مکہ کے نام
مکمل کتاب : رُوحانی حج و عُمرہ
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=10977
قرآن میں ہے:
’’تحقیق پہلا گھر جو ٹھہرا لوگوں کے واسطے یہی ہے جو بکہ(مکہ) میں ہے۔ برکت والا اور نیک راہ جہاں کے لوگوں کو۔ اس میں نشانیاں ظاہر ہیں کھڑے ہونے کی جگہ ابراہیم کی، اور جو اس کے اندر آیا اسے امن ملا اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا، جو کوئی پاوے اس تک راہ اور جو کوئی منکر ہوا تو اللہ پرواہ نہیں رکھتا جہاں کے لوگوں کی۔‘‘
(آل عمران: ۹۷۔۹۸)
بکہ اور مکہ ایک ہی لفظ ہے۔ بکہ کی ’با‘ میم سے بدل کر یہ لفظ مکہ بن گیا ہے۔ بطلیموس کے جغرافیہ کے مطابق لفظ ’عرب‘ دسویں صدی قبل مسیح میں مستعمل ہوا جبکہ حجاز کے نام سے اس سرزمین کو بہت بعد میں پکارا جانے لگا۔ دوسری صدی مسیح میں مکہ کے لئے ’مکاربا‘ کا نام بھی ملتا ہے۔
توریت میں اس مقام کی نشاندہی مدبار(بادیہ) کے نام سے کی گئی ہے اور قرآن مجید نے اس کو وادی غیر ذی زرع(بن کھیتی کی زمین) کہا ہے۔ لفظ ’’عرب‘‘ کے لفظی معنی بھی بادیہ اور صحرام کے ہیں۔
مکہ کلدانی یا بابلی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بیت(گھر) کے ہیں۔ یونانی زبان میں یہ لفظ ’مکورابا‘ ہے جو سبائی زبان کے لفظ ’مکربی‘ سے مشتق ہے۔ مکربی کا ترجمہ عبادت گاہ ہے۔
مفہوم کے لحاظ سے مکہ ایسی جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں پانی کی قلت ہو اور ظالم اور جابر اپنے انجام کو پہنچتے ہوں۔ مکہ ایسی جگہوں کو بھی کہا جاتا ہے جس کی کشش لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے۔ مکہ کو ’’مکہ‘‘ اس لئے بھی کہتے ہیں کہ یہ شہر کرہ ارض کے وسط میں واقع ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے:
’’بکہ صرف بیت اللہ شریف ہے اور اس کے ماسوا پورا شہر مکہ ہے اور بکہ ہی وہ مخصوص مقام ہے جہاں طواف کیا جاتا ہے۔‘‘
شہروں کی ماں:
سیدنا عبداللہ بن عباسؓاس کی وجہ تسمیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ شہر عزت و تکریم میں دنیا جہاں ک ے شہروں سے بزرگ اور برتر ہے اور چونکہ اسی کو پھیلا کر کرہ ارضی وجود میں آیا ہے اس لئے اسے ام القریٰ’’شہروں کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔
مکہ شریف کے مزید نام یہ ہیں:
۱۔ الکوثی
۲۔ قریۃ النمل
۳۔ الحاطمۃ
۴۔ المعاد
۵۔ معاد
۶۔ الراس
۷۔ الباستہ
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 13 تا 14
رُوحانی حج و عُمرہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔