اسماءِ الٰہیہ کی تعداد گیارہ ہزار ہے
مکمل کتاب : لوح و قلم
مصنف : حضور قلندر بابا اولیاءؒ
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=2878
اسماءِ الٰہیہ تین تنزّلات پر منقسم ہیں۔
اوّل ۔۔۔۔۔۔ اسماءِ اِطّلاقیہ
دوئم ۔۔۔۔۔۔ اسماءِ عَینیہ
سوئم ۔۔۔۔۔۔ اسماءِ کَونیہ
اسماءِ اِطّلاقیہ اللہ تعالیٰ کے وہ نام ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے تعارف میں ہیں۔ انسان کا یا مَوجودات کا ان سے براہِ راست کوئی ربط نہیں۔ مثلاً علیم۔ بحیثیت علیم کے اللہ تعالیٰ اپنے علم اور صفاتِ علم سے خود ہی واقف ہیں۔ انسان کا اِدراک یا ذہن کی کوئی پرواز بھی اللہ تعالیٰ کے ‘‘علیم’’ ہونے کے تصوّر کو کسی طرح قائم نہیں کر سکتی۔ علیم کی یہ نوعیت اسمِ اِطّلاقیہ بھی ہے یہاں پر اسمِ اِطّلاقیہ کی دو حیثیتیں قائم ہو جاتی ہیں۔ علیم بحیثیت ذات اور علیم بحیثیت واجبِ باری تعالیٰ۔ علیم بحیثیت ‘‘ذات’’ باری تعالیٰ کی وہ صفَت ہے جس کی نسبت مَوجودات کو حاصل نہیں اور علیم بحیثیت ‘‘واجب’’ باری تعالیٰ کی وہ صفَت ہے جس کی نسبت مَوجودات کو حاصل ہے پہلی نسبت تنزّل اوّل ہے۔
اسماءِ اِطّلاقیہ کی تعداد اہل تصوّف کے نزدیک تقریباً گیارہ ہزار ہے۔ ان گیارہ ہزار اسماءِ اِطّلاقیہ کے ایک رخ کا عکس لطیفۂِ اخَفیٰ اور دوسرے رخ کا عکس لطیفۂِ خَفی کہلاتا ہے۔ اس طرح پہلی نسبت میں ثابِتہ اللہ تعالیٰ کی گیارہ ہزار صفات کا مجموعہ ہے۔ ثابِتہ کا نقش پڑھ کر ایک صاحب اَسرار ان گیارہ ہزار تجلّیوں کے عالمِ مثال کا مشاہدہ کرتا ہے۔
ثابِتہ کو جب علیم کی نسبت دی جاتی ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ مَوجودات اللہ تعالیٰ سے بحیثیت علیم ایک واسطہ رکھتی ہے لیکن یہ واسطہ بحیثیت علیمِ کُل نہیں ہوتا بلکہ بحیثیتِ علیمِ جُزو ہوتا ہے۔ بحیثیت علیم کُل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا اپنا خُصوصی علم ہے چنانچہ ثابِتہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسماء کا علم عطا فرمایا تو اسے علیم کی نسبت حاصل ہو گئی۔ اس ہی علم کو ‘‘غیبِ اَکوان’’ کہتے ہیں۔ اس علم کا حصول علیم کی نسبت کے تحت ہوتا ہے۔
قانون:
اگر انسان خالئُ الذّہن ہو کر اس نسبت کی طرف متوجّہ ہو جائے تو ثابِتہ کی تمام تجلّیات مشاہدہ کر سکتا ہے۔ یہ نسبت دراصل ایک یادداشت ہے۔ اگر کوئی شخص مراقبہ کے ذریعے اس یادداشت کو پڑھنے کی کوشش کرے تو اِدراک، وَرود یا شُہود میں پڑھ سکتا ہے۔ انبیاء اور انبیاء کے وراثت یافتہ گروہ نے تفہیم کے طرز پر اس یادداشت تک رسائی حاصل کی ہے۔
طرزِ تفہیم
طرزِ تفہیم دن رات کے چوبیس گھنٹے میں ایک گھنٹہ، دو گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ڈھائی گھنٹے سونے اور باقی وقت بیدار رہنے کی عادت ڈال کر حاصل کی جا سکتی ہے۔
طرزِ تفہیم کو اہل تصوّف ‘‘سَیر’’ اور ‘‘فتح’’ کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ تفہیم کا مراقبہ نصف شب گزرنے کے بعد کرنا چاہئے۔
انسان کی عادت جاگنے کے بعد سونا اور سونے کے بعد جاگنا ہے، وہ دن تقریباً جاگ کر اور رات سو کر گزارتا ہے۔ یہی طریقہ طبیعت کا تقاضا بن جاتا ہے۔ ذہن کا کام دیکھنا ہے۔ وہ یہ کام نگاہ کے ذریعے کرنے کا عادی ہے۔ فی الواقع نگاہ ذہن کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جاگنے کی حالت میں ذہن اپنے ماحول کی ہر چیز کو دیکھتا، سنتا اور سمجھتا ہے۔ سونے کی حالت میں بھی یہ عمل جاری رہتا ہے البتہ اِس کے نُقوش گہرے یا ہلکے ہوا کرتے ہیں۔ جب نُقوش گہرے ہوتے ہیں تو جاگنے کے بعد حافظ اْن کو دہرا سکتا ہے۔ ہلکے نُقوش حافظہ بھلا دیتا ہے۔ اس لئے ہم اُس پورے ماحول سے واقف نہیں ہوتے جو نیند کی حالت میں ہمارے سامنے ہوتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 43 تا 46
لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔