طرزِ فکر کی منتقلی کس قانون سے ہوتی ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11877
سوال: روحانیت کو ایک مخصوص طرزِ فکر کا حُصول(منتقلی) کہہ کر بیان کیا گیا ہے، طرزِ فکر کی یہ منتقلی کیوں کر اور کس قانون کے تحت عمل میں آتی ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ ہر نوع میں بچے اس مخصوص نوع کے نقش و نگار پر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بلی آپ سے کتنی ہی مانوس ہو لیکن اس کی نسل بلی ہی ہوتی ہے۔ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ بکری سے گائے پیدا ہوتی ہو یا گائے سے کبوتر پیدا ہوتا ہو۔ کہنا یہ ہے کہ شکم مادر میں ایک طرف نوعی تصوّرات بچے کو منتقل ہوتے ہیں اور دوسری طرف ماں کے یا باپ کے تصوّرات بچے کو منتقل ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تصوّرات میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق مقداریں متعین ہیں۔
تیسویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے تخلیق کی۔ اور مقداروں کے ساتھ ہدایت بخشی۔‘‘
یہ مقداریں ہی کسی نوع کو الگ کرتی ہیں اور نوعوں میں افراد کو الگ کرتی ہیں۔
اس نقطہ نظر سے جب ہم سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی بعثت کے بارے میں غور کرتے ہیں تو یہ بات واضح طو رپر سامنے آ جاتی ہے کہ حضورﷺ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد ہیں یعنی حاصلِ کائناتﷺ حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام تک تمام انبیائے کرام کی معین مقداریں منتقل ہوئیں یعنی تمام انبیاء کا وہ ذہن جس میں اللہ بستا ہے حضورﷺ کو بطور ورثے کے منتقل ہوا۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا ذہن مبارک بعثت سے پہلے ہی تمام انبیاء کی منازل طے کر چکا تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنا کرم فرمایا تو حضورﷺ کو وہ مقام عطا ہوا جو کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ بہت زیادہ غور طلب ہے کہ قرآن پاک میں جتنے انبیاء کا تذکرہ ہوا ہے وہ تقریباً سب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد ہیں۔ یعنی ایک نسل کی طرزِ فکر برابر منتقل ہوتی رہی۔
چوں کہ نبوت ختم ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قانون جاری و ساری ہے۔ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق اللہ کی سنت میں نہ تعطّل ہوتا ہے نہ تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کو جاری و ساری رکھنے کا پروگرام حضورﷺ نے اپنے ورثاء کو منتقل کیا جو اللہ کے دوست ہیں اور جن کو عرف عام میں اولیاء اللہ کہا جاتا ہے۔ شیخ یا مراد حضورﷺ کی ایسی طرزِ فکر کا وارث ہوتا ہے۔ جب کوئی بندہ یا مرید اپنے شیخ کی طرزِ فکر حاصل کرنا چاہے تو اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ وہ شیخ کی نسبت حاصل کرے۔ شیخ کی نسبت حاصل کرنے میں پہلا سبق ’’تصوّرِ شیخ‘‘ ہے۔
جب مرید یا سالک آنکھیں بند کر کے ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اپنے شیخ کا تصوّر کرتا ہے تو اس کے اندرِ شیخ کی طرزِ فکر منتقل ہوتی ہے۔ طرزِ فکر دراصل روشنیوں کا وہ ذخیرہ ہے جو حواس بناتی ہیں۔ شعور بناتی ہیں، زندگی کی ایک نہج بناتی ہیں۔ جب ہم اپنے ارادے کے تحت شیخ کا تصوّر کریں گے تو تصوّر میں گہرائی پیدا ہونے کے بعد شیخ کے اندر کام کرنے والی وہ روشنیاں جو اسے سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام سے منتقل ہوئی ہیں، ہمارے اندر منتقل ہو جائیں گی۔
ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ جب کوئی مرید اپنے شیخ کے تصوّر میں گم ہو گیا تو اس کی چال ڈھال گفتگو اور شکل و صورت میں ایسی نمایاں شباہت پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ پہچاننا مشکل نہیں رہتا کہ یہ اپنے شیخ کا عکس ہے چونکہ شیخ کا تصوّرِ شیخ کے اندر کام کرنے والی طرزِ فکر کی منتقلی کا باعث بنتا ہے۔ اس لئے اس تصوّر کی گہرائی کے ساتھ ساتھ حضورﷺ کی طرزِ فکر بھی منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اس لئے کہ شیخ حضورﷺ کی طرزِ فکر کا عکس ہے، تمثل ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 38 تا 40
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔