یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
ملک الموت
مکمل کتاب : مراقبہ
مصنف : خواجہ شمس الدّین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12449
مراقبہ موت میں دیکھا کہ کھیت کے کنارے ایک کچا کوٹھا بنا ہوا ہے۔ کوٹھے کے باہر چہار دیواری ہے۔ چہار دیواری کے اندر صحن ہے۔ صحن میں ایک گھنا درخت ہے۔ غالباً یہ درخت نیم کا ہے۔ اس درخت کے نیچے بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا ایک عورت کھڑی ہے اور ایک صاحب سے الجھ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ تم میرے خاوند کو نہیں لے جا سکتے۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں اس معاملے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے معاملات ہیں۔ وہ جس طرح چاہتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے۔ عورت نے ’’ہائے‘‘ کہہ کر زور سے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر مارے اور زار و قطار رونے لگی۔
میں آگے بڑھا اور پوچھا ’’ کیا بات ہے؟ آپ اس عورت کو کیوں ہلکان کر رہے ہیں‘‘ ۔ان صاحب نے کہا۔ ’’مجھے غور سے دیکھو اور پہچانو کہ میں کون ہوں؟‘‘
میں نے وہیں کھڑے کھڑے آنکھیں بند کر لیں جیسے مراقبہ کرتے وقت بند کی جاتی ہیں اور ان صاحب کو دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ حضرت ملک الموت ہیں۔ میں نے بہت ادب سے سلام کیا اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا دیئے۔ حضرت عزرائیل ؑ نے مصافحہ کیا۔ جس وقت میں نے ان سے ہاتھ ملائے تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے اندر بجلی کا کرنٹ دوڑ رہا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کئی جھٹکے بھی لگے جن سے میں کئی کئی فٹ اوپر اچھل اچھل گیا۔ آنکھوں میں سے چنگاریاں نکلتی نظر آئیں۔
بہت ڈرتے ڈرتے اور تقریباً التجا کے سے انداز میں میں نے پوچھا ’’اس عورت کے خاوند کا کیا معاملہ ہے؟‘‘
حضرت عزرائیل ؑ نے کہا۔ ’’یہ صاحب اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ یہ عورت ان کی بیوی ہے اور یہ بھی برگزیدہ بندی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے پر حکم نازل فرمایا کہ اب تم دنیا چھوڑ دو۔ لیکن مجھے یہ ہدایت ہے کہ اگر ہمارا بندہ خود آنا چاہے تو روح قبض کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بندہ راضی برضا ہے اور اس دنیا سے سفر کرنے کے لئے بیقرار ہے لیکن بیوی صاحبہ کا اصرار ہے کہ میں اپنے شوہر کو نہیں جانے دوں گی تاوقتیکہ ہم دونوں پر ایک ساتھ موت وارد ہو۔‘‘
اس احاطہ میں مٹی اور پھونس کے بنے ہوئے ایک کمرے کے اندر ملک الموت میرا ہاتھ پکڑ کر لے گئے۔ وہاں ایک خضر صورت بزرگ بھورے رنگ کے کمبل پر لیٹے ہوئے ہیں۔ یہ کمبل زمین پر بچھا ہوا ہے۔ سرہانے چمڑے کا ایک تکیہ رکھا ہوا ہے، کہیں کہیں سے سلائی ادھڑی ہوئی ہے اس میں سے کھجور کے پتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا تکیہ ان بزرگ کے سر کے نیچے رکھا ہوا ہے۔ داڑھی گول اور چھوٹی ہے۔ لمبا قد اور جسم بھرا ہوا، پیشانی کھلتی ہوئی، آنکھیں بڑی بڑی اور روشن۔ ایک بات جس کو میں نے خاص طور پر نوٹ کیا یہ تھی کہ پیشانی سے سورج کی طرح شعاعیں نکل رہی تھیں۔ ان پر نظر نہیں ٹھہر رہی تھی۔ حضرت ملک الموت نے کمرے میں داخل ہو کر کہا۔ ’’یا عبداللہ! السلام علیک!‘‘
میں نے بھی ملک الموت کی تقلید میں ’’یا عبداللہ سلام علیک ‘‘ کہا ۔
حضرت عبداللہ(غالباً ان کا نام عبداللہ ہی ہو گا) نے ملک الموت سے ارشاد فرمایا:
’’ہمارے خالق کا کیا حکم لائے ہو؟‘‘
ملک الموت نے دست بستہ عرض کیا’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد فرمایا ہے‘‘۔ حضرت ملک الموت دوزانو ہو کر ان بزرگ کے پاؤں کی طرف بیٹھ گئے۔ بزرگ نہایت آہستگی سے لیٹ گئے۔ جسم نے ایک جھرجھری لی اور اس مقدس اور برگزیدہ ہستی کی روح پُر فتوح اللہ تعالیٰ کے حضور پرواز کر گئی۔ فرشتہ آسمان میں پرواز کر گیا۔ اتنا اونچا، اتنا اونچا۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 281 تا 284
یہ تحریر English (انگریزی) میں بھی دستیاب ہے۔
مراقبہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔