ہر شئے دو رخوں پر ہے
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=13317
سوال: زندگی کے دو رخ سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کو دو رخوں پر کیوں تخلیق کیا ہے؟
جواب: سماعت، بصارت، احساس، قوّتِ گویائی کے حواس، اَلَستُ بِرَبِّکُم…. کہنے سے پہلے کائنات کو حاصل نہیں تھے۔ کائنات اور کائنات کے اندر اربوں، کھربوں زمینوں کی حرکات و سکنات پر تفکر کیا جائے تو یہ بات مشاہدہ میں آتی ہے کہ ہر حرکت اور عمل اور ہر احساس کہیں سے آ رہا ہے اور کہیں جا کر گم ہو رہا ہے۔ کائنات نزول و صعود میں مسلسل حرکت کر رہی ہے اور ہر نزولی و صعودی حرکت ایک مخفی رشتے کے ساتھ بندھی ہوئی ہے اور یہی مخفی رشتہ کسی ایک نَوع یا نَوع میں سے کسی ایک فرد کا احساس یا شعور بن رہا ہے۔
فرد کی ایک حرکت جسمانی خدوخال کے ساتھ واقع ہوتی ہے لیکن جسمانی خدوخال کے ساتھ واقع ہونے والی حرکت کو ہم منفرد یا اختیاری حرکت نہیں کہہ سکتے۔ یہ حرکت بہرحال کسی نہ کسی حرکت کے تابع ہے۔ جسمانی حرکات جن کو خارجی زندگی کہا جاتا ہے کے برعکس جس مخفی احساس کے اوپر جسمانی وجود حرکت کرتا ہے وہ داخلی زندگی یا فرد کا لاشعور ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ ساری کائنات کا ایک ہستی کے ساتھ منسلک ہونا کائنات کا اجتماعی شعور ہے۔ آخری کتاب قرآن میں ہے کہ :
’’ہم نے سب چیزوں کو دو قسموں میں پیدا کیا ہے‘‘۔ (سورۃ الذّاریات – 49)
دو قسمیں یا دو رُخ مل کر ایک وجود ہوتے ہیں اس کی مثال پانی کی ضرورت یا تشنگی ہے، پیاس شئے کا ایک رخ ہے اور پانی دوسرا رخ ہے۔ پیاس روح کی شکل و صورت اور پانی جسم کی شکل و صورت ہے۔ جب ہم پیاس کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں دو رخ آتے ہیں۔ ایک رخ روح اور دوسرا رخ ہم خود۔ یہ دونوں رخ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ قانون یہ بنا کہ اگر دنیا سے پیاس کا احساس فنا ہو جائے تو پانی بھی فنا ہو جائے گا۔ پانی اس لئے موجود ہے کہ پانی کی روح موجود ہے، روح کی موجودگی سے جسم کا موجود ہونا ثابت ہوتا ہے۔ جسم کی موجودگی سے روح کا موجود ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
روزمرّہ کا مشاہدہ ہے کہ آدمی مر جاتا ہے۔ جسمانی حیثیت برقرار رہتی ہے لیکن حرکت نہیں رہتی اور اگر اس جسم کو جس کے ساتھ روح متّصِل نہیں ہے کچھ عرصہ پڑا رہنے دیا جائے تو جسم ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتا ہے اور بالآخر مٹی کے ذرّات میں تبدیل ہو جاتا ہے لیکن اس کے برعکس جسمانی خدوخال کے ساتھ جب روح موجود ہے، جسم نہ گھلتا ہے، نہ سڑتا ہے۔ روح والا رُخ تمثّل ہے اور مادّی رخ جسم ہے۔
کائنات اور کائنات کے ارتقائی مراحل کو سمجھنے کے لئے یا زندگی سے متعارف ہونے کے لئے ہم جب تفکر کرتے ہیں تو خود کو ٹائم اور اسپیس میں مقید محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ زندگی کا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جس کو ہم زمان ومکان سے باہر دیکھ سکیں۔ جب بھی کائنات یا کائنات کے خدوخال کا تذکرہ آئے گا انسانی علم مجبور ہے کہ وہ ٹائم اسپیس میں قید ہو کر بات کرے۔ زندگی کا تعارف خدوخال اور نقش و نگار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ زندگی کا ایک حصّہ خدوخال اور نقش و نگار پر مشتمل ہے اور دوسرا حصّہ رفتار کے اوپر قائم ہے۔
اگر دنیا میں کہیں وبائی امراض پھوٹ پڑیں تو اللہ کے قانون کے مطابق یہ امر یقینی ہے کہ اس کی دوا پہلے سے موجود ہو گی۔ جب ہم گرمی محسوس کرتے ہیں تو اس وقت احساس کے اندرونی رخ پر سردی کا احساس ہوتا ہے، جب تک اندرونی طور پر سردی کا احساس باقی رہتا ہے۔ خارجی طور پر گرمی محسوس ہوتی ہے۔ اس بات کو زیادہ وضاحت سے اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر گرمی سردی دونوں رخوں میں سے کوئی ایک رخ فنا ہو جائے تو ہم نہ گرمی کا تذکرہ کر سکتے ہیں، نہ سردی کا تذکرہ کر سکیں گے۔ اصل میں دو رخ مل کر ہی ایک احساس بنتے ہیں۔ جب تک دونوں رخ موجود نہ ہوں حرکت زیر بحث نہیں آتی۔ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو مخصوص خدوخال اور نقش و نگار کے ساتھ ساٹھ ستر سال زندہ رہتا ہے، نقش و نگار اور خدوخال میں جیسے جیسے تبدیلی واقع ہوتی ہے جیسے جیسے قد و قامت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے وہ نظر آتا ہے لیکن پیدائش سے ساٹھ ستر سال کا وقفہ ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتا۔
زندگی جس وقت (ٹائم) پر رواں دواں ہے۔ جس کو شعور دن اور ماہ و سال میں ریکارڈ کرتا ہے اس کو ہماری ظاہری آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ زندگی کا ایک رخ آنکھوں کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا رخ آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ وہ رخ جو آنکھوں کے سامنے ہے اور جس میں ہم نقش و نگار اور خدوخال کا بڑھنا گھٹنا دیکھتے ہیں سب کا سب مکان، اسپیس ہے اور جس خلاء میں یہ خدوخال گھٹ رہے ہیں اور بڑھ رہے ہیں اور جو آنکھوں سے اوجھل ہے وہ زمان (ٹائم) ہے۔ یعنی انسان جہاں سے آیا ہے، انسان کا بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپا جہاں گیا وہ ٹائم ہے اور انسان نے جس طرح بچپن، جوانی اور بڑھاپے کو خدوخال کے ساتھ محسوس کیا وہ مکان (اسپیس) ہے۔
جب ہم زمان یا ٹائم کا تذکرہ کرتے ہیں تو روحانی نقطۂِ نظر سے ساری کائنات زمانیت میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم رشتہ ہے اور جب مکانیت کا تذکرہ کرتے ہیں تو کائنات نَوعی اعتبار سے اور انفرادی اعتبار سے الگ الگ ہے۔ ہم بھیڑ، بکری، بندر، چوہا، کتا اور انسان کی زندگی کا تذکرہ کرتے ہیں تو زندگی اور انرجی سب میں مشترک ہے۔ لیکن جب ہم نَوعی اعتبار سے کائنات کا تذکرہ کرتے ہیں یا اسپیس کی حدود کا تذکرہ کرتے ہیں تو چوہا، بندر اور ہاتھی الگ خدوخال میں نظر آتے ہیں۔ تخلیقی فارمولا یہ بنا کہ زندگی دو رخوں پر قائم ہے۔ ایک رخ وہ جو قائم ہے اور دوسرا رخ وہ ہے جو ایک طرف سے گھٹتا ہے اور دوسری طرف بڑھتا ہے اور تیسری طرف فنا ہو جاتا ہے۔
زندگی جس رخ پر قائم ہے سب کا سب ٹائم ہے۔ زندگی جس رخ پر گھٹ رہی ہے، بڑھ رہی ہے یا فنا ہو رہی ہے سب کا سب اسپیس ہے۔ زمانیت یا ٹائم میں کائنات کا ہر فرد اپنے دوسرے کو پہچانتا ہے اور ایک دوسرے سے متعارف ہے۔
سورج کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سورج جس طرح ہماری خدمت گزاری میں مصروف ہے۔ نو کروڑ تیس لاکھ میل کے فاصلے پر جب ہم زمین سے سورج کو دیکھتے ہیں تو ہماری نگاہ کور چشمی محسوس نہیں کرتی۔ اس کا مفہوم یہ نکلا کہ جب ہم اپنا رشتہ زمانیت سے قائم کر لیتے ہیں تو ہمارے لئے فاصلے معدوم ہو جاتے ہیں۔ ہماری آنکھ جو چند سو فٹ سے آگے نہیں دیکھ سکتی، نو کروڑ تیس لاکھ مِیل دُور دیکھ لیتی ہے۔
کائنات میں یا افراد میں تعارف کے لئے جو روشنی ذریعہ بن رہی ہے وہ ازل سے ایک ہی طرز پر قائم ہے۔ کائنات کے تمام افراد کی ’’انا‘‘ ’’نفس‘‘ یا ’’روح‘‘ ایک ہے، لیکن جسمانی خدوخال الگ الگ ہیں۔ جہاں انا ایک ہے وہاں ہر شئے میں اِشتراک ہے۔ مثلاً بھوک بکری کو بھی لگتی ہے کہ انسان کو بھی لگتی ہے، شیر کو بھی بھوک لگتی ہے۔بھوک کا لگنا زمانیت ہے لیکن انفرادی طور پر جب خدوخال مکانیت بنتے ہیں، شیر پتے نہیں کھاتا اور بکری گوشت نہیں کھاتی۔ بھوک لگنا زمانیت پر قائم ہے اور بھوک کو الگ چیزوں سے رفع کرنا اسپیس یا مکانیت ہے۔
آپس میں تعلق کا ذریعہ ایک روشنی ہے۔ یہ روشنی دو قسم کی ہے:
ایک قسم ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتی، داخلی آنکھ (روحانی آنکھ) سے نظر آتی ہے… اور
دوسری روشنی وہ ہے جسے ظاہری آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
ایک نگاہ سے نظر آنے والے خدوخال کی روشنی میں کسی قسم کا تغیّر نہیں ہے۔ بھوک رفع کرنے کا مسئلہ آتا ہے تو اس میں تغیّر واقع ہو جاتا ہے۔ تغیّر اور تبدل کی لاتغیّر حیثیت گریز اور کشش ہے۔ ایک چیز اپنے محور سے نکل کر اپنے محور کی طرف رجوع کر رہی ہے یا واپس پلٹ رہی ہے۔ یہ گریز ہے اور یہی چیز اپنے محور سے ہٹ کر کسی ایک مقام میں گریز کے ساتھ ساتھ قائم بھی ہے۔ یہ کشش (Gravity) ہے۔ روشنی کی ایک اصل غیر متغیّرہے۔ روشنی کی غیر متغیّر اصل ھَیُولیٰ ہے۔ یہ روشنی محض روشنی نہیں ہے۔ یہ روشنی خدوخال بھی رکھتی ہے۔ اس روشنی کے اندر جسم بھی ہوتا ہے اور نقش و نگار بھی ہوتے ہیں۔ اس کو ہم روشنی کا جسم کہہ سکتے ہیں۔ داخلی نگاہ اسے دیکھتی، ادراک اسے محسوس کرتا ہے، روشنی کا یہ جسم، جسمِ مثالی Auraہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 235 تا 238
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔