کتنی نیند کرنی چاہئے؟
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=12079
سوال: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے دن کام کرنے کیلئے اور رات آرام کیلئے بنائی ہے۔ آپ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ لاشعور کو بیدار کرنے کیلئے نیند کم کرنی چاہئے۔ بابا تاج الدینؒ رات کو مراقبہ کرتے تھے، رات میں جاگنے سے لاشعور بیدار ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص اس طرح کرے تو بیمار نہیں ہو گا؟ کہتے ہیں کہ لوگ رات میں عبادت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتے ہیں، کتنی نیند کرنی چاہئے؟ کس وقت سوئیں؟ کس وقت اٹھیں؟ لاشعور کو بیدار کرنے کیلئے نیند کم کرنے سے بیمار تو نہیں ہونگے؟
جواب: نیند اور کھانے پینے کا تعلق عادت سے ہے مثلاً ایک آدمی خوراک ہے کہ وہ ۱۶ روٹیاں کھاتا ہے تو وہ ۱۶ روٹیاں کھاتا رہے گا، جسم اس کا پھیلتا رہے گا۔ ایسے بھی لوگ آپ نے دیکھے ہوں گے کہ میں نے اپنے پیر و مرشد کو دیکھا وہ چھوٹی چھوٹی دو ٹکیاں… ایک ٹکیہ صبح اور ایک ٹکیہ شام کو کھاتے تھے۔ چلتے پھرتے تھے، کاج کاج بھی کرتے تھے۔ نماز، روزہ، غسلخانہ جانا، اپنا چھوٹا موٹا کام کرنا، وہ سب کرتے تھے تو غذا کا جو مسئلہ ہے وہ ایسا ہے کہ اس کو جتنا چاہے بڑھا لو اور جتنا چاہے گھٹا لو۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ مجھے حیرت ہے کہ لوگ کھاتے ہیں اور مر جاتے ہیں یعنی وہ اتنا کھاتے ہیں کہ بیمار ہو جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ اب یہی صورت حال نیند کی ہے جو غذا کی ہے… کم کریں یا زیادہ کریں… ۱۶ روٹیاں کھائیں، ۴ روٹیاں بھی کھا سکتے ہیں۔ دو صبح کھائیں دو شام کھائیں۔ آپ کی صحت اچھی رہے گی۔ آپ اپنی غذا کو کم بھی کر سکتے ہیں اور اعتدال سے ہٹ کر زیادہ سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔ یہی صورت حال نیند کی بھی ہے۔ میں نے ایسے ایسے لوگ بھی دیکھتے ہیں جو ۱۶۔۱۶ گھنٹے سوتے ہیں ان کی کمر ہی نہیں دُکھتی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنی نیند بڑھا لی اور ایسے بھی لوگ ہیں جو تین چار گھنٹے سوتے ہیں اور تین چار گھنٹے سونے کے بعد بڑے چاق و چوبند رہتے ہیں اور حاضر دماغ رہتے ہیں۔ بہت کام کرتے ہیں خود میں جب شروع شروع میں کالم لکھتا تھا تو معمولاً ۱۹ گھنٹے روزانہ کام کرتا تھا۔ یہ آپ کے جو خطوط آتے ہیں وہ میں سارے خود ہی کرتا تھا۔ اب تو ماشاء اللہ مجھے بہت سارے لوگ مل گئے ہیں اُن سے بھی پورا نہیں ہوتا جبکہ میں اکیلا کر لیا کرتا تھا۔ ۱۹ گھنٹے میں، میں کبھی نہیں تھکا اس میں ذوق و شوق کا بھی حساب کتاب ہوتا ہے۔ میرے پیر و مرشد حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھ سے یہ فرمایا ہے کہ اللہ سے دوستی کرنی ہے تو مخلوق سے محبت کرو، خدمت کرو۔ تو ذوق و شوق میں نیند کا کوئی غلبہ نہیں ہوتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ سے فرمایا:
اے پیغمبرﷺ! کمبل اوڑھنے والے۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیبﷺ کو نت نئے ناموں سے یاد کرتے ہیں اپنے محبوبﷺ کو بڑے بڑے خطاب دیئے… کبھی حٰم کہہ دیا… کبھی یٰسین کہہ دیا… يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ… کہہ دیا… يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ… کہہ دیا، اپنے حبیبﷺ کو …
بھئی اپنے محبوبﷺ کو جس طرح بھی یاد کریں!
اے پیغمبرﷺ رات کو آدھی رات گزر جائے یا آدھی رات سے کم گزر جائے یا تھوڑی زیادہ گرزر جائے اٹھو اور اٹھ کر قرآن پڑھو…
اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ نیند پر کنٹرول حاصل کریں۔
تو زیادہ سونا جو ہے… جس طرح آدمی کم سونے سے بیمار ہوتا ہے یعنی اتنا کم سوئیں، ایک گھنٹہ ہی سوئیں، تو لازمی بیمار ہو جائیں گے۔ لیکن فرض کریں ایک آدمی کی نیند کا وقفہ ۵ گھنٹہ ہے اور وہ ۴ گھنٹہ سوئے تو بیمار نہیں ہو گا، عادت پڑ جائے گی اور ایک آدمی بالکل سوتا رہے تو وہ بیمار پڑ جائے گا۔
روحانی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ۵ گھنٹہ سے زیادہ نہیں سونا چاہئے۔
آدمی اگر ایک دم جاگنے کی پریکٹس شروع کر دے تو بیمار ہو سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ اگر پریکٹس کی جائے تو ۵ گھنٹے کی نیند انسان کی لئے کافی ہے۔ آدمی چست بھی رہتا ہے، خوش بھی رہتا ہے، صحت بھی اچھی رہتی ہے، بھوک بھی زیادہ لگتی ہے، آپ کبھی تجربہ کر لیں کہ کم سونے والے بندوں کو بھوک زیادہ لگتی ہے، کس لئے؟ اس لئے کہ جتنا کام کریں گے حرکت ہو گی، کھانا زیادہ ہضم ہو گا۔ اگر کسی چیز کو اعتدال سے ہٹ کر کیا جائے تو آدمی بیمار ہو جائے گا اور اگر کسی چیز کو اعتدال میں رہ کر کیا جائے، آہستہ آہستہ کیا جائے اور ساتھ یہ کہ اس کے پیچھے کوئی رہنما بھی ہو استاد بھی ہو تو اس میں کوئی اس کا نقصان بھی نہیں ہو گا تکلیف نہیں ہو گی۔
جس طرح زندگی کے دوسرے تقاضے پورے کرنے کیلئے ہم اعتدال اختیار کرتے ہیں۔ اگر اسی صورت سے نیند کی کمی کر دیں، نیند کی کمی سے بلاشبہ لاشعور بیدار ہوتا ہے۔ نیند کی کمی اس حد تک کر لیں کہ جتنی ہمیں نیند کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں ۵ گھنٹہ نیند کی ضرورت ہے تو ۶ گھنٹے کیوں سوئیں؟ اگر ہمیں ۶ گھنٹے نیند کی ضرورت ہے تو ہمیں چاہئے کہ ۶ گھنٹے سوئیں، ۷ گھنٹے کیوں سوئیں؟ ان ۷ گھنٹوں میں دنیا کا کام کریں، مطالعہ کریں اللہ کے نام کو پھیلانے کیلئے تبلیغ کا کام کریں۔ دَسیوں کام کر سکتے ہیں۔ آدمی اعتدال سے ہٹ کر کوئی بھی کام کرے گا بیمار ہو جائے گا۔ وہ نیند ہو، چاہے وہ کھانا ہو۔ کھانا آپ اعتدال سے ہٹ کر کھائیں گے بیمار ہو جائیں گے اور اگر اعتدال میں رہ کر کام کیا جائے تو وہ کام خوشی کا باعث بن جاتا ہے اور اس سے صحت مندی حاصل ہوتی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 140 تا 143
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔