طوافِ وِداع
مکمل کتاب : رُوحانی حج و عُمرہ
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14116
میقات سے باہر کے رہنے والوں پر واجب ہے کہ جب مکہ معظمہ سے رخصت ہونے لگیں تو رخصتی طواف کریں اور یہ حج کا آخری واجب ہے۔ آپ کا حج، حج افراد ہو یا قران یا تمتع ہر صورت میں آپ کے اوپر طوافِ وداع واجب ہے۔
اگر آپ میقات سے باہر رہنے والے ہیں اور طوافِ زیارت کے بعد اگر آپ نے نفلی طواف بھی کر لیا ہے تو طوافِ وداع ہو گیا۔
اور اگر طوافِ وداع کے بعد کسی ضرورت سے مکہ میں ٹھہر گئے تو چلتے وقت طواف وداع دوبارہ کر لینا مستحب ہے۔ طوافِ وداع کا وقت طوافِ زیارت کے بعد شروع ہو جاتا ہے اور اختتام کا کوئی وقت مقرر نہیں جب تک مکہ میں مقیم ہیں یہ طواف کر سکتے ہیں۔
طواف وداع میں رمل نہ کریں اور طواف کے بعد دو رکعت نماز قائم کریں۔ دو رکعت نماز کے بعد زم زم پر جائیں اور خوب سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے سینے اور جسم پر لگائیں اگر ہو سکے تو ملتزم سے چمٹ کر اور ممکن ہو تو خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر روتے ہوئے نہایت عاجزی سے دعا مانگیں۔ حجر اسود کو بوسہ دے کر اور اللہ اکبر کہہ کر خانہ کعبہ کی جدائی پر اظہار افسوس کریں۔
اس آخری طواف کے موقع پر جو کچھ چاہیں مانگیں، دل کھول کر اپنے لئے دعائیں مانگیں، مغفرت، تندرستی، سلامتی، ایمان، حج اور کاروبار میں برکت، خاتمہ بالخیر، غرض جو بھی مرادیں ہوں اپنے لئے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے سب مانگیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس شہر میں اللہ کے گھر کی تعمیر کرتے ہوئے یہ دعا بھی کی تھی۔
’’اب رب ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔ ۱۲۹)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بھی پوری ہوئی اور اس دنیا میں سرکار دو عالمﷺ رحمتوں کی سرکار بن کر تشریف لائے۔
مقام ابراہیم پر آ کر دعا خلیلؑ کی یاد آتی ہے اور دل اس ہستی کی جانب کھنچنے لگتا ہے جو اللہ کے بعد سب سے برتر، جو وجہ تخلیق کائنات، وہ جن پر فرشتے درود بھیجتے ہیں، وہ جن کے ذکر سے دل کو سیری نہیں ہوتی، وہ جو دونوں جہاں کے بادشاہ ہیں، وہ جن کے در کی گدائی کو بادشاہ ترستے ہیں، دل سوئے مدینہ کھنچا جاتا ہے۔ مکہ سے مدینہ تک کا سفر محبت کا سفر ہے۔ دل کی دھڑکنوں کا سفر ہے، آنکھوں سے رواں آنسوؤں کا سفر ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 107 تا 108
رُوحانی حج و عُمرہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔