مقاماتِ بیت الحرام
مکمل کتاب : رُوحانی حج و عُمرہ
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11246
کعبہ کا نقشہ ایک بے قاعدہ مستطیل پر بنا ہوا ہے۔ دیواریں جن کا رخ شمال مشرق کی طرف ہے اور سامنے کی دیوار چالیس فٹ لمبی ہے۔ دوسری دو دیواریں ۳۵،۳۵ فٹ کی ہیں اور کعبہ کی اونچائی ۵۵ فٹ ہے۔ کعبہ کی عمارت میں سیاہی مائل بڑے پتھر استعمال کئے گئے ہیں جو مکے کے ارد گرد پہاڑوں میں ہیں۔ کرسی سنگ مر مر کی ہے۔ یہ دس انچ اونچی ہے اور ایک فٹ دیواروں سے باہر نکلی ہوئی ہے۔
شمالی کونہ ، الرکن العراقی
مغربی کونہ ، الرکن الشامی
جنوبی کونہ ، الرکن یمانی
اور مشرقی کونہ، الرکن الاسود کہلاتا ہے۔
سیدنا ابراہیمؑ نے کعبہ کی تعمیر میں مشرق کی طرف دروازہ رکھا تھا۔ دروازہ سطح زمین کے برابر تھا۔ اس میں چوکھٹ اور کواڑ نہیں تھے۔ مشہور ہے کہ دروازے میں چوکھٹ اور کواڑ سب سے پہلے شاہ تبع نے لگائے اور تالے اور چابی کا انتظام کیا۔
شاہ تبع کا بنایا ہوا دروازہ ایک کواڑ کا تھا۔ قریش نے تعمیر کے وقت زمین سے ۴ ذراع (تقریباً ۶فٹ) کی بلندی پر دروازہ بنا کر اس میں دو کواڑ لگا دیئے اور کعبہ کے اندر داخل ہونے کے اوقات مقرر کر کے دروازے پر دربان بٹھا دیا۔ سوموار، جمعرات کو سیڑھی لگا کر دروازہ کھول دیتے تھے، لوگ سیڑھی پر چڑھ کر دہلیز تک آتے تھے۔
ہر دور میں کعبہ کی آرائش و زیبائش کی گئی ہے۔ بہترین قسم کی لکڑی پر چاندی کے پتروں اور سونے کی اشرفیوں سے مرصع دروازے مختلف حکمران لگواتے رہے ہیں موجودہ دروازہ دو کواڑ کا ہے۔ شاہ فہد ابن عبدالعزیز نے ۱۳۹۹ ھ میں یہ دروازہ نصب کرایا تھا۔ دروازے کے کواڑ سونے چاندی سے مرصع ہیں۔
یہ دراصل دو دروازوں کا مجموعہ ہے۔ ایک دروازہ اندرونی ہے اور دوسرا دروازہ بیرونی ہے۔ خانہ کعبہ کا اندرونی دروازہ جسے باب التوبہ کہتے ہیں نقش و نگار اور خوبصورتی میں بیرونی دروازے کی طرح ہے۔
دروازہ بنانے کے لئے مکہ میں ورکشاپ بنوائی گئی تھی۔ اور اسانمی آرٹ کے ماہر انرو ز نے اس کا ڈیزائن باسیا اور ٹلنت مووابہ بدکی کی۔ اس مدی کے لےہ سو دی مالااتی کیاو نے ۲۸ کلوگرام ۹،۹۹ فیصد خالص سونا اور تقریباً ایک کروڑ پینتیس لاکھ ریال فراہم کئے تھے۔
کعبہ شریف کی تولیت سیدنا اسماعیلؑ کے بعد ان کے بڑے بیٹے نابت کو ملی۔ ان کے بعد حضرت اسماعیلؑ کے سسرالی قبیلہ بنو جرہم نے یہ خدمت انجام دی اور بنو خزاعہ نے جب مکہ میں اقتدار حاصل کیا تو کعبہ شریف کی تولیت بھی حکمران قبیلے کو مل گئی۔ صدیوں بعد قصی بن کلاب بن مرہ نے جب مکہ مکرمہ کی سلطنت کے عہدے اپنے بیٹوں میں تقسیم کئے تو کلید برادری کی کدمت عبدالدار کے حصے میں آئی۔ پھر اس کا بیٹا عثمان اس منصب پر فائز ہوا اور یہ سعادت نسل در نسل اس خاندان میں منتقل ہوتی رہی۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت عبدالدار کی چھٹی پشت میں عثمان بن ابی طلحہ اس خدمت پر معمور تھا۔ ہجرت سے پہلے کا تذکرہ ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک روز کعبہ شریف میں داخل ہونے کے لئے چابی مانگی لیکن عثمان بن ابی طلحہ نے انکار کر دیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’عثمان ایک دن یہ چابی میرے ہاتھ میں ہو گی اور میں جسے چاہوں گا دوں گا۔‘‘
عثمان بن طلحہ نے کہا:
’’اگر ایسا ہوا تو قریش ہلاک اور ذلیل و خوار ہو جائیں گے۔‘‘
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’نہیں، بلکہ اس دن وہ آباد اور باعزت ہو جائیں گے۔‘‘
فتح مکہ کے دن سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حرم شریف میں صحابہ کرام کے درمیان رونق افروز تھے۔ آپﷺ نے سیدنا بلالؓ سے ارشاد فرمایا۔ عثمان بن ابی طلحہ سے کہو کہ کعبہ شریف کی چابی لے آئے۔ چابی اس کی والدہ سلوقہ بنت سعد کے پاس تھی اس نے چابی دینے سے انکار کر دیا۔ عثمان نے والدہ سے کہا کہ اگر آج چابی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد نہ کی گئی تو یقیناً مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ یہ سن کر سلوقہ نے اس کو چابی دے دی اور وہ چابی لے کر خدمت میں حاضر ہو گیا۔ دروازہ کھول کر آپﷺ کعبہ شریف کے اندر تشریف لے گئے۔ اسامہ بن زیدؓ، بلال بن رباح اور عثمان بن طلحہ بھی آپﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپﷺ نے کچھ دیر قیام کیا اور نماز قائم کی اور جب باہر تشریف لائے تو چابی آپﷺ کے ہاتھ میں تھی۔ سیدنا عباسؓ چاہتے تھے کہ جس طرح ہمارا قبیلہ سقایہ کی خدمت انجام دے رہا ہے، اسی طرح حجاج کی خدمت بھی انہیں عنایت کر دی جائے۔ آپﷺ نے عثمان بن طلحہ کو طلب فرمایا اور چابی سپرد کرتے ہوئے زمانہ جاہلیت کی بات یاد دلائی۔
عثمان نے کہا۔ بے شک آپﷺ کا ارشاد پورا ہو گیا۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔’’اے طلحہ کی اولاد اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے یہ امانت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قبول کرو۔ اب ظالم کے سوا تم سے یہ امانت کوئی نہیں چھینے گا۔‘‘
فتح مکہ کے دن بیت اللہ شریف کے اندر اور باہر جس قدر بت تھے سب توڑ کر باہر پھینک دیئے گئے اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیت اللہ شریف کو اندر سے دھونے کا حکم دیا اس طرح بیت اللہ شریف کو غسل دینے کا طریقہ رائج ہو گیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 18 تا 20
رُوحانی حج و عُمرہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔