یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
الہام
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12288
بعض لوگوں کی باطنی سماعت باطنی نگاہ سے پہلے کام کرنے لگتی ہے۔ سماعت کے حرکت میں آ جانے سے آدمی کو ورائے صوت آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ پہلے پہل خیالات آواز کی صورت میں آتے ہیں۔ پھر فضا میں ریکارڈ شدہ مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ بالآخر آدمی کے شعور میں اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ جدھر اس کی توجہ جاتی ہے اس سمت کے مخفی معاملات اور مستقبل کے حالات آواز کے ذریعے سماعت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب بار بار یہ عمل ہوتا ہے تو آواز کے ساتھ ساتھ نگاہ بھی کام کرنے لگتی ہے اور تصویری خدوخال نگاہ کے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس کیفیت کو کشف کہتے ہیں۔
ابتدائی مرحلے میں کشف ارادے کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یکایک خیال کے ذریعے آواز کے وسیلے سے یا تصویری منظر کی معرفت کوئی بات ذہن میں آ جاتی ہے اور پھر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے۔
مثال:
آپ گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اچانک ذہن میں کسی دوست کا خیال آنے لگتا ہے اور کچھ دیر بعد وہ دوست آ جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آواز کے ذریعے یہ اطلاع ذہن میں وارد ہوتی ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ دوست کی آمد کا منظر نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
کشفی صلاحیت جب ترقی کے مراحل طے کر کے شہود بنتی ہے تو ارادے کے ساتھ عمل ہونے لگتا ہے اور آدمی کسی بات یا کسی واقعے کو ارادے کے ساتھ معلوم کر سکتا ہے۔
کشف کی کیفیت میں ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ ظاہری اور باطنی حواس ایک ساتھ متحرک رہتے ہیں۔ طالب علم کے ذہن میں اتنی سکت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بیک وقت مادی اور روحانی دنیا کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کیفیت کے وارد ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ صاحب مراقبہ کسی جگہ بیٹھ کر آنکھیں بند کرے۔ البتہ یہ کیفیت اختیاری نہیں ہوتی۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، اچانک طاری ہو جاتی ہے اور از خود ختم ہو جاتی ہے۔ یہ حالت دن میں کئی بار بھی وارد ہو سکتی ہے اور بسا اوقات ہفتوں میں ایک مرتبہ بھی طاری نہیں ہوتی۔ اس کیفیت کا نام ’’الہام‘‘ ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 156 تا 158
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔