یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
اعراف
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12421
کسی آرام دہ جگہ پشت کے بل لیٹ جائیں۔ پھر جسم کے ہر حصہ پر یکے بعد دیگرے توجہ مرکوز کر کے Relaxکریں۔ تصور کریں کہ آپ روشنی کے جسم کے ذریعے فضا میں اڑتے ہوئے اس عالم کی طرف جا رہے ہیں جو موت کے بعد کا عالم ہے، رفتہ رفتہ روشنی کا جسم جس کو جسم مثالی بھی کہتے ہیں، متحرک ہو کر اس دنیا کی سیر کرنے لگتا ہے جس میں انسان مرنے کے بعد رہتا ہے اور مادی تقاضے پورے کرتا ہے۔
آئیے!
موت کے بعد کی زندگی کا کھوج لگاتے ہیں؟
دوزانو بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ منہ بند کر کے ناک کے دونوں سوراخوں سے گہرائی میں سانس لے کر سینے میں روک لیں۔ جب تک آسانی کے ساتھ برداشت کر سکیں سانس روکے رہیں اور پھر منہ کھول کر آہستہ آہستہ بہت آہستہ سانس باہر نکالیں۔ قبر کی گہرائی کا تصور کر کے روحانی طو رپر قبر کے اندر اتر جایئے۔ بس ٹھیک ہے اب ہم قبر کے اندر ہیں۔ مٹی اور کافور کی ملی جلی خوشبو دماغ میں بس گئی ہے۔ یہاں آکسیجن اتنی کم ہے کہ دم گھٹ رہا ہے۔ آنکھیں بوجھل اور خمار آلود ہو گئی ہیں۔ پپوٹے ساکت ہیں پلک جھپکنے کا عمل ختم ہو گیا ہے۔ یہ دیکھئے! نظر ایک جگہ قائم ہو گئی ہے۔ آنکھوں کے سامنے اسپرنگ کی طرح چھوٹے چھوٹے دائرے اور بڑے بڑے دائرے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ’’یا بدیع العجائب‘‘ منظر کس قدر خوش رنگ اور حسین ہے۔ یہ ایک دم گھپ اندھیرا کیسے ہو گیا؟ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔
وہ دیکھو!
سامنے دور بہت دور تقریباً دو سو میل کے فاصلے پر خلاء میں روشنی نظر آ رہی ہے ذرا س طرف دیکھئے! یہ دروازہ ہے چلیے اندر چلتے ہیں۔
کیا خوب! یہاں تو پورا شہر آباد ہے۔ بلند و بالا عمارتیں ہیں۔ لکھوری اینٹوں کے مکان اور چکنی مٹی سے بنے ہوئے کچے مکان بھی ہیں۔ دھوبی گھاٹ بھی ہے اور ندی نالے بھی۔ جنگل بیابان بھی ہیں اور پھولوں پھلوں سے لدے ہوے درخت اور باغات بھی۔ یہ ایک ایسی بستی ہے جس میں محلّات کے ساتھ ساتھ پتھر کے زمانے کے غاروں میں رہنے والے آدم زاد بھی مقیم ہیں۔
ادھر دیکھــيئے! کتنا گہرا اور اندھیرا غار ہے۔ آ ئیے جھانک کر دیکھیں اس کے اندر کیا ہے حیرت ہے اس کے اندر تو آدم زاد اور ان کے خاندان کے لوگوں کی روحیں آرام کر رہی ہیں۔
کس قدر شرم کی بات ہے کہ ماورائی دنیا کے اس خطہ میں سب لوگ ننگے ہیں اور انہیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ستر پوشی بھی کوئی ضروری عمل ہے۔ یہ لباس سے آزاد لوگ ہمیں اس طرح گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں، ذرا ان کے قریب تو چلیں۔
ایک صاحب نے آگے بڑھ کر پوچھا۔ ’’آپ نے اپنے لطیف، نرم و نازک جسم پر یہ بوجھ کیوں ڈال رکھا ہے؟ صورت شکل سے آپ ہماری نوع کے افراد نظر آتے ہیں۔‘‘
بہت بحث و تمحیض کے بعد معلوم ہوا کہ یہ اس زمانے کے مرے ہوئے لوگوں کی دنیا(اعراف) ہے جب زمین پر انسانوں کے لئے کوئی معاشرتی قانون رائج نہیں ہوا تھا اور لوگوں کے ذہنوں میں ستر پوشی کا کوئی تصور نہیں تھا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 272 تا 274
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔