کیفیت اور خیال میں فرق
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12701
سوال: روحانیت کا کوئی طالب علم مراقبہ کرتا ہے تو اسے بہت ساری چیزیں نظر آتی ہیں۔ مراقبہ میں دیکھی ہوئی چیزیں کیا حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں ان کا تعلق خیال سے تو نہیں ہوتا؟ اگر ان چیزوں کا تعلق خیال سے ہے تو مراقبہ کی اپنی کیفیت اور خیال میں تمیز کیسے کی جائے گی؟
جواب: اس سوال کے جواب میں ایک سوال یہ نکلتا ہے کہ کیا ہماری زندگی میں کوئی بھی ایک ایسا عمل موجود ہے کہ جس کو ہم تخیّل کے علاوہ کوئی نام دے سکیں۔ کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ان سب کا تعلق بھی خیال سے ہی ہے۔ اگر کسی آدمی کو زندگی میں پانی پینے کا خیال نہ آئے تو آدمی کبھی پانی نہیں پئے گا۔ پہلے خیال آتا ہے پانی پینے کا یعنی پیاس لگتی ہے، پھر آدمی پانی پیتا ہے۔ بغیر پیاس کے کوئی آدمی پانی نہیں پیتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پیٹ ساتھ لگا دیا ہے۔ جب تک آدمی کو بھوک نہیں لگتی، آدمی روٹی نہیں، کھاتا تو بھوک لگنا کیا ہے۔ بھوک لگنا بھی ایک خیال ہے۔ ایک خیال کا نام بھوک رکھ لیا، پانی پینے کے خیال کا نام پیاس رکھ لیا، اعصاب تھک جاتے ہیں تو ان کو آرام کی ضرورت پیش آتی ہے، آرام کا نام نیند رکھ لیا۔ لیکن جب تک کسی آدمی کو نیند نہیں آئے گی وہ سوئے گا نہیں۔
آج کل تو یہ بہت زیادہ ہو گیا ہے کہ نیند کی گولیاں بھی کھاتے ہیں پھر بھی نیند کا خیال نہیں آتا ہے۔ اس میں کہیں گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ پھر یہی صورتحال ہر انسان کے ساتھ آپ دیکھتے ہیں کہ سونے کے بعد جاگنا بھی پڑتا ہے۔ کوئی انسان ساری زندگی سو نہیں سکتا۔ کوئی انسان ساری زندگی بیدار نہیں رہ سکتا۔ تو سونے کے بعد جو اٹھنا ہے وہ بھی ایک خیال ہے۔ تو یہ ساری زندگی خیال کے اوپر Depend کرتی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی ایک عمل کوئی بھی ایک جذبہ کوئی بھی ایک تقاضہ ایسا نہیں ہے کہ جس کو آپ یہ کہہ سکیں کہ یہ بغیر خیال کے ہم پورا کر لیتے ہیں۔
زندگی کے جتنے بھی جذبات ہیں ان کا تعلق خیال سے ہے۔ پہلے خیال آئے گا۔ آپ اس خیال کے اوپر Depend کرتے ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی ایک عمل، کوئی بھی ایک جذبہ، کوئی بھی ایک تقاضہ ایسا نہیں ہے کہ جس کو آپ یہ کہہ سکیں یہ بغیر خیال کے پورا پورا کر لیتے ہیں۔
زندگی کے جتنے بھی جذبات ہیں ان کا تعلق خیال سے ہے۔ پہلے خیال آئے گا۔ آپ اس خیال کو قبول کریں گے اس کے بعد آپ عمل کریں گے۔ یہ ساری زندگی عالم تخیّل ہے۔ عالم تخیّل کا مطلب ہے خیالات کے اوپر Depend کرنا۔
اس سوال کا جواب کہ روحانیت میں ہم جو کچھ دیکھتے ہیں کیا وہ حقیقت پر مبنی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انسان کے اندر یقین کا پیٹرن موجود ہو تو جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے حقیقت پر مبنی ہے اور اگر انسان کے اندر یقین کا پیٹرن موجود نہیں ہے تو وہ بھی فکشن ہے۔
اس کی مثال یوں ہے کہ ہم سب کہتے ہیں اللہ ہے، اللہ دیکھ رہا ہے اور باوجود کہ ہم کہتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے، ہم گناہ کر رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ یعنی ایک آدمی کسی آدمی کے سامنے بے ستر ہونا پسند نہیں کرتا۔ شرم و حیا کی وجہ سے۔ اس لئے کہ وہ آدمی یہ دیکھ رہا ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہے اور اُس سے وہ شرم کرتا ہے، حالانکہ وہ اسی جیسا آدمی ہے لیکن دوسری طرف جب وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے تو کوئی آدمی گناہ کیسے کر سکتا ہے؟
اِس کا مطلب کیا ہے؟
وہ جو یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے یہ اس کے لئے محض ایک لفظ ہے۔ یقین کا پیٹرن اس کے اندر موجود نہیں ہے جب یہ بات یقین بن جائے کہ اللہ دیکھ رہا ہے تو آدمی گناہ کیسے کر سکتا ہے؟ کوئی آدمی اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی قدم کیسے اٹھا سکتا ہے؟
ایک قصہ ہے کسی بزرگ کا کہ ان کے دو مرید تھے۔ ایک مرید پر وہ بہت زیادہ شفقت کرتے تھے۔ جس مرید پر زیادہ شفقت کرتے تھے اسے دوسرے لوگ ذرا محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ تجربے کیلئے اپنے ایک مرید کو کہا کہ بھائی یہ چیز ایسی جگہ دبا آؤ جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ وہ جنگل میں کہیں گیا، ادھر ادھر سب جگہ دیکھا وہاں کوئی آدمی نہیں تھا، وہ چیز وہیں دبا کے آ گیا۔
پھر اس کو بلایا جس پہ زیادہ شفقت تھی کہ میاں یہ ایک چیز ہے ایسی جگہ دبا کے آؤ جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ وہ صاحب صبح کے گئے شام ہو گئی۔ لوگوں نے اپنے پیر صاحب سے کہا کہ دیکھئے حضرت اتنا ذرا سا کام تھا سارا دن لگا دیا، شام کو وہ تھکے ماندے ہانپتے کانپتے آئے اور وہ چیز پیر صاحب کے سامنے رکھ دی۔ پیر صاحب نے کہا کہ ہم نے تم سے کہا تھا کہ اس کو دبا کے آنا جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ کہنے لگے صاحب صبح سے شام ہو گئی تلاش کرتے ہوئے کوئی جگہ ایسی نہیں ملی، جہاں بھی گیا اللہ دیکھ رہا تھا۔ تو دیکھئے یہ یقین کا پیٹرن ہے تو اگر کوئی انسان مراقبے میں کچھ دیکھتا ہے اس کے اندر اگر یقین کا پیٹرن ہے تو وہ کچھ دیکھ رہا ہے، صحیح دیکھ رہا ہے اور اگر اس کے اندر یقین کا پیٹرن نہیں ہے تو اگر وہ صحیح دیکھ رہا ہے تو غلط دیکھ رہا ہے۔
مراقبہ کا تعلق ایک طرزِ فکر سے ہے۔ ہر انسان کے اندر دو طرزِ فکر کام کرتی ہیں۔ ایک طرزِ فکر یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کو سامنے رکھتا ہے اور صرف اپنی ذات کو سامنے رکھنا شیطنیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ اس نے کہا صاحب میں تو اس سے بہت زیادہ پڑھا لکھا ہوں۔ میں تو مُعلّمُ الملکوت ہوں۔ میں تو آگ کا بنا ہوا ہوں میں اسے کیسے سجدہ کروں؟ سڑی ہوئی مٹی سے بنے ہوئے آدمی کو میں کیسے سجدہ کر سکتاہوں؟
اِس کا کیا مطلب ہوا؟
اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان کی اپنی ذات سامنے تھی۔ اللہ کا حکم سامنے نہیں تھا۔ غلطی آدم بھی کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا ہم نے تمہیں منع کیا تھا۔ تم نے ہماری حکم عدولی کیوں کی۔ دیکھئے! اب اللہ تعالیٰ کے سامنے آدم نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ نے جنّت بنائی۔ آپ نے درخت بنایا۔ اگر آپ درخت ہی نہ بناتے تو میں اس کے قریب ہی نہ جاتا وغیرہ وغیرہ۔ بس انہوں نے کہا تو کیا کہا۔
’’اے میرے ربّ، میں نے تو اپنے اوپر ظلم کر لیا۔ اگر آپ نے مجھے معاف نہیں کیا تو میرا تو کہیں ٹھکانا ہی نہیں ہے۔ آپ میرے اوپر رحم فرما دیں مجھے معاف کر دیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف – آیت نمبر – 23)
اب فرق دیکھئے، شیطان نے اپنی ذات کو سامنے رکھا وہ ملعون قرار پایا۔ آدم نے اپنی ذات کی نفی کر دی، وہ پیغمبر ہو گئے۔
تو اگر اپنی ذات کی نفی ہے، پھر تو وہ روحانی طرزِ فکر ہے اور اگر انسان کی اپنی ذات کی نفی نہیں ہے، تو وہ جو کچھ بھی دیکھ رہا ہے اس میں شیطانی وسوسہ ضرور ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 167 تا 170
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔