۱۰ذی الحجہ۔۔۔حج کا تیسرا دن
مکمل کتاب : رُوحانی حج و عُمرہ
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14104
آج دسویں ذی الحجہ ہے۔ حج کے مشاغل کی وجہ سے عیدالاضحیٰ کی نماز حاجیوں کو معاف کر دی گئی ہے۔ آج کا دن بڑا مصروف دن ہے اور اس دن ہر حاجی کو بہت سے کام سر انجام دینے ہیں۔
پہلا واجب وقوف مزدلفہ
مزدلفہ میں فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد چند منٹ وقوف کریں اور حسب سابق ادب و احترام اور عجز و انکساری سے توبہ و استغفار کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ سورج نکلنے سے چند منٹ پہلے وقوف کا وقت ختم ہو جاتا ہے اگر کسی نے فجر کی نماز میں ہی وقوف کی نیت کر لی یا راستہ چلتے چلتے ہی وقوف کی نیت کر لی اور تسبیح و تہلیل و تکبیر و تلبیہ کہہ لیا تب بھی یہ واجب ادا ہو جائے گا۔ اور ان میں سے کچھ نہ کیا تا ہم ذرا سی دیر وہ اس وقت مزدلفہ میں رہا تو اس کا وقوف ہو جائے گا۔
دوسرا واجب جمرہ عقبہ (بڑے شیطان) کی رمی
۱۰ ذی الحجہ کا سورج طلوع ہو گیا۔ صبح کا اجالا آسمان پر پھیلنے لگتا ہے تو انسانوں کا یہ سمندر ایک بار پھر منیٰ کی جانب کوچ کرتا ہے۔ آج صرف بڑے شیطان کو سات کنکریاں مارنی ہیں۔ کنکریاں مارنے سے پہلے تلبیہ پڑھنا بند ہو جاتا ہے۔ ایک بار پھر ذہن صدیوں پیچھے چلا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربانی کے لئے منیٰ کی طرف لے کر چلے تو شیطان نے انسانی شکل میں حضرت ابراہیمؑ کو بہکانے کی کوشش کی چنانچہ جہاں ’’جمرہ عقبہ‘‘ واقع ہے، وہاں آپ کو بہکانے کی کوشش کی۔ آپ فوراً سمجھ گئے کہ یہ شیطان ہے۔ آپ نے جناب باری میں دعا کی اور فرمان الٰہی کے مطابق سات کنکریاں شیطان کے ماریں اور وہ فرار ہو گیا۔ جب آگے بڑھے تو جہاں ’’جمرہ وسطی‘‘ واقع ہے اس جگہ شیطان نے پھر آپ کو اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ آپ نے پھر سات کنکریاں ماریں اور وہ بھاگ گیا۔ تیسری مرتبہ اس نے پھر جہاں ’’جمرہ الاولیٰ‘‘ ہے۔ وہاں تک آپ کا پیچھا کیا اور پروردگار نافرمانی پر اکسانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے انہوں نے پھر اس پر سات کنکریاں ماریں اور وہ راستہ سے پلٹ گیا۔
اس واقعہ کی یاد میں منیٰ میں تین جمروں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ منیٰ میں تین مقامات پر جمرات کے نشان نصب ہیں۔ یہاں مختلف زبانوں میں لکھا ہوا ہے، اردو میں بھی لکھا ہوا ہے۔ پہلا جمرہ مسجد خیف کے نزدیک ہے۔ اس کو ’’جمرہ الاولیٰ‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرا اس سے تھوڑی دور جا کر اسی راستے میں آتا ہے اس کو ’’جمرہ وسطی‘‘ کہتے ہیں۔ تیسرا جمرہ منیٰ کے آخر میں ہے اس کو ’’جمرہ عقبہ‘‘ کہتے ہیں۔ آج کے دن صرف جمرہ عقبہ یعنی(بڑے شیطان) کی رمی کرنا ہے۔
جمرہ عقبہ سے کچھ فاصلے سے کھڑے ہو کر کنکریاں ماریں اور ہر کنکری پر
بسم اللّٰہ اللّٰہ اکبر
پڑھتے جایئے اور سات کنکریاں ماریئے۔
شیطان کے متبادل ستون کو تھوڑا سا بڑا کر دیا ہے اور اس پر پل نما چھت ہے مگر ستون کی جگہ چھت نہیں ہے اس لئے اوپر سے بھی کنکریاں مار سکتے ہیں اور نیچے جا کر بھی۔ دونوں طرح جہاں سے بھی کنکریاں ماریں گے آپ کا وہ مارنا صحیح ہے اس لئے بالکل تردد نہ کریں کہ اوپر ہی سے ماریں یا نیچے سے۔ منیٰ میں شیطانوں کی رمی کے وقت ہجوم اور حاجیوں کا زبردست ریلا ہوتا ہے۔ اس لئے کنکریاں مارنے کے لئے مقررہ فاصلے تک قریب ہو کر ہجوم میں شامل ہونے سے پہلے ہجوم کے باہر کسی جگہ کوئی نشان ساتھیوں سے طے کر لیں کہ ہجوم میں بچھڑ جانے کی صورت میں کنکریاں مار کر واپسی میں وہاں جمع ہوں گے اور بعد میں آنے والوں کا انتظار کریں گے۔ اگر پہلے سے طے نہیں کیا تو ہجوم میں بچھڑ جانے کی صورت میں کوئی بوڑھا ہے، کوئی عورت ہے، معلم کا نام بھی یاد نہیں، اب حاجی پریشان، حجن پریشان، اس لئے آپ پہلے ہی سے خیال کریں اور سب کو بتا دیں کہ کنکری مارنے کے بعد قریب میں فلاں جگہ انتظار کریں گے (بچھڑنے کی صورت میں) رمی کے بعد جمرہ عقبہ کے پاس نہ ٹھہریں۔ حضور پاکﷺ نے وہاں قیام نہیں فرمایا تھا۔ یہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ آپ شیطان پر کنکریاں اوپر ہی سے ماریں، نیچے والے حصے میں جانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ہجوم میں کچلے جانے کا خطرہ ہے اوپر بھی کافی رش ہوتا ہے مگر نیچے بند جگہ ہے اور کم از کم اوپر کھلی ہوا تو ملے گی۔ بوڑھے، بیمار مرد، عورتیں اور بچے ہرگز ہرگز نیچے کے حصے میں نہ جائیں ورنہ پریشانی ہو گی۔ ایک بات اور وہ یہ کہ اگر کنکریاں مارتے وقت کوئی چیز ہجوم میں نیچے گر جائے تو ہرگز ہرگز اٹھانے کی کوشش نہ کیجئے گا یا ہوائی چپل پاؤں سے نکلتی ہوئی محسوس ہو تو آپ اس کو نیچے بیٹھ کر ٹھیک کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھیں، خیال رہے ہرگز ہرگز کسی بھی کام سے نہ جھکیں ورنہ کچلے جانے کا خطرہ ہے۔ رمی کا مسنون وقت طلوع آفتاب سے زوال آفتاب کے بعد بھی مکروہ نہیں چونکہ آج کل بہت ہی بھیڑ ہوتی ہے اور زوال سے پہلے رمی کرنے میں اس بھیڑ کی وجہ سے کچھ اموات بھی واقع ہو جاتی ہیں۔ اس لئے غروب آفتاب تک رمی کرنے کی گنجائش ہے اور غروب آفتاب سے پہلے عورتوں کو موقع نہ مل سکے تو مغرب کے بعد رمی کریں۔ عورتیں اور کمزور یا بیمار رات کے کسی بھی حصے میں صبح صادق ہونے سے پہلے رمی کر سکتے ہیں اور رمی کے لئے خود جانا ضروری ہے۔ بلاناغہ شرعی کسی دوسرے سے رمی کرائی تو وہ ادا نہیں ہو گی۔ واجب ذمہ باقی رہے گا جس کا دم دینا پڑے گا۔
تیسرا واجب ’’قربانی‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
(سورۃ الحج۔ ۳۷)
رمی جمرۃ العقبہ سے فارغ ہو کر منیٰ میں قربانی کی جاتی ہے۔ اس عظیم قربانی کی یاد میں جو حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں پیش کر کے دی تھی۔ اس لمحے اللہ تعالیٰ بندے کی نیت کو دیکھتا ہے۔ خیال رہے جب تک قربانی نہ ہو جائے سر کے بال نہ کٹوائیں۔ اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگوں سے یہ غلطی ہو جاتی ہے کہ کنکریاں مارنے کے بعد فوراً بعد بال کٹوا دیتے ہیں جو غلط ہے۔ قربانی کے بعد بال کٹوائیں جو صحیح طریقہ ہے۔ البتہ حج والے افراد پر قربانی واجب نہیں مستحب ہے اگر وہ قربانی نہ کرے اور بال کٹوائے تو جائز ہے۔
چوتھا واجب ’’حلق‘‘ (یعنی سر منڈوانا)
قربانی سے فارغ ہونے کے بعد مرد حاجی پورے سر کے بال منڈوائیں یا ایک انگلی کے پورے کی لمبائی کے برابر بلکہ کچھ زیادہ تمام سر کے بال کتروائیں لیکن اگر بال انگلی کے ایک پور کی لمبائی سے کم ہیں تو سرمنڈوانا ہی ضروری ہے۔ قینچی سے چند بال کترنا حلال ہونے کے لئے ہرگز کافی نہیں۔ رسول پاکﷺ نے دعا فرمائی تھی ’’اے اللہ سر منڈانے والوں کو بخش دے۔‘‘ سر منڈوانے میں پہلے دائیں جانب سے منڈوانا مسنون ہے۔ عورتوں کے لئے سر منڈوانا جائز نہیں۔ آپ کے ساتھ بیوی ہو یا ایسی عورت جس کے آپ محرم ہیں تو یہ حکم ہے کہ انگلی کے ایک پور کے برابر یا اس سے کچھ زیادہ ساری چٹیا پکڑ کر یا چٹیا کے دائیں بائیں اور پیچھے تین حصے کر کے ہر حصے سے انگلی کے ایک پور کے برابر یا اس سے کچھ زیادہ بال کٹوائیں یا کاٹ دیں تو احرام سے نکلنے کے لئے کافی ہے۔ مرد یا عورت نے اگر چوتھائی بالوں سے کم کٹوائے تو واجب ادا نہیں ہو گا اور دم دینا پڑے گا کیونکہ احرام کھلنے کے لئے کم از کم چوتھائی سر کے بال منڈانا یا ایک انگلی کے پورے کے برابر کترنا واجب ہے اور تمام سر کے بال منڈانا یا کترنا واجب ہے۔
بال کٹوانے کے بعد احرام کھول دیں اور روزمرہ کا لباس پہن لیں۔ حج کے تین فرائض ہیں۔
۱) احرام باندھنا
۲)عرفات کی حاضری
۳) طواف زیارت
جس میں اول دو ادا ہو گئے اور تیسرا باقی ہے۔ اس لئے اب احرام کی ساری پابندیوں میں سے صرف ایک پابندی باقی رہے گی یعنی ازدواجی تعلق طواف زیارت کے بعد جائز ہو گا۔
۱۰ ذی الحجہ کا پانچواں اور سب سے اہم کام طواف زیارت
’’اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔‘‘
(سورۃ الحج: ۲۸۔۲۹)
’’میل کچیل دور کریں‘‘ یعنی یوم النحر (۱۰ذی الحجہ) کو قربانی سے فارغ ہو کر حجامت کرائیں، نہائیں، دھوئیں اور وہ پابندیاں ختم کر دیں جو احرام کی حالت میں عائد ہو گئی تھیں۔ جب کہ دوسری تمام پابندیاں تو ختم ہو جاتی ہیں مگر بیوی کے پاس جانا اس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب تک حاجی طواف زیارت نہ کر لے۔ اوپر کی آیت میں ’’اس قدیم گھر کا طواف کریں‘‘ سے مراد طواف زیارت ہے جو یوم النحر کو قربانی کرنے والا حرام کھول دینے کے بعد کیا جاتا ہے اور یہ بھی ارکان حج میں سے ہے۔ یہ طواف قربانی کرنے حلق یا قصر کرنے کے بعد احرام کھول کر نہا دھو لینے کے بعد کیا جانا چاہئے۔ خیال رہے کہ طواف زیارت اپنے روزمرہ کے کپڑوں میں کیا جاتا ہے۔ طواف زیارت کا افضل وقت دسویں ذی الحجہ ہے۔ اگر بارہویں تاریخ تک بارہویں کا آفتاب غروب ہونے سے پہلے پہلے کر لیا جائے تو جائز ہے اور اگر بارہویں تاریخ گزر گئی تو تاخیر کی وجہ سے دم دینا واجب ہو گا اور طواف بھی فرض رہے گا۔ یہ طواف کسی حال میں ساقط نہیں ہوتا اور نہ کوئی اس کا بدل دے کر ادا ہو سکتا ہے بلکہ آخر عمر تک اس کی ادائیگی فرض رہتی ہے اور جب تک اس کو ادا نہیں کیا جائے گا بیوی سے متعلق پابندیاں برقرار رہیں گی۔
آپ نے جب طواف زیارت کر لیا تو اب احرام کی تمام پابندیاں ختم ہو گئیں۔ بیوی سے متعلق جو پابندیاں تھیں وہ بھی ختم ہو گئیں۔ اب آپ کیلئے جو کچھ احرام سے پہلے حلال تھا وہ سب حلال ہو گیا۔
محترم خواتین کے لئے کچھ ایسی قدرتی حالتیں ہوتی ہیں جو انہیں فطری طور پر پیش آتی ہیں جن کی وجہ سے ان کے لئے مسجد میں داخل ہونا، نماز پڑھنا اور تلاوت قرآن ممنوع ہو جاتا ہے اگر حج میں ایسی صورت پیش آ جائے تو وہ حج کے تمام امور انجام دیں صرف طواف اس وقت تک نہ کریں جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں۔ اس تاخیر سے ان پر دم وغیرہ واجب نہیں ہوتا اور نہ کسی طرح کا گناہ ہوتا ہے۔
طواف زیارت کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی
آپ نے حج کا جو احرام باندھا تھا وہ تمتع کا تھا اور جس میں وقوف عرفات سے پہلے یعنی مکہ پہنچ کر آپ نے صرف عمرے کی سعی کی تھی حج کی سعی نہیں کی تھی اس لئے طواف زیارت کے بعد آپ پر صفا مروہ کے درمیان سعی واجب ہے۔ یہ سعی آپ بغیر احرام کے اپنے روزمرہ کے کپڑوں میں کریں گے کیونکہ احرام اس سے پہلے ختم ہو جاتا ہے۔
الحمدللہ دسویں ذی الحجہ کے سارے کام انجام پا گئے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کو زندگی کی اتنی بڑی خوشی عطا کی۔ اپنے گھر میں بلایا، اپنے در کو چھونے کا موقعہ دیا اور میدان عرفات میں قیام کی سعادت عطا کی۔ اب آپ مکمل طور پر احرام کی پابندیوں سے فارغ ہو گئے۔
اب آپ فارغ ہو کر پھر منیٰ چلے جایئے۔ طواف زیارت کے بعد دو رات اور دو دن منیٰ میں قیام کرنا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’یہ گنتی کے چند روز ہیں جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہئیں۔ پھر جو کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں واپس ہو گیا تو کوئی حرج نہیں اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھہر کر پلٹا تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کئے ہوں۔ اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔۲۰۳)
یعنی ایام تشریق میں منیٰ سے مکہ کی طرف واپسی خواہ ۱۲ ذی الحجہ کو ہو یا تیرہویں کو دونوں صورتوں میں کوئی حرج نہیں۔ اصل اہمیت اس کی نہیں کہ تم کتنے دن ٹھہرے بلکہ اس بات کی ہے کہ جتنے دن بھی ٹھہرے ان میں اللہ کا ذکر کرتے رہے یا صرف سیر و تفریح یا میلوں ٹھیلوں میں لگے رہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 99 تا 105
رُوحانی حج و عُمرہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔