یقین کے کیا عوامل ہیں؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12002
سوال: یقین کے پیٹرن میں کس طرح ردّ و بدل کیا جا سکتا ہے؟
جواب: لاتعداد اور ماورائی واقعات میں سے چند مزید واقعات کا دہرا دینا اس لئے ضروری ہے کہ راہِ سلوک کے مسافروں کے سامنے وہ تمام مراحل آ جائیں جن مراحل سے گزر کر کوئی سالک إستغناء کے دائرے میں قدم رکھتا ہے اور اس کے ذہن میں إستغناء اور بے نیازی کا ایسا پیٹرن تربیت پا جاتا ہے جس کی بنیاد پر سالک غیر اختیاری طور پر بھی اپنے معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ ابھی ہم نے یہ بتایا ہے کہ یقین پیدا ہونے کیلئے ضروری ہے کہ آدمی کو یقین کے عوامل سے اس طرح ردّ و بدل کر دیا جائے کہ یقین اس کی زندگی کا احاطہ کر لے۔ ایسا احاطہ کہ شعوری اختیار سے جاننے کے باوجود وہ اُس احاطہ یا اُس دائرے سے قدم باہر نہ نکال سکے۔
یقین کی تعریف میں ہم پچھلے اسباق میں بالوضاحت بتا چکے ہیں کہ پیدائش سے موت تک اور موت کے بعد کی زندگی میں اَعراف، حشر و نشر، حساب و کتاب، جنّت و دوزخ اور اللہ تعالیٰ کی تجلّی کا دیدار سب کا سب یقین کے اوپر قائم ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آدمی کو سب سے پہلے اس بات کا یقین پیدا ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ وہ موجود ہے ، اس کے اندر عقل و شعور کام کرتا ہے، وہ ایک حد تک بااختیار ہے اور بڑی حد میں اس کے اوپر غیر اختیاری کیفیات نازل ہوتی رہتی ہیں مثلاً کوئی آدمی اپنے ارادے اور اختیار سے اگر سانس لینا شروع کر دے تو چند منٹ میں وہ ہانپ جائے گا۔ کوئی آدمی اپنے ارادے اور اختیار سے سانس نہ لینے کا عمل اختیار کرے تو بیمار ہو جائے گا۔ یا اس کے دماغ میں خون جم جائے گا۔ اسی طرح کوئی آدمی زندگی کے بنیادی تقاضے بھوک میں اپنا ذاتی اختیار استعمال نہیں کرتا عام زندگی میں بھوک لگتی ہے، وہ کچھ کھا لیتا ہے۔ پیاس لگتی ہے پانی پی لیتا ہے۔ یہی حالت آدمی کے اندر اس مشین کی ہے جو مشین مسلسل متواتر ہر لمحہ اور ہر آن چل رہی ہے۔ اس مشین کے کل پرزے اعضائے رئیسہ دل پھیپھڑے گردے جگر پتہ اور آنتوں کی حرکت مسلسل جاری ہے۔ چار ارب (اُس وقت کی معلوم انسانی آبادی) کی آبادی میں ایک آدمی ایسا نہیں ہے جو اپنے ارادے اور اختیار سے اپنے اندر فٹ کی ہوئی مشین کو چلاتا ہے۔ مشین بالکل غیر اختیاری طور پر چل رہی ہے۔ اس مشین میں جو ایندھن استعمال ہوتا ہے اس پر بھی انسان کی کوئی دسترس نہیں ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب یہ مشین بند ہو جاتی ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت یا ترقی اسے چلا نہیں سکتی۔ یہ مشین قدرتی نظام کے تحت بتدریج بھی بند ہو جاتی ہے اور ایک دَم بھی بند ہو جاتی ہے۔ بتدریج بند ہونے کا نام بیماری رکھا جاتا ہے اور مشین کے ایک دَم بند ہو جانے کو حرکت قلب بند ہو جانا یا ہارٹ فیل کہا جاتا ہے۔
انسان یہ سمجھتا ہے کہ بیماری کا علاج اختیاری ہے۔ اگر بیماریوں کا علاج اختیاری ہے تو دنیا میں کوئی آدمی مرتا نہیں۔ علیٰ ہذا القیاس زندگی کے بنیادی عوامل اور وہ تمام محرکات جن پر زندگی رواں دواں ہے انسان کے اختیار میں نہیں ہیں۔ اگر ہم بنیاد پر نظر ڈالیں تو زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب آدمی پیدا ہوتا ہے اور پیدائش پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ لاکھوں سال کے طویل عرصے میں ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں ہوا جو اپنے ارادے اور اختیار سے پیدا ہو گیا ہو۔ پیدا ہونے والی ہر چیز پیدا ہونے والاہر فرد ایک وقت مُتعیّنہ کے لئے اس دنیا میں آتا ہے اور جب وہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو آدمی ایک سیکنڈ کیلئے بھی اس دنیا میں ٹھہر نہیں سکتا۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں زیادہ سوچ بچار تفکر یا ذہنی گہرائی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر لمحہ ہر آن ہر منٹ ہر سیکنڈ یہ صورت حال واقع ہو رہی ہے۔
مختصر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے پیدا کرتے ہیں ،چاہتے ہیں تو آدمی صحت مند پیدا ہوتا ہے، نہیں چاہتے تو آدمی کی نشوونما میں ایسا سُقَم واقع ہو جاتا ہے کہ اس کے اعضاء صحیح ہوتے ہیں نہ اس کا دماغ صحیح ہوتا ہے۔ اس کی نظر بھی صحیح کام نہیں کرتی۔ ہاتھ پیروں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی چیز کو پکڑ نہیں سکتا۔ اپنی مرضی سے چل پھر نہیں سکتا۔ سائنس کتنی بھی ترقی کر لے پیدائشی اپاہج اور معذور بچوں کا علاج اس کے پاس نہیں ہے۔ اور اس قسم کے معذور بچوں کو یہ کہہ کر رُد کر دیا جاتا ہے کہ یہ پیدائشی اپاہج مریض ہیں۔ یہاں بھی انسان کی بے بسی اور بے اختیاری اظہر مِن الشمس ہے۔ سورج کی طرح عیاں ہے۔ قدرت جب بچوں کو پیدا کرتی ہے تو مختلف صورتوں میں پیدا کرتی ہے۔ قد و کاٹھ مختلف ہوتا ہے، یہ نہیں دیکھا گیا کہ کوئی بنیادی طور پر کوتاہ قد آدمی ۷ فٹ کا بن گیا ہو۔ ایسی بھی دنیا میں کوئی مثال نظر نہیں آتی کہ ۷ فٹ کا آدمی گھٹ کر ڈھائی فٹ کا ہو گیا ہو۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قد و قامت کے معاملے میں بھی آدمی بے اختیار ہے۔
اب مسئلہ ذہنی صلاحیت اور عقل و شعور کا آتا ہے۔ لوگوں میں جب ہم عقل و شعور کا موازنہ کرتے ہیں تو کوئی آدمی ہمیں زیادہ باصلاحیت ملتا ہے، کوئی آدمی ہمیں کم صلاحیت والا ملتا ہے اور کوئی آدمی بالکل بے عقل ملتا ہے۔
سائنس خلاء میں چہل قدمی کا دعویٰ کر سکتی ہے لیکن ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی ہے کہ بے عقل آدمی کو عقل مند کر دیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی مرضی سے عقل و شعور بخشتے ہیں۔ آدمی کے اندر اللہ تعالیٰ فکر اور گہرائی عطا کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے اندر اللہ تعالیٰ فکر اور گہرائی پیدا کر دیتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی چیز ہے۔ لیکن جب وہی فکر اور شعور اور گہرائی اُن سے چھین لی جاتی ہے، اُس وقت وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ زندگی کے تمام اجزاءِ ترکیبی کسی ایک طاقت کے پابند ہیں وہ طاقت جس طرح چاہے چلاتی ہے اور جس طرح چاہے نہیں چلاتی۔
مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا ہے کہ لوگ نادان ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہماری گرفت حالات کے اوپر ہے انسان اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق حالات میں ردّ و بدل کر سکتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ انسان ایک کھلونا ہے۔ حالات جس قسم کی چابی اس کھلونے میں بھر دیتے ہیں اسی طرح یہ کُودتا ہے، ناچتا ہے، آوازیں نکالتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر فی الواقع حالات پر انسان کو دسترس حاصل ہوتی تو کوئی آدمی غریب نہ ہوتا۔
موت کے پنجے نے ان کی گردن مروڑ دی اور دنیا پر ان کا نام و نشان نہیں رہا۔ یہ شداد اور نمرود اور فرعون کی مثالیں ایسی نہیں ہیں کہ جس کو ہم تاریخی باتیں کہہ کر گزر جائیں۔ تاریخ ہر زمانے میں خود کو دہراتی ہے۔ البتہ رنگ و روپ نام اور شکل بدل جاتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں شہنشاہِ ایران کی مثال سامنے ہے۔ جس نے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ منائی، موت کے پنجے نے اس کو اس قدر بے بس اور ذلیل کر دیا کہ اس کے لئے اس کی سلطنت کی زمین بھی تنگ ہو گئی وہ دیارِ غیر میں مر گیا اور کوئی اس کا پُرسان حال نہیں۔ اگر حالات انسان کے بس میں ہیں تو اتنا بڑا بادشاہ غریبُ الدّیار نہیں ہو سکتا۔ یہ اور اس قسم کی بے شمار باتیں ہمارے ساتھ ہر روز پیش آتی رہتی ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم ان باتوں پر غور نہیں کرتے اور ان سب باتوں کو اتفاق کہہ کر گزر جاتے ہیں جبکہ کائنات میں اتفاق یا حادثہ کو ہرگز کوئی دخل نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے جو مربوط ہے۔ ہر نظام کی دوسرے نظام کے ساتھ وابستگی ہے۔ اس نظام میں نہ کہیں اتفاق ہے نہ کہیں حادثہ ہے، نہ کوئی قدرتی مجبوری ہے۔ اللہ کا ایک نظام ہے اور اس نظام کو چلانے والے کارندے اللہ کے حکم اور اللہ کی مشیئت کے مطابق اسے چلا رہے ہیں۔ آدمی کیا ہے؟ کٹھ پتلی ہے۔ جس طرح کائنات کا نظام چلانے والے کارکن ڈوریوں کو حرکت دیتے ہیں آدمی چلتا رہتا ہے۔ ڈوریاں ہلنا بند ہو جاتی ہیں آدمی مر جاتا ہے۔ یہ باتیں اس لئے عرض کی گئی ہیں کہ میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ إستغناء اس وقت تک کسی شخص کے اندر پیدا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے یقین میں یہ بات واضح نہ ہو جائے کہ ہر چیز مِن جانب اللہ ہے۔ جب کسی بندے کے اندر یہ بات یقین بن جاتی ہے کہ اس نظام میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی حرکت اور بڑی سے بڑی شئے اللہ کے بنائے ہوئے ایک مربوط نظام کے تحت قائم ہے تو اس کے اندر ایک ایسا پیٹرن بن جاتا ہے جس کا اصطلاحی نام إستغناء ہے۔ اس پیٹرن کو جب تحریکات ملتی ہیں اور زندگی میں مختلف واقعات پیش آتے ہیں تو ان واقعات کی کڑیاں اس قدر مضبوط مستحکم اور مربوط ہوتی ہیں کہ آدمی کی عقل یہ سوچنے اور ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں۔ اب میں ان واقعات کا اعادہ کروں گا جو إستغناء کی دولت کے حُصول پر وقتاً فوقتاً میرے ساتھ پیش آتے رہے۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کسی چیز کے اوپر یقین کا کامل ہو جانا اسی وقت ممکن ہے جب وہ چیز یا عمل جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ یہ کس طرح ہو گی بغیر کسی ارادے اور اختیار اور وسائل کے پوری ہوتی رہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں کمرے میں بیٹھا ہوا لوح و قلم کے صفحات دوبارہ لکھ رہا تھا۔ عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا۔ لاہور سے کچھ مہمان آ گئے۔ عام حالات میں چونکہ تھوڑی دیر کے بعد کھانے کا وقت تھا اس لئے ذہن میں یہ بات آئی کہ ان مہمانوں کو کھانا کھلانا چاہئے۔ یہ اس دَور کا واقعہ ہے جب میں حیرت کے مقام پر سفر کر رہا تھا اور نہ صرف یہ کہ کوئی کھانے پینے کا انتظام نہیں تھا۔ لباس بھی مختصر ہو کر ایک لنگی اور ایک بنیان رہ گیا تھا۔ یہ الگ ایک داستان ہے کہ اس لباس میں گرمی سردی اور برسات کس طرح گزری ۔ جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو ہمت اور توفیق عطا کر دیتے ہیں اور بڑی سے بڑی مشکلات اور پریشانیاں پلک جھپکتے گزر جاتی ہیں۔ قصّہ کوتاہ یہ کہ ذہن میں یہ بات آئی کہ پڑوس میں سے ۵ روپے ادھار مانگ لئے جائیں اور ان روپوں سے خورد و نوش کا انتظام کیا جائے۔ خیال آیا کہ اگر ۵ روپے دینے سے انکار کر دیا گیا تو بڑی شرمندگی ہو گی۔ پھر خیال آیا کہ جھونپڑی والے ہوٹل سے کھانا ادھار لے لیا جائے۔ طبیعت نے اس بات کو بھی پسند نہیں کیا۔ یہ سوچ کر خاموش ہو رہا کہ اللہ چاہے گا تو کھانے کا انتظام ہو جائے گا۔ اور میں کمرے سے باہر آیا جیسے ہی دروازے سے قدم باہر نکلا۔ چھت میں سے ۵ روپے کا ایک نوٹ گرا۔ نوٹ اس قدر نیا اور شفاف تھا کہ زمین پر گرنے کی آواز آئی۔ فرش پر جب ایک نوٹ نیا پڑا ہوا دیکھا تو نہ معلوم طریقے سے میرے اوپر دہشت طاری ہو گئی۔ لیکن یکایک ذہن میں ایک آواز گونجی یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ وہ نوٹ اٹھا لیا گیا اور کھانے پینے کا بہ فراغت انتظام ہو گیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 100 تا 105
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔