت کی دنیا میں تصرف کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ البتہ تصرف کی إبتداء خارجی روشنیوں سے نہیں بلکہ داخلی روشنیوں سے کی جاتی ہے۔ جب کوئی تصرف کرنے والا خارجی روشنیوں یعنی خارجی حالات میں تبدیلی کرنا چاہے تو وہ اپنی ذات یعنی داخلی روشنیوں میں (شعور میں) تبدیلی کرتا ہے۔ تصوّف میں اس ہی عمل کو لطیفوں کا رنگین ہونا کہتے ہیں۔ اگر کسی فرد کے لطیفے (ذات کی روشنیاں) رنگین ہو جائیں تو یہ رنگینی کائنات کی تمام روشنیوں میں سرایت کر جائے گی۔ گویا کائنات کی تمام روشنیوں میں وہی تغیّر پیدا ہو جائے گا جو فرد کے لطیفوں میں ہوا ہے۔ نظامِ خانقاہی میں اقطابِ تکوین(مدار حضرات) کے تصرف کا طریقہ یہی ہے۔
روشنی کے زاویے
ہم نَسمہ کے بیان میں نَسمہ کے نمبروں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ ان لاشمار نمبروں میں ہر نمبر روشنی کے ایک زاویے کی حیثیت رکھتا ہے۔ روشنی کا ہر زاویہ اوپر بیان کردہ کشش اور گریز سے بنا ہے۔ ہر فرد کی ذات کشش اور گریز کے زاویہ کی ہستی ہے۔ ہر فرد اس زاویہ پر ایک مفروضہ نقطہ بناتا ہے۔ ہر نقطہ اپنی نَوع کے تمام نقطوں سے منسلک ہے اور اس کے اندر نَوع کے دوسرے نقطوں کے ساتھ صفات کا اشتراک پایا جاتا ہے۔ یہی صفات کا اشتراک اس کو نَوع کے اور نقطوں سے مشابہ دکھاتا ہے۔ اگر ہم ان نقطوں کی قدرے اور تفصیل کریں تو ہر نقطہ کو ایک محلِ وقوع کہیں گے۔ یہ محلِ وقوع دو حیثیتوں میں قائم رہتا اور دَور کرتا ہے۔ اس کا پہلا دَور محوری گردش ہے جو اسے مُقیّد رکھتی ہے۔ اور کسی نَوع کے دوسرے نقطوں میں جذب نہیں ہونے دیتی۔ دوسری گردش طولانی ہے۔ یہ طولانی گردش اس کو کائنات کے دوسرے زاویوں سے منسلک کرتی ہے۔ گویا یہ تمام نقطے(زاویے) روشنی کے تاروں میں بندھے ہوئے ہیں اور ان ہی تاروں پر کائنات کی ترتیب کا قیام ہے۔
محوری گردش کا ایک رخ نقطہ کی انفرادی حیات کا اور دوسرا رخ نقطہ کی نوعی حیات کا ریکارڈ ہے۔ طولانی گردش کی ایک سمت ایک نَوع کے افراد کو دوسری نَوع کے افراد سے مربوط رکھتی ہے اور طولانی گردش کی دوسری سمت اس حقیقت سے متّصل ہے جس کو واجبُ الوجود کہتے ہیں۔ یہ حقیقت اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ پر مشتمل ہے۔
جو روشنیاں محوری گردش کی بنا ہیں، ان کا نام نَسمہ ہے اور جو روشنیاں طولانی گردش کی بنا ہیں، ان کا نام نور ہے۔ کسی ذات میں یہ روشنیاں ذات کی مرکزیّت ہوتی ہیں۔ ان روشنیوں میں ہر ایک کے دو رخ ہیں اور ہر رخ نظامِ کائنات کا شعور ہے۔
مثال:
جب ہم کوئی خوشبو دار مشروب تیار کرتے ہیں تو پانی، شکر، رنگ اور خوشبو ملا کر بوتلوں میں بھر لیتے ہیں۔ اگر بوتل کو وہ روشنی فرض کر لیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے تو پانی کو شعورِ چہارم، رنگ کو شعورِ سوئم، شکر کو شعورِ دوئم اور خوشبو کو شعورِ اوّل تصوّر کر سکتے ہیں۔ جس طرح ہم ظاہری حواس سے پانی، رنگ، شکر اور خوشبو کو محسوس کرتے ہیں، اِسی طرح باطنی حواس سے ان چار شعوروں کا اِدراک اور احساس کر سکتے ہیں۔
شعور کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ مُبداء ہے جس کو داخلی یا باطنی رخ کہنا چاہئے۔ اس ہی رخ کا دوسرا نام فرد ہے۔ جتنی مخلوق فرد کی صورت میں یا ذرّہ کی صورت میں وُجود رکھتی ہیں، وہ سب اس ہی شعور کی حدود میں قائم ہیں۔ شعور کے دونوں رخوں میں صرف ناظر اور منظور کا فرق ہے۔ شعور کی ایک حالت وہ ہے جس کو فرد محسوس کرتا ہے۔ دوسری حالت وہ ہے جو خود احساس ہے۔ ہم اس ہی کو خارجی دنیا کہتے ہیں۔ تا ہم کسی شئے کا خارج میں موجود ہونا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس شئے کی موجودگی فرد کے داخل میں نہ ہو۔ ان حالات کے پیش نظر یہ ماننا پڑتا ہے کہ فرد کی داخلی دنیا ہی یقین اور حقیقی ہے۔ اور اس ہی دنیا کا پرتَو خارج میں نظر آتا ہے۔ جب ہم احساس کو تقسیم کرتے ہیں تو اس احساس کا ایک جُزو رؤیت یا دیکھنا ہے جو ظاہر میں شکل وصورت اور خدّوخال کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں۔ احساس کی تقسیم کے بعد رؤیت کے علاوہ اور بھی اَجزاء باقی رہتے ہیں جو وہم، خیال اور تصوّر کے نام سے موسوم کئے جاتے ہیں، تصوّف میں ان سب کا مجموعی نام رُؤیا ہے۔ گویا احساس کو رؤیت اور رُؤیا دو اَجزاء میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ کائنات ان ہی دو اَجزاء کا ترکیبی مجموعہ ہے۔
اگر دنیا کی تمام مَوجودات میں ہر چیز کو ایک ذرّہ سمجھ کر اس کی ہستی کے اندر اور اس کی ہستی کے باہر ساخت کا جائزہ لیا جائے تو اصل میں ایک نور ملے گا جس کے اندر زندگی کی تمام قدریں ملیں گی۔ تصوّف کی اِصطلاح میں اس نور کی تحریک کا نام بِداعت ہے۔ بِداعت ایک طرح کے حیاتی دباؤ کا نام ہے جو شعورِ اوّل سے شروع ہو کر شعورِ چہارم تک اثر پذیر ہوتا رہتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 214 تا 219
لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔