شعب ابی طالب
مکمل کتاب : بچوں کے محمد ﷺ (جلد اول)
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=31118
مکہ کے ارد گرد پہاڑ ہیں۔شعب عربی زبان میں گھاٹی کو کہتے ہیں۔دو اونچے پہاڑوں کے درمیان جو راستہ یا تنگ میدان ہوتا ہے وہ گھاٹی کہلاتا ہے۔عرب کے دستور کے مطابق یہ گھاٹیاں قبیلوں کی ملکیت ہوتی تھیں۔ان ہی میں سے ایک گھاٹی حضرت ابوطالب کو ورثہ میں ملی تھی۔جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھیں۔
حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو مکہ واپس بھیجنے سے انکار کر دیا اور کفار کے نمائندے حبشہ سے ناکام واپس لوٹ آئے۔مکہ میں مسلمانوں کی تعداد برھتی جا رہی تھی۔ان ہی دنوں مکہ کی دو مؤثر اور اہم شخصیات حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت حمزہؓ نے اسلام قبول کر لیا۔
ان حالات کو دیکھ کر کافر غصہ میں آگ بگولہ ہو گئے۔
نبوت کے ساتویں سال مکہ کے تمام سردار ایک جگہ جمع ہو ئے اور سب نے مل کر یہ عہد نامہ لکھا۔جب تک بنو ہاشم اور بنو مطلب محمد (ﷺ) کو ہمارے حوالہ نہیں کرتے۔
۱۔ کوئی شخص محمد(ﷺ) کے خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب سے میل جول اور تعلق نہ رکھے۔
۲۔ان کے ساتھ کسی قسم کی خریدو فروخت نہ کی جائے۔
۳۔اور نہ ہی ان کے خاندان میں کوئی شادی بیاہ کرے۔
۴۔کوئی ان کو مہمان نہیں ٹھہرا سکتا۔نہ ہی انھیں کھانے پینے کا کوئی سامان دیا جائے گا۔
اس عہد نامہ پر مکہ کے چالیس سرداروں نے دستخط کئے اور اسے خانہ کعبہ کی دیوار پر لگا دیا۔اس عہد نامہ کے مطابق حضرت محمدﷺ اور مسلمانوں کو مکہ سے نکال دیا گیا۔ حضرت محمد ﷺ کے خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب کے وہ افراد جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔وہ بھی مکہ کے باہر شعب ابی طالب میں چلے گئے۔
کفار نے تین سال تک مکمل بائیکاٹ رکھا۔کھانے پینے کی کوئی چیز گھاٹی تک نہیں جانے دیتے تھے۔گھاٹی میں مسلمانوں کے پاس گھریلو سامان نہیں تھا۔دھوپ کی تپش اور راتوں کو سردی،بوڑھوں جوانوں اور بچوں سب ہی نے برداشت کی۔چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے روتے تھے۔ان کے رونے کی آوازیں گھاٹی سے باہر دور دور تک سنائی دیتی تھیں۔مکہ کے بعض لوگ اپنے عزیزوں کو تکلیف میں دیکھتے تھے تو چھپ کر ان کے لیے کھانے پینے کا سامان بھیج دیتے تھے۔
ایک روز حضرت محمدﷺ نے ابو طالب سے کہا:
“چچا جان!
مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ سرداروں نے جو عہد نامہ لکھ کر خانہ کعبہ میں لگایا تھا ۔اس کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔لیکن جس حصہ پر اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہے وہ حصہ باقی ہے۔”
مکہ میں چند بزرگوں کو یہ عہد نامہ پسند نہیں تھا۔ انھوں نے ایک جگہ جمع ہو کر فیصلہ کیا اس ظالمانہ فیصلہ کو ختم کر کے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو شہر میں واپس بلا لینا چاہیے۔ابھی یہ لوگ باتیں ہی کر رہے تھے کہ حضرت محمدﷺ کے چچا حضرت ابو طالب تشریف لائے اور بائیکاٹ کرنے والوں سے کہا:
“قریش کے لوگو!
میرے بھتیجے حضرت محمدﷺ نے اطلاع دی ہے کہ تم نے جو عہد نامہ لکھ کر خانہ کعبہ پر لگایا تھا اس کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔اس میں لکھا ہوا صرف اللہ تعالیٰ کا نام باقی رہ گیا ہے۔اب تم عہد نامہ منگوا کر دیکھو اگر ایسا ہے جیسا حضرت محمدﷺ نے فرمایا ہے تو تم بائیکاٹ ختم کر دو اور اگر ایسا نہ ہو تو میں حضرت محمدﷺکو تمہارے حوالہ کر دوں گا۔”
کافروں نے حضرت ابوطالب کی یہ بات مان لی۔عہد نامہ منگوا کر دیکھا تو نبی کریم حضرت محمدﷺ نے جو فرمایا تھا وہ صحیح تھا۔اس طرح یہ عہد نامہ ختم کر دیا گیا۔اور مسلمان شعب ابی طالب سے باہر آگئے۔
کچھ ہی عرصہ بعد مسلمانوں کو ایک بڑا صدمہ پہنچا۔حضرت محمدﷺ کے شفیق چچا حضرت ابوطالب کا انتقال ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
حضرت ابو طالب نے بچپن سے حضرت محمدﷺ کی پرورش کی تھی اور زندگی کے ہر مرحلہ میں آپ ﷺ کا ساتھ دیا۔ابھی چچا ابوطالب کا دکھ کم نہ ہوا تھا کہ حضرت بی بی خدیجہؓ کا بھی انتقال ہو گیا۔اسی لیے اس سال کا نام عام الخزن رکھ دیا گیا۔عام الحُزن کا ترجمہ ہے غم کا سال۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 31 تا 34
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔