یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
ادراک
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12279
مراقبہ کی مسلسل مشق سے غنود کی کیفیت کم ہونے لگتی ہے۔ غنودگی طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مراقبہ کے دوران وارد ہونے والی روشنیوں کو شعور برداشت نہیں کرتا اور اس پر غفلت طاری ہو جاتی ہے۔ جب شعور نیند کی کیفیات سے مغلوب نہیں ہوتا اور ذہن یکسو رہتا ہے تو باطنی اطلاعات موصول ہونے لگتی ہیں۔
طالب علم روحانی واردات و کیفیات کو ادراک کی سطح پر محسوس کرتا ہے۔ ادراک ایسا خیال ہے جو لطیف ہونے کے باوجود خدوخال رکھتا ہے۔ ذہن کی پرواز ان خدوخال کو چھو لیتی ہے۔ مثلاً جب کوئی شخص سیب کا نام لیتا ہے تو ذہن میں سیب کی تصویر ضرور آتی ہے۔ یہ تصویری خدوخال اتنے ہلکے ہوتے ہیں کہ نگاہ ان کا مشاہدہ نہیں کرتی لیکن احساسات ان کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات مخفی اطلاعات آواز کی صورت میں موصول ہوتی ہیں۔ آواز کی شدت زیادہ نہیں ہوتی لیکن آواز کسی حد تک اطلاع یا منظر کی تشریح کر دیتی ہے۔
- مراقبہ شروع کرتے ہی یکسوئی حاصل ہو گئی۔ کانوں میں خیالات کی لہریں داخل ہوتے محسوس ہوئیں۔ جیسے ہی کوئی صورت ذہن میں آتی ہے۔ اس کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ (محمد سلیم)
- مراقبہ کے دوران ایسا شور سنائی دیتا ہے جیسے سمندر کی بپھری ہوئی موجیں ساحل سے ٹکرا کر شور مچا رہی ہوں۔ کچھ دنوں بعد مراقبہ کے دوران مجھے کسی کی باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ یہ باتیں اس طرح سنائی نہیں دیں جس طرح عام طور پر آوازیں ہم اپنے مادی کانوں سے سنتے ہیں۔ بلکہ ایسا ہوا کہ یہ آوازیں دماغ کے اندر سنائی دیں۔ ایک روز مراقبہ کے دوران کسی نے مجھے آواز دی میں نے فوراً آنکھیں کھول دیں۔ لیکن آواز دینے والا کوئی نہیں تھا۔ میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ آواز باہر سے نہیں، میرے باطن(Inner) میں گونجی ہے۔
- آج مراقبہ میں اتنا محو تھا کہ ایک دم میرے داہنے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا۔ میں یکدم چونکا اور آنکھیں کھول دیں، آس پاس دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔ میں پھر مراقبہ میں چلا گیا۔ اس کے بعد جیسے ہی جسم کا خیال آتا ایسا لگتا تھا جیسے جسم لرز رہا ہے۔ میں نے ایک عجیب بات محسوس کی وہ یہ کہ جب بھی میں پانی پیتا ہوں۔ اس کا ذائقہ ہلکا میٹھا محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میرے اندر ذائقہ کی حس میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ کبھی کبھی کانوں میں سیٹیوں کی آواز آتی ہے۔
- مراقبہ کے بعد فجر کی نماز قائم کی، نماز میں بے حد یکسوئی رہی ایک بار یہ خیال شدت اختیار کر گیا کہ اللہ میاں سامنے موجود ہیں۔ اس احساس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کافی دیر تک یہ احساس غالب رہا۔ مراقبہ کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے ’’یا حیی یا قیوم‘‘ کے الفاظ لطیفہ نفسی سے ادا ہو رہے ہیں۔
- مراقبہ میں مکمل طور پر یکسو ہو گیا۔ پھر محسوس ہوا کہ میں خلاء میں اوپر اٹھتا جا رہا ہوں اور انتہائی بلندی پر پہنچ گیا ہوں۔ ذہن میں اس وقت ’’اللہ اکبر‘‘ کی زبردست گونج تھی اتنی بلند اور تیز کہ بیان نہیں کر سکتا۔ اس آواز سے طبیعت میں ہیبت طاری ہو گئی، خوف و دہشت کی ملی جلی کیفیت میں بیت المقدس نظر آیا جہاں لوگ عبادت کر رہے تھے۔ بیت المقدس کے گنبد کو دیکھنے لگا۔ اسی دوران کسی نادیدہ مخلوق نے میرے کانوں میں سرگوشی کی۔ میں اس سرگوشی سے بے سدھ ہو گیا۔ سرگوشی میں کہا گیا۔ ’’یہ کمال نہیں ہے کہ گنبد پر غور کیا جائے۔ اصل حقیقت یہ ہے پیغمبروں کی ذات بابرکت پر تفکر کیا جائے کہ ان کے پاس اللہ کے عطا کردہ علوم کے کون سے خزانے ہیں۔ نوع انسانی کا ہر فرد ان خزانوں سے مستفید ہو سکتا ہے۔‘‘
اس آواز کے ساتھ ہی میں بری طرح بے قرار ہو گیا۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور مراقبہ کی کیفیت سے باہر آ گیا۔ اس وقت جسم پسینے سے شرابور تھا۔ (کمال)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 151 تا 154
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔