طواف کی حکمت

مکمل کتاب : رُوحانی حج و عُمرہ

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14317

طواف ایک ایسی عبادت ہے جو بیت اللہ شریف میں کی جاتی ہے۔ خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ کی مرکزیت کا سمبل ہے۔ ہر شئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے آ رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب لوٹ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آنے والی ہر شئے کائنات کا لاشعور ہے۔ اور مخلوق سے اللہ تعالیٰ کی جانب لوٹ جانے والی ہر شئے کائنات کا شعور ہے۔ لاشعور کائنات کا علم ہے اور شعور کائنات کے علم کا مظاہرہ ہے۔


اللہ تعالیٰ کی ذات علیم ہے اور علم کا سورس اللہ ہے۔ علم الٰہیہ کے انوار و تجلیات کا مظاہراتی سطح پر نزول کرنا کائنات کی نزولی حرکت ہے۔ نزولی حرکت میں علم کی تجلی اپنے اندر کے علوم کا مظاہرہ کرتی ہے۔


بیت اللہ شریف کے طواف میں یہ نیت ہوتی ہے کہ ہم اللہ کے گھر کا طواف کر رہے ہیں۔ طواف صعودی اور نزولی دونوں کیفیات پر مشتمل ہے۔ صعودی حرکت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور نزولی حرکت یہ ہے کہ بندہ مقدس زمین پر جسمانی طور پر طواف کرتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک اسپرنگ ہے۔ اس اسپرنگ کے اوپر کے سرے پر تار میں ایک موتی پرویا ہوا ہے۔ اس موتی کو اسپرنگ کے ہر دائرے سے گزارتے ہوئے نیچے لایا جائے۔ سب سے اوپر تار میں پرویا ہوا موتی اسپرنگ کے نچلے حصے میں پہنچ جائے گا۔ جب یہ موتی تار کے انتہائی سرے پر پہنچ جائے، موتی کو واپس اوپر سے نیچے پہنچایا جائے۔ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اسپرنگ کا نزول، صعود راستہ کیلئے ہے۔ موتی کا اوپر سے نیچے آنا لاشعور ہے اور نیچے سے اوپر جانا شعوری حرکات ہیں۔ لیکن شعوری اور لاشعوری دونوں منتہا بلندی ہے۔ جب کوئی خاتون یا مرد اللہ کے گھر کا طواف کرتا ہے تو وہ بیت اللہ شریف کے چاروں طرف گھومتا ہے اور حجر اسود کے سامنے تھوڑی دیر قیام کرتا ہے۔ حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ کے اشارے سے بوسہ دینا اور خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانا طواف ہے۔ طواف کعبہ میں شعور اور لاشعور میں روشنیوں کا ہجوم ہوجاتا ہے۔ روشنیوں اور نور کے ذخیرہ ہونے کی وجہ سے روح مشاہدہ حق میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اعتکاف کرنے والے پر مستی اور بے خودی طاری ہو جاتی ہے۔؎
’’سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ‘‘ میں حکمت و دانائی یہ ہے کہ انسان کے اندر بیداری اور خواب کے حواس پر چھ شعور اور سات لاشعور کام کرتے ہیں۔ لاشعوری حواس یا انسان کی روح اسے عرش کے انوار سے قریب کرتی ہے۔ علیم و خبیر اور علیم و حکیم اللہ چاہتا ہے کہ انسان اپنی انتہا اور ابتداء کو پہچان کر خالق کائنات اللہ کی صفات کا مشاہدہ کرے۔ بیت اللہ شریف اللہ کا گھر ہے۔ اللہ کی عبادت اور وحدانیت کو قائم رکھنے کے لئے مرکز ہے۔ بیت اللہ شریف پر ہر لمحہ اور ہر آن انوار و تجلیات کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ فرشتے ہمہ وقت طواف کرتے رہتے ہیں۔ انبیاء اور اولیاء اللہ کی ارواح طیبہ طواف میں مصروف رہتی ہیں۔ فرشتوں کے انوار اور انبیاء کرام کے نور و نبوت اور اولیاء کرام کی فراست کی روشنیاں ایسا ماحول بنا دیتی ہے کہ ’’خانہ کعبہ‘‘ بقعہ نور بن جاتا ہے۔ جب حاجی بظاہر طواف کرتا ہے تو اس کے اوپر انوار کی بارش برستی ہے۔ نور کی بارش اور تجلی کی لطافت کثیر تعداد میں لوگ محسوس کرتے ہیں۔
جب حاجی یا زائر تلبیہ لبّیک اللّٰھم لبیّک، لبّیک لا شریک لک لبّیک، ان الحمد والنّعمۃ لک والملک، لا شریک لک پڑھتے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہے تو انوار اس کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ قرب الٰہی کا ادراک ہوتا ہے۔ روح کی سرشاری سے بندہ رب العالمین کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ جن پاکیزہ لوگوں نے خانہ کعبہ پر نزول کرنے والی تجلیات کا مشاہدہ کیا ہے وہ بتاتے ہیں:
’’ہم نے محسوس کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہیں۔‘‘
کچھ لوگوں نے بتایا کہ ہم نے خانہ کعبہ سے نکلنے والی ماورائی روشنیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔
ایک بزرگ نے زار و قطار روتے ہوئے بتایا کہ میں نے اللہ کو دیکھا ہے۔ میرا وجود محسوسات کے دائرے سے نکل گیا۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ میں اللہ کے نور کا ایک ذرہ ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے مخاطب ہیں۔ ’’ہم نے تیری حاضری قبول فرمائی۔‘‘
ایک صاحب نے سیدنا حضورﷺ کی مسجد نبوی میں معراج شریف کے سامنے درود و سلام پڑھتے وقت دیکھا کہ روضہ مبارک کے اندر سیدنا حضرت عمرؓ، سیدنا ابو بکر صدیقؓ اور سیدنا حضرت علیؓ تشریف فرما ہیں۔
حضور پاکﷺ کے ایک امتی کو اذنِ زیارت ہوا۔ یہ امتی اپنی روح کے ساتھ حضورﷺ اور صحابہ کرام کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر سلام کرتا ہے اور دعا کی درخواست کرتا ہے۔
ایک سالک نے بتایا کہ میں پورے دن مسجد نبوی میں درود شریف کا ورد کرتا رہا۔ افطار کے وقت چھتری کے نیچے میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ اپنے اہل بیت کے ساتھ افطار فرما رہے ہیں۔ الحمد للہ میں نے حضرت عائشہؓ اور بی بی فاطمہؓ کی بہت قریب سے زیارت کی۔ حضرت بی بی فاطمہؓ نے افطار کیلئے مجھے کھجور عطا کی۔
روحانی علوم کے امین ایک بزرگ نے ارشاد فرمایا۔
تہجد کے بعد باب جبرائیل کے قریب آسمان سے نور کی آبشار نزول کرتی ہوئی نظر آئی۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کو حضرت محمدﷺ کے پاس نہایت مؤدب بیٹھے ہوئے دیکھا۔ صفا میں مراقبہ میں نور نبوت کا مشاہدہ ہوا۔ ۱۴ سو سال پہلے کے حضورﷺ اور ازدواج مطہرات کے گھر(حجرے) دیکھے اور چودہ سو سال پہلے کی مسجد نبوی نظر آئی۔
پنج وقتہ نمازی اور تہجد گزار، زاہد نے بتایا کہ حضورﷺ کے اقتدار میں فجر کی نماز ادا کی۔ سیدنا حضورﷺ نے سورۃ الاعلی کی تلاوت فرمائی۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 118 تا 121

رُوحانی حج و عُمرہ کے مضامین :

1.1 - مکہ بحیثیت مرکز 1.2 - امیرِ حج 1.3 - انبیائے کرامؑ کی قبور 1.8 - غُسلِ کعبہ 1.11 - رُکن یمانی 1.4 - مکہ کے نام 1.9 - حجرِاسود 1.16 - فضائلِ حج 1.5 - بیت اللہ شریف کے نام 1.6 - مسجد الحرام 1.10 - ملتزم 1.7 - مقاماتِ بیت الحرام 1.12 - میزاب 1.13 - حطیم 1.13 - حطیم 1.14 - مقامِ ابراہیمؑ 1.15 - زم زم 1.12 - میزاب 1.8 - غُسلِ کعبہ 2.2 - عُمرہ 2.6 - طواف کی مکمل دعائیں اور نیت 2.7 - مقام مُلتزم پر پڑھنے کی دعا 2.10 - سعی کے سات پھیرے اور سات خصوصی دعائیں 2.14 - ۹ ذی الحجہ ۔ حج کا دوسرا دن 2.15 - وقوفِ عرفات 2.17 - ۱۰ذی الحجہ۔۔۔حج کا تیسرا دن 2.21 - دربارِ رسالتﷺ کی فضیلت 2.3 - زم زم 2.11 - مناسکِ حج 2.1 - حج اور عمرے کا طریقہ 2.19 - ۱۲ذی الحجہ۔۔۔حج کا پانچواں دن 2.4 - سعی صفا و مروہ 2.5 - سعی کا آسان طریقہ 2.8 - مقام ابراہیمؑ کی دعا 2.9 - سعی کی مکمل دعائیں اور نیت 2.12 - ایامِ حج 2.13 - 8 ذی الحجہ۔ حج کا پہلا دن 2.16 - عرفات سے مزدلفہ روانگی 2.18 - ۱۱ذی الحجہ۔۔۔حج کا چوتھا دن 2.20 - طوافِ وِداع 3.4 - طواف کی حکمت 3.8 - چالیس نمازیں ادا کرنے کی حکمت، حکمتِ طواف، حدیث مبارک 3.1 - ارکان حج و عمرہ کی حکمت 3.2 - کنکریاں مارنے کی حکمت 3.3 - سعی کی حکمت 3.5 - حلق کرانے کی حکمت 3.6 - احرام باندھنے کی حکمت 3.7 - آب زم زم کی حکمت 4.6 - حضرت ابو یزیدؒ 4.15 - حضرت ابو سعید خزازؒ 4.23 - خواجہ معین الدین چشتیؒ 4.27 - ڈاکٹر نصیر احمد ناصر 4.33 - حضرت حاتم اصمؒ 4.43 - حضرت داتا گنج بخشؒ 4.47 - حضرت خواجہ محمد معصومؒ 4.1 - مشاہدات انوار و تجلیات 4.2 - مشاہدات و کیفیات – حضرت امام باقرؒ 4.4 - مشاہدات و کیفیات – شیخ اکبر ابن عربیؒ 4.7 - حضرت عبداللہ بن مبارکؒ 4.9 - صوفی ابو عبداللہ محمدؒ 4.10 - حضرت احمد بن ابی الحواریؒ 4.11 - شیخ نجم الدین اصفہانیؒ 4.13 - شیخ حضرت یعقوب بصریؒ 4.14 - حضرت ابوالحسن سراجؒ 4.5 - حضرت ابو علی شفیق بلخیؒ 4.8 - حضرت شیخ علی بن موفقؒ 4.16 - حضرت عبداللہ بن صالحؒ 4.12 - حضرت ذوالنون مصریؒ 4.17 - حضرت لیث بن سعدؒ 4.18 - حضرت شیخ مزنیؒ 4.20 - حضرت جنید بغدادیؒ 4.21 - حضرت شیخ عثمانؒ 4.19 - حضرت مالک بن دینارؒ 4.22 - حضرت شبلیؒ 4.24 - حاجی سید محمد انورؒ 4.25 - مولانا محب الدینؒ 4.26 - شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریاؒ 4٫28 - حضرت علیؓ 4٫29 - حضرت عائشہؓ 4.30 - حضرت بلالؓ 4.31 - حضرت ابراہیم خواصؓ 4.32 - شیخ ابوالخیر اقطعؒ 4.34 - شیخ عبدالسلام بن ابی القاسمؒ 4٫36 - حضرت سفیان ثوریؒ 4٫37 - شیخ ابو نصر عبدالواحدؒ 4.38 - حضرت ابو عمران واسطیؒ 4.39 - حضرت سید احمد رفاعیؒ 4.40 - حضرت شیخ احمد بن محمد صوفیؒ 4.41 - حضرت شاہ ولی اللہؒ 4.42 - حضرت آدم بنوریؒ 4.44 - حضرت شاہ گل حسن شاہؒ 4.46 - حضرت خواجہ محمد سعیدؒ 4.48 - حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ 4.45 - پیر سید جماعت علی شاہؒ 4.49 - شیخ الحدیث حضرت مولانا سید بدر عالم میرٹھیؒ 4.50 - حضرت مہر علی شاہؒ 4.51 - شیخ ابن ثابتؒ 4٫52 - حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ 44 - مناسکِ حج
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)