کونسی طرزِ فکر اللہ کے قریب کرتی ہے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11865
سوال: قرآن پاک کی تعلیمات و ارشادات میں تفکر کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن پاک میں دو طرزِ فکر بیان کی گئی ہیں۔ ایک طرزِ فکر وہ ہے جو بندے کو اللہ سے قریب کرتی ہے۔ جہاں وہ تمام مصائب، غم و آلام اور حُزن و ملال سے آزاد ہو کر زندگی گزارتا ہے۔ اطمینان اور علم و آگہی کی روشنی اس کی رگ و پَے میں سما جاتی ہے۔ اس کے برعکس دوسری طرزِ فکر وہ ہے جو بندے کو شیطان سے قریب کرتی ہے اور جس کے نتیجے میں وہ پریشانی، افسردگی، درماندگی، حُزن و ملال کی تصویر بن جاتا ہے۔ اس کے ذہن کی وسعت سمٹ جاتی ہے۔ علم و آگہی کے دروازے اس کے اوپر بند ہو جاتے ہیں اور دل زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ قرآن پاک کی دعوت یہی ہے کہ بندہ اس طرزِ فکر کو اپنے ذہن میں راسخ کر لے جو اسے اس کے خالق سے قریب کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ طرزِ فکر کیا ہے جو بندے کواس کے ربّ سے قریب کردیتی ہے؟
جواب: انسان کی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ خواہشات کے مجموعہ کا نام آدمی ہے اور خواہشات کے حُصول کے بہت سے ذرائع اس کی زندگی ہیں۔ انسان کے اندر خواہشات ابھرتی ہیں، وہ ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے مختلف ذرائع تلاش کرتا ہے اور ذہنی و عملی جدوجہد کر کے ان کی تکمیل کرتا ہے۔ دراصل زندگی خواہشات اور تقاضوں کا دوسرا نام ہے۔ مثلاً بھوک ایک خواہش ہے، پیاس ایک خواہش ہے۔ آدمی کے دل میں یہ تقاضا پیدا ہوتا ہے کہ وہ کسی سے پیار کرے اور کوئی اس سے پیار کرے، یہ بھی ایک خواہش ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کا نام باقی رہے۔ یہ بھی ایک خواہش ہے۔ مطلب یہ کہ انسان سراپا احتیاج ہے، ضرورت ہے۔
انسان کی عمومی حالت یہ ہے کہ وہ زندگی کے وسائل حاصل کرنے کے لئے اور اپنے تقاضے پورے کرنے کے لئے لوگوں سے توقعات وابستہ کرتا ہے۔ کبھی اس کا رخ والدین کی طرف ہوتا ہے کہ والدین اس کی ضروریات پوری کریں۔ کبھی یہ رخ اولاد کی طرف ہو جاتا ہے کہ اولاد بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔ کبھی وہ اپنے قُوّتِ بازو پر بھروسہ کرتا ہے اور علم و دانش کو وسائل کے حُصول کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ کچھ حاصل ہو جاتا ہے تو کہتا ہے ’’میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ اپنے علم اور اپنی قُوّتِ بازو سے حاصل کیا ہے‘‘۔ کبھی قارون و فرعون بن کر دعویٰ کرتا ہے کہ میں لوگوں کا حاجت روا ہوں۔
اس طرح وہ خود کو فریب دے کر سراب زدہ مسافر کی طرح بھٹکتا رہتا ہے اور نتیجہ میں اس کو خسارے اور ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ اپنی زندگی کا مقصد اور تمام جسمانی و ذہنی کوششوں کا رخ صرف اور صرف جسمانی تقاضوں اور خواہشات کی تکمیل بنا لیتا ہے۔ اور پھر جب اس کی زندگی کا مقصد کوئی نہیں رہتا تو خواہشات کا سلسلہ اتنا طویل ہو جاتا ہے کہ جو کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اس کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں جو کسی اور مقصد کے لئے ودیعت کی گئی ہیں محض خواہشات کی تکمیل میں خرچ ہو جاتی ہیں۔
انبیائے کرام علیہم السّلام کے تذکروں، ان کی طرزِ فکر اور ان کی تعلیمات پر غور کیا جائے تو ایک مشترک بات یہ سامنے آتی ہے کہ ان تمام قدسی نفس حضرات نے نوع انسانی کے اندر یہ طرزِ فکر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ فی الواقع انسان کا اصل رشتہ اللہ سے ہے۔ اللہ ہی اسے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہی زندگی میں کام آنیوالے وسائل تخلیق کر کے انسان کی جملہ ضروریات پوری کرتا ہے۔ زندگی کے تقاضے بھی اللہ کی طرف سے ہیں اور ہم زندگی میں ہر قدم پر یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمارے اندر زندگی کا جو بھی تقاضا ابھرتا ہے اس کی تکمیل کے لئے وسائل پہلے سے موجود ہیں۔ یعنی زندگی کے تمام تقاضے پورے کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے وسائل فراہم کر دیئے ہیں اور وسائل کی فراہمی اس بات کی شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ہر ضرورت کے کفیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اخلاص میں اپنی صفات کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا ہے:
’’کہو اللہ یکتا ہے، اللہ احتیاج اور ضرورتوں سے مُبرا ہے، وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور اور نہ کسی کا باپ اور نہ ہی اس کا کوئی خاندان ہے۔‘‘
اس سورۂ مبارکہ میں پانچ باتوں کا ذکر ہوا ہے:
۱۔ اللہ کثر ت نہیں ہے۔
۲۔ وہ احتیاج اور ضرورتوں اور کسی سے توقع قائم کرنے سے پاک ہے۔
۳۔ وہ نہ کسی کا باپ ہے۔
۴۔ اور نہ کسی کی اولاد ہے۔
۵۔ اور نہ اس کا کوئی خاندان ہے۔
تفکر سے بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان پانچ باتوں میں سے صرف ایک بات ایسی ہے جس میں بندے کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہ راست رشتہ ہے۔ بندہ یکتا نہیں ہو سکتا۔ وہ کسی کا باپ ہوتا ہے یا کسی کا بیٹا ہوتا ہے اور اس کا خاندان ہونا بھی ضروری ہے۔ صرف ایک بات میں یعنی ‘‘اللہُ الصّمَد’’ کہ اللہ احتیاج اور ضرورتوں سے ماوراء ہے۔ کوئی بندہ اللہ کے ساتھ ہم رشتہ ہو سکتا ہے وہ اس طرح کہ وہ اپنی تمام ضروریات، توقعات اور اپنے ہر عمل کو اللہ کی طرف موڑ دے اور صرف اسی سے وابستہ ہو کر رہ جائے۔ اس عمل کو تصوّف میں اِستغناء کہا جاتا ہے۔ اِستغناء اللہ سے قریب ہونے کا اور اللہ کا عرفان حاصل کرنے کا آسان ترین طریقہ ہے۔ انبیائے کرام علیہم السّلام اور ان کے شاگرد اولیاء اللہ کی طرزِ فکر یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی تمام ضروریات صرف اور صرف اللہ سے وابستہ رکھتے ہیں۔
اِستغناء کی صفَت کا حامل بندہ اپنی زندگی (Routine) میں گزارتا ہے۔ یعنی وہ زندگی کے تمام اعمال و حرکات اور تمام تقاضوں کو ضرورت کے تحت پورا کرتا ہے۔ اسے مقصد زندگی نہیں بنا لیتا۔ اس کا مقصد زندگی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہوتا ہے۔ وہ کھاتا ہے تو اس لئے کہ بھوک اللہ کا پیدا کردہ ایک تقاضہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی تعلیم و تربیت مناسب طریقہ پر ہو۔ اِستغناء کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان ایک جگہ بے حس و حرکت ہو کر بیٹھ جائے۔ اِستغناء کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ہر توقع اللہ کے ساتھ وابستہ کر لے اپنی کوششوں کے نتائج اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے اور اپنی ہر حرکت اور ہر عمل کو اللہ کی ذات کی طرف موڑ دے اور ہر معاملہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھے۔ رحمانی طرزِ فکر کے حامل بندے کا طرز عمل یہی ہوتا ہے کہ وہ ہر شئے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتا ہے اور اپنے تمام معاملات کو اللہ کے اوپر چھوڑ دیتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں انسانی ذہن کا خلفشار اور بے چینی عروج پر ہے۔ عامتہُ المسلمین کی ذہنی پریشانی، عدم تحفّظ کا احساس، خوف اور مستقبل کی طرف سے مایوسی کی وجہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہ ہم نے اپنے معاملات کو اللہ پر چھوڑنے کی بجائے مادی وسائل اور ذرائع کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ ہم آرزوؤں اور خواہشوں کی تکمیل کے لئے دن رات کوشش میں مصروف ہیں اور ہماری خواہشات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ ایک دوڑ ہے جو ہمیں ہوس پرستی کے خیالی گھوڑے پر آگ کی طرف دھکیل رہی ہے اور ذہنی کرب کے نقوش ہمارے چہرے سے عیاں ہیں۔
ان تمام مسائل سے نجات کا واحد راستہ اِستغناء ہے جو تمام انبیائے کرام علیہم السّلام کی سنت ہے۔ اِستغناء کی تفسیر یہی ہے کہ اپنی زندگی کی ڈور اللہ کے سپرد کر دی جائے اور مکمل طور پر اس کو اپنی ضروریات کا کفیل سمجھا جائے۔ اپنے ہر عمل اور ہر حرکت کا رخ اسی طرح رکھا جائے۔ عمل کے پہلو سے کبھی منہ نہ موڑا جائے۔ البتہ اس کے نتائج کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر چھوڑ دیا جائے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 30 تا 33
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔