یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
’’لا‘‘ کا مراقبہ
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12489
’’لا‘‘ کے معنی نہیں یا نفی کے ہیں۔ ’’لا‘‘ اللہ کی ایک صفت کے انوار کا نام ہے۔ ایسی صفت جس کا تجزیہ ہم ذات انسانی میں کر سکتے ہیں۔ یہی صفت انسان کا لاشعور ہے۔ عمومی طرزوں میں لا شعور اعمال کی ایسی بنیادوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ جن کا علم عقل انسانی کو نہیں ہوتا۔ اگر ہم کسی ایسی بنیاد کی طرف پورے غورو فکر سے مائل ہو جائیں جس کو ہم یا تو نہیں سمجھتے یا سمجھتے ہیں تو اس کی معنویت اور مفہوم ہمارے ذہن میں صرف’’لا‘‘ کی ہوتی ہے۔ یعنی ہم اس کو صرف نفی تصور کرتے ہیں۔
ہر ابتداء کا قانون ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جب ابتداء کی معنویت سے بحث کرتے ہیں یا اپنے ذہنی مفہوم میں کسی چیز کی ابتداء کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس وقت ہمارے تصور کی گہرائیوں میں صرف ’’لا‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے یعنی ہم ابتداء کے پہلے مرحلے میں صرف نفی سے متعارف ہوتے ہیں۔
جب ہمیں ایک چیز کی معرفت حاصل ہو گئی خواہ وہ لاعلمی ہی کی معرفت ہو بہرصور ت معرفت ہے اور ہر معرفت ایک حقیقت ہوا کرتی ہے۔ پھر بغیر اس کے چارہ نہیں کہ ہم لا علمی کی معرفت کا نام بھی علم ہی رکھیں۔ اہل تصوف لاعلمی کی معرفت کو علم ’’لا‘‘ اور علم کی معرفت کو علم ’’الا‘‘ کہتے ہیں۔
’’لا‘‘ کے انوار اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جو وحدانیت کا تعارف کراتی ہیں۔ لا کے انور سے واقف ہونے کے بعد سالک کا ذہن پوری طرح وحدانیت کے تصور کو سمجھ لیتا ہے۔ یہی وہ نقطہ اول ہے جس سے ایک صوفی یا سالک اللہ تعالیٰ کی معرفت میں پہلا قدم رکھتا ہے۔
اس قدم کے حدود اور دائرے میں پہلے پہل اسے اپنی ذات سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔ یعنی وہ تلاش کرنے کے باوجود خود کو کہیں نہیں پاتا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح احساس اور معرفت کا صحیح مفہوم اس کے احساس میں کروٹیں بدلنے لگتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کو فنائیت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
’’لا‘‘ کے مراقبہ سے ذہن میں خضر علیہ السلام، اولیاء تکوین اور ملائکہ پر نظر پڑنے لگتی ہے اور ان سے گفتگو کا اتفاق ہونے لگتا ہے۔ لا کی ایک صلاحیت خضر ؑ ، اولیاء تکوین اور ملائکہ کے اشارات و کنایات کا ترجمہ سالک کی زبان میں اس کی سماعت تک پہنچاتی ہے۔ رفتہ رفتہ سوال و جواب کی نوبت آ جاتی ہے اور ملائکہ کے ذریعے غیبی انتظامات کے کتنے ہی انکشافات ہونے لگتے ہیں۔
’’لا‘‘ کے مراقبے میں آنکھوں کے زیادہ سے زیادہ بند رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔ اس کے لئے کوئی روئیں دار رومال یا کپڑا آنکھوں کے اوپر اس طرح باندھا جاتا ہے کہ پپوٹوں پر ہلکا سا دباؤ پڑتا رہے۔ مراقبے میں سالک تمام خیالات اور تصورات سے ذہن ہٹا کر اپنی ذات کی گہرائیوں میں مرکوز کر دیتا ہے۔ تا کہ اس کے اوپر ایک طرح کی بے خیالی طاری ہو جائے۔ وہ اپنے خیال میں لا علمی کی حالت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 311 تا 313
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔