کائنات کے تخلیقی خدوخال
مکمل کتاب : روح کی پکار
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=11942
سوال: کائنات کے تخلیقی خدوخال کیا ہیں؟
جواب: کائنات دراصل اللہ تعالیٰ کا وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس بات سے واقف تھے کہ کائنات کے تخلیقی خدوخال کیا ہیں۔ اپنے علم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تخلیقی خدوخال کو اپنے حکم اور ارادے سے صورت شکل بخش دی۔ اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا مخصوص اور ذاتی علم صورت شکل بن کر وجود میں آ گیا۔ اب ہم یوں کہیں گے کہ کائنات کی بنیاد، کائنات کی حقیقت علم اور صرف علم ہے۔ یعنی کائنات نام ہے صرف اللہ تعالیٰ کے علم کا۔ جب تک یہ علم، علم تھا اور اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھا اور جب اللہ تعالیٰ کے ذہن میں یہ علم اپنے معانی، مفہوم اور نقش و نگار کے ساتھ ظاہر ہوا تو اس کا نام کائنات بن گیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ بندے مجھے پہچانیں، میرا تعارف حاصل کریں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ خود ایک علم ہیں ایسا علم جو ماوراء اور تمام علوم پر محیط ہے، اس لئے ضروری ہوا کہ مخلوقات میں سے کسی ایک مخلوق کا انتخاب کر کے اسے علم کی دولت سے نوازا جائے۔ قرعۂِ فال آدم کے حق میں نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم سکھایا۔
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا (سورۃ البقرہ – آیت نمبر 31)
اپنی صفات اور اسماء کا علم عطا کیا۔ اسماء سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جو صفات کائنات کے خدوخال میں موجود ہیں۔ یہ وہ علم ہے جو آدم کے لئے مخصوص ہے۔ یہ ایسا علم ہے کہ جس سے فرشتے بھی ناواقف ہیں۔ اس علم کی حیثیت اتنی عظمت والی ہے کہ جب یہ علم آدم نے سیکھ لیا تو فرشتوں کو آدم کے سامنے جھکنا پڑا۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ… سے مراد یہ ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ کائنات میرے ذاتی علم کا ایک حصّہ ہے اور اس علم میں معانی اور مفہوم کے ساتھ بے شمار فارمولے ہیں، جن فارمولوں سے یہ کائنات تخلیق کی گئی اور جن فارمولوں پر یہ کائنات قائم ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں کا علم سکھا دیا، ایسی طرز ہے جو عام سطح کے ذہن کے لئے بیان کی جا سکتی ہے۔ روحانیت میں اسماء سے مراد وہ فارمولے ہیں جن فارمولوں پر کائنات کی تخلیق کی گئی ہے۔ آدم کو کائناتی تخلیق کے فارمولے سکھانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنّت میں بھیج دیا۔ یہ بات بہت زیادہ اہم ہے کہ اس وقت جنّت میں آدم کی پوزیشن ایک ایسے سائنس دان کی ہے جو کائنات کے تخلیقی فارمولوں کا عالم ہے۔ ان فارمولوں میں بنیادی فارمولا یہ ہے کہ ساری کائنات ایک علم ہے اور آدم اس علم میں معانی اور مفہوم کے ساتھ تصرّف کر سکتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کُن ارشاد فرما کر ساری کائنات کو وجود عطا کر دیا ہے اسی طرح کائنات میں موجود تمام تخلیقات پر فی الارض خلیفہ کی حیثیت سے آدم کو تصرّف کرنے کا اختیار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں کائنات کی تخلیق کا تذکرہ کیا ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔ اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق کے ایک ایسے خالق ہیں کہ جن کی تخلیق میں وسائل کی پابندی زیر بحث نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے میں جو چیز جس طرح اور جن خدوخال میں موجود ہے، جب وہ اس چیز کو وجود بخشنے کا ارادہ کرتے ہیں تو حکم دیتے ہیں اور اس حکم کی تعمیل میں تخلیق کے اندر جتنے وسائل ضروری ہیں وہ سب وجود میں آ کر تخلیق کو عمل میں لے آتے ہیں۔
خالقین کا لفظ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی تخلیق کرنے والے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی طرح دوسری ہر تخلیق وسائل کی پابند اور محتاج ہے۔ اس کی مثال آج کے دور میں بجلی سے دی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک تخلیق بجلی ہے۔ جب بندوں نے اس تخلیق سے دوسری ذیلی تخلیقات کو وجود میں لانا چاہا تو اربوں کھربوں چیزیں وجود میں آ گئیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وصف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لفظ ‘‘کُن’’ کہہ کر بجلی کو وجود بخش دیا۔ آدم نے اختیاری طور پر یا غیر اختیاری طور پر جب بجلی کے علم کے اندر تفکر کیا تو اس بجلی سے ہزاروں چیزیں وجود میں آ گئیں۔ بجلی سے جتنی چیزیں وجود میں آئیں وہ انسان کی تخلیق ہیں۔ مثلاً ریڈیو، ٹی وی، لاسلکی نظام اور دوسری بے شمار چیزیں۔ روحانی نقطۂِ نگاہ سے اللہ تعالیٰ کی اس تخلیق میں سے دوسری ذیلی تخلیقات کا مظہر بننا، آدم زاد کا دراصل بجلی کے اندر تصرّف ہے۔ یہ وہی علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھا دیا تھا۔ اسماء سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک ایسا علم سکھا دیا کہ جو براہِ راست تخلیقی فارمولوں سے مرکب ہے۔ جب انسان اس علم کو گہرائی کے اندر جا کر حاصل کرتا ہے اور اس علم کے ذریعے تصرّف کرتا ہے تو نئی نئی چیزیں سامنے آ جاتی ہیں۔ بات یہی ہے کہ کائنات دراصل ایک علم ہے، ایسا علم جس کی بنیاد اور حقیقت سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو وقوف عطا کر دیا ہے۔ لیکن اس وقوف کو حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری قرار دے دیا ہے کہ بندے علم کے اندر تفکر کریں۔ یہ بات ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
’’ہم نے لوہا نازل کیا اور اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فائدے ذخیرہ کر دیئے۔‘‘
جن لوگوں نے لوہے کی حیثیت اور طاقت کو تسلیم کر کے لوہے کی صفات میں تفکر کیا، ان لوگوں کے سامنے لوہے کی لامحدود صلاحیتیں آ گئیں اور جب ان صلاحیتوں کو استعمال کر کے لوہے کے اجزائے ترکیبی کومتحرک کر دیا تو بے شمار چیزیں وجود میں آ گئیں۔ لوہا ایک وجود ہے اسی طرح روشنی بھی ایک وجود ہے۔ وسائل کی حدود سے گزر کر یا وسائل کے علوم سے آگے بڑھ کر جب کوئی بندہ روشنیوں کا علم حاصل کرتا ہے تو جس طرح لوہے میں تصرّف کے بعد وہ عظیم الجثہ مشینیں، کل پرزے، جہاز، ریل گاڑیاں، بڑے بڑے بم اور دوسری ترقّیوں میں لوہے کو استعمال کرتا ہے اسی طرح روشنیوں کے علوم حاصل کر کے وہ روشنیوں کے ذریعے بہت ساری تخلیقات وجود میں لے آتا ہے۔ تصوّف میں اسی بات کو ’’ماہیتِ قلب‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وسائل میں محدود رہ کر ہم نے سونے کے ذرّات کو اکٹھا کر کے ایک خاص پروسیس سے گزار کر سونا بناتے ہیں۔ اس کو وسائل میں تصرّف کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن وہ بندہ جو روشنیوں میں تصرّف کرنے کا اختیار رکھتا ہے اس کے لئے سونے کے ذرّات کو مخصوص پروسیس سے گزارنا ضروری نہیں ہے۔ وہ اپنے ذہن میں روشنیوں کا ذخیرہ کر کے ان مقداروں کو الگ کر لیتا ہے جو مقداریں سونے کے اندر کام کر رہی ہیں۔ اور ان مقداروں کو ایک نقطہ پر مرکوز کر کے ارادہ کرتا ہے ’’سونا‘‘ سونا بن جاتا ہے۔
اس بات کو دوبارہ بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق میں کسی کے محتاج نہیں ہیں جب وہ کوئی چیز بنانا چاہتے ہیں تو کُن کے ساتھ تخلیق کے لئے جتنے وسائل کا ہونا ضروری ہے وہ خود بخود تخلیق ہو جاتے ہیں۔ اور بندے کا تصرّف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تصرّف کرتا ہے۔ تصرّف کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ وسائل میں محدود ہو کر وسائل کو مجتمع کر کے کوئی نئی چیز بنائی جاتی ہے اور دوسرا طریقہ روشنیوں میں تصرّف کرنا ہے یعنی کوئی چیز جن روشنیوں پر قائم ہے ان روشنیوں کی مقداروں میں ردّ و بدل کر کے تصرّف کیا جاتا ہے۔ تصرّف کا یہ طریقہ انسان کے اندر ان روشنیوں سے متعلق ہے جن روشنیوں کو اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء کہا ہے۔ روشنیوں کے اس ذخیرے کو حاصل کرنے کا طریقہ ہی دراصل روحانیت ہے۔ روحانیت میں یہ بات دن کی رشنی کی طرح سامنے آ جاتی ہے کہ زمین پر موجود اور پوری کائنات میں موجود ہر شئے کی بنیاد اور بساط روشنی ہے۔ اور یہ روشنی اللہ تعالیٰ کی صفَت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر صفَت معیّن مقداروں کے ساتھ قائم ہے اور معیّن مقداروں کے ساتھ ردّ و بدل ہوتی رہتی ہے۔ اور معیّن مقداروں کے ساتھ گھٹتی بڑھتی ہے۔ پیدائش سے موت تک کا زمانہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کوئی بچہ اپنی ایک حیثیت پر قائم نہیں رہتا۔ جن معیّن مقداروں پر بچہ پیدا ہوا ہے ان معیّن مقداروں میں ایک ضابطہ، ایک قانون اور ایک ترتیب کے ساتھ ردّ و بدل ہوتا رہتا ہے۔ جس طرح مقداروں میں ردّ و بدل ہوتا رہتا ہے اسی مناسبت سے آدمی بھی بدلتا رہتا ہے۔
یہاں دو طرزیں زیرِ غور آتی ہیں۔ آدم کا بچہ، بچہ ہو، جوان ہو، بوڑھا ہو بہرصورت وہ آدمی رہتا ہے۔ یعنی اس کی شکل و صورت اور خدوخال میں تو تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن نوعِ انسانی کی شکل و صورت برقرار رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے کنبے کو مختلف نوعوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک معیّن مقدار یہ ہے کہ انسان ہر حال میں انسان رہتا ہے لیکن اس کے خدوخال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اور زندہ رہنے کے تقاضوں میں ردّ و بدل ہوتا رہتا ہے۔ ایک بکری کا بچہ ہر صورت بکری کا بچہ رہتا ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ اس کے اندر زندگی گزارنے کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں۔ اب اس بات کو اس طرح کہا جائے گا کہ معیّن مقداریں دو رخ پر قائم ہیں۔
1. ایک رخ یہ ہے کہ اس میں ردّ و بدل ہوتا رہتا ہے… اور
2. دوسرا رخ یہ ہے کہ بظاہر کوئی ردّ و بدل واقع نہیں ہوتا۔
ردّ و بدل یہ ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کے نقوش دُھل جاتے ہیں اور اس طرح دُھل جاتے ہیں یا مٹ جاتے ہیں کہ جوانی کی تصویر اور بڑھاپے کی تصویر دو الگ الگ تصویریں نظر آتی ہیں۔ اس کو معیّن مقداروں میں رد وبدل کا نام دیا جاتا ہے اور وہ مقداریں جو قائم بالذات ہیں یہ ہیں کہ آدمی ایک دن کا بچہ ہو یا سو سال کا بوڑھا ہو، بھوک کا تقاضہ اس کے اندر موجود ہے، پانی پینے کا تقاضہ اس کے اندر موجود ہے۔
عجیب رمز ہے کہ دو سال کا بچہ بھی پانی پیتا ہے، دو سال کا بچہ بھی غذا کھاتا ہے….
سو سال کا بوڑھا آدمی بھی پانی پیتا ہے، سو سال کا بوڑھا آدمی بھی غذا کھاتا ہے…
لیکن سو سال کا آدمی دو سال کا بچہ نہیں ہوتا اور دو سال کا بچہ سو سال کا بوڑھا آدمی نہیں ہوتا۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ روحانی علوم ہمارے اوپر یہ بات واضح کرتے ہیں کہ بڑھاپے اور بچپن کے تقاضے یکساں ہونے کے باوجود صورت و شکل اور خدوخال رنگوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور صورت، شکل اور خدوخال کے ردّ و بدل میں اللہ تعالیٰ کے کون سے علم کام کر رہے ہیں۔ ان علوم سے روشناس ہونے کے لئے پہلی بات یہ ضروری ہے کہ ہم ان روشنیوں کا علم حاصل کریں جن روشنیوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کہا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 64 تا 68
روح کی پکار کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔